پائندخان خروٹی
علم نفسیات کی دنیا میں سب سے نمایاں نام سیگمنڈ فرائڈ کا ہے۔ فرائد کے ساتھ جن دو بڑی شخصیات کے نام آتے ہیں وہ کارل جونگ اور الفریڈ ایڈلر ہیں۔ کارل جونگ نہ صرف علم النفسیات کا معتبر نام ہے بلکہ سیگمنڈ فرائڈ کے ساتھ کئی برس کی قرابت، انٹرنیشنل سائیکواینالائٹکل سوسائٹی کی تشکیل اور بیرونی ممالک کے دورے کے موقع پر ہم سفر رہنے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔
آج ہمارا مقصد کارل جونگ کے تین علمی اختلافات پر گفتگو کرنا ہے جو کارل جونگ نے اپنے اُستاد سگمنڈ فرائڈ کے ساتھ کیے جو مندرجہ ذیل ہیں۔ وہ سگمنڈ فرائڈ کے اس تصور کو من وعن تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ انسان کی تمام سرگرمیوں کا واحد اصل محرک جنس ہے جس کیلئے انہوں نے لیبیڈو کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ کارل جونگ کے خیال میں سیکس کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن اسے واحد محرک قوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ نفسیاتی تشخیص کیلئے سگمنڈ فرائڈ متعلقہ شخص کے بچپن کی نہ پوری ہونے والی خواہشات، مذکورہ شخص کے ساتھ ساتھ ہونے والے واقعات اور خواب کا تجزیہ کرتا ہے جو اس کے لاشعور میں موجود ہوتے ہیں جبکہ اس بارے میں کارل جونگ کا خیال میں لاشعور انفرادی یا ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی شعور کا آئینہ دار ہوتا ہے جو فرد کے وجود میں آنے سے قبل کی انسانی یادداشتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ گویا آج کا علم و ہنر ماضی کے تسلسل میں ہے اور پورے بنی نوع انسان کے مشترکہ مشاہدے اور تجربات کا نچوڑ ہے۔
واضح رہے کہ ماضی کے علم کی بعض حصے لمحہ موجود میں غیرمتعلق بھی ہو جاتے ہیں۔ اس انسان کے خواب میں کبھی کبھار ایسی چیزیں بھی آتی ہیں جو اُس نے اپنی عملی زندگی میں نہ دیکھی ہو۔ کارل جونگ کہتا ہے کہ وہ ان دیکھی اور ان سنی چیزوں کا تعلق انفرادی لاشعور کی بجائے اجتماعی لاشعور سے ہوتا ہے۔
کارل جونگ کا تیسرا اور بہت دلچسپ نقطہ یہ ہے کہ صنفی برتری کو ثابت کرنے کیلئے معاشرے میں انسانی صفات، خصوصیات اور کردار کو عورت کیلئے الگ کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نزاکت، نرمی، اور ایسے ہی دیگر اوصاف عورت سے منسوب کر دیے گئے ہیں جبکہ تشدد، طاقت، بہادری اور جارحانہ پن جیسی کیفیات مرد کیلئے مخصوص ہو رہی ہیں۔ انہوں نے اس کیلئے اینما اور اینمس کی اصطلاحیں وضع کی ہیں۔ نسوانی اوصاف کو معتوب اور حقیر قرار دیے ہیں جبکہ مردانہ اوصاف کو زندگی کا اصل جوہر بتایا جاتا ہے۔ کارل جونگ کے خیال میں عورت کو مردانہ صفات سے معمور کر کے اور مرد کو نسوانی صفات سےمزین کر کے معاشرتی توازن اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
بقول غالب
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا