شناخت ،اقدار اور آزادی-3


مہرجان

اب اگر شناخت کو جدلیاتی تناظر میں مادی و نفسیاتی دنیاؤں سے جوڑ کر کلیت میں دیکھا جائے جو کہ جدلیات کا تقاضہ ہے، تو ذہن میں لامحالہ بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا انسان کی ایک شناخت ہے یا لاتعداد ؟ انسان کا ریشنل ہونا یقیناً اک بنیادی و حقیقی شناخت ہے ، لیکن انسان پھر لاتعداد شناختوں میں نہ صرف بٹ جاتا ہےبلکہ لاتعداد (سیلف/ادر) کے ساتھ تعلقات میں اپنی اپنی شناخت کی بنیاد پہ آجاتا ہے۔

دراصل یہ لامحدود سماجی تعلقات کی بنیاد شناخت(محبت ، عزت و وقار) ہے۔ اس لیے بہت سے اکابرین علم شناخت کی لامحدودیت کو دیکھ کر شناخت کی سیاست سے کنارہ کش ہوتے ہیں اور انسان کو فقط مادی دنیا سے جوڑ کر فقط مادی ضروریا ت کو پورا کرنے کی تگ و دو میں انسان کو ایک معاشی جانور تک محدود کرتے ہیں ۔ تاریخ ، زمین ، اقدار ، قومی تشخص کی تشخیص ان سے نہیں ہوپاتی نہ ہی کالوناہزر و کالوناہزڈ کی سیاست کا ٹھوس تجزیہ ان سے ہوتا ہے ۔

حاکم و محکوم کے “بنیادی تضاد” کو وہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ان جیسے اکابرین کو جو قومی تشخص کو نظر انداز کردیتے ہیں ، ٹینڈ گرانٹ و ایلن ووڈ جیسے علم دوست مارکسسٹ مارکسزم سے بھی دشمنی گردانتے ہیں، کیونکہ وہ دراصل کالونیل گراؤنڈ پہ حقیقی بنیادوں پہ تجزیہ نہیں کرپاتے ،جدلیاتی اصول کو پس پشت ڈال کر فقط سطحی مطالعہ ، مابعدالطبیعاتی تجزیہ ، اور غیر انقلابی عمل پہ اکتفاء کیے بیٹھتے ہیں ،معروض کی بجائے موضوعیت پہ انحصار کررہے ہوتے ہیں، جو جدلیات سے مکمل انحراف کی ایک شکل ہے ۔

ہیگل کا ادنی سا طالب علم بھی اس تضادات کیلامحدودیت کے بنتر کو نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ جدلیات کا اس حوالے سے مخصوص اصول یعنی “بنیادی تضاد” کو سمجھ کر اپنی مزاحمت کو فلسفیانہ میدان مہیا کرتاہے جیسے کہ ماؤزے تنگ نے ہیگلیائی فلسفے کا مخصوص اصول یعنی “بنیادی تضاد” کو جدلیاتی مادیت کی صورت میں مزاحمت کے لیے مرکز بنایا ۔

ماؤ زوے تنگ نے تضاد کے”دو کائناتی تصورات ، تضاد کی ہمہ گیریت ، تضاد کی تخصیص ، اصل تضاد اور تضادکا اصل پہلو ، تضاد کے مختلف پہلوؤں کی یکسانیت اور کشمکش ، اور تضاد میں مخاصمت کی حیثیت “ پہ مدلل انداز سے اپنا موقف سامنے رکھا ہے یہ دنیا تضادات کی دنیا ہے ، مظاہر فطرت سے لےکر انسانی فکر کے ہر گوشے میں تضادات ہر جاہ جلوہ گر ہیں ، لامحدود تضادات کے درمیان مماثلت و افتراق کے جدلیاتی اصول کو مد نظر رکھ کر “بنیادی تضاد” کو جاننا ہیگلیائی جدلیات کی بنیاد ہے۔ اگر فلسفہ کی دنیا کو بطور مثال سامنے رکھا جائے تو تضادات کا لامتناہی سلسلہ سامنے آتا ہے لیکن ان لامحدود تضادات میں بنیادی تضاد کو دیکھنا مقصود ہو تو پھر “مادہ/خیال” ہمارے سامنے “بنیادی تضاد” کے طور پہ ابھر کر آتا ہے اور اسی “بنیادی تضاد” کو مرکز بناکر معتبر فلاسفرز نے اپنے فلسفیانہ نظام کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

اس لیے کسی بھی فلسفیانہ نظام کی بنیاد یا تو خیال ہوتی ہے یا پھر مادہ ، یا پھر ان دونوں کا مجموعہ ، خیال اور مادہ کا یہ بنیادی تضاد “حقیقی تضاد” کہلاتا ہے ،اسی بنیادی تضاد کے عمل سے دیگر فلسفیانہ علوم نشونما پارہے ہیں ، بقول ماؤ “تضاد کی تخصیص اور اضافیت کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں اصل تضاد اور غیر اصل تضادات کے درمیان امتیاز کرنے اور تضاد کے اصل پہلو اور غیر اصل پہلو کے درمیان امتیاز کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔۔۔وگرنہ ہم غلطیوں کا ارتکاب کر بیٹھیں گے “۔ شے کا اندرونی تضاد(بی اینگ و نتھنگ) اسے شے بناتا رہتا ہے، جو کہ “بنیادی تضاد” کے زمرے میں آتا ہے ،۔۔

بقول لینن “جدلیات دراصل اس تضاد کا مطالعہ ہے جو خود اشیاء کے اندر موجود ہوتا ہے”اور اس شے کو بنیادی امتیاز “مماثلت و افتراق” کے تحت “بنیادی تضاد” کی صورت میں ملتا ہے ، یہ اصول صرف اشیاء تک محدود نہیں ، جب بات انسانی سماج کے اندر شناخت اور امتیاز کی ہو تو یہی اصول وہاں سماج کے اندورنی عوامل میں بھی کارگر ثابت ہوتے ہیں ۔ جہاں انسان بطور تاریخی عامل کے موجود ہے ۔ انسان اپنے آپ (سیلف)میں نہ صرف پارٹیکولر (مخصوص ) ہوتا ہے، بلکہ ادر(انسان) کی وجہ سے وہ اپنے مخصوص پن کی نفی کرکے یونیورسل اور پھر ان کا مجموعہ (پارٹیکولر اور یونیورسل) سینگولر (انڈیویچول ) بن جاتا ہے ،یعنی ھیگل کی “میں” صرف میں نہیں بلکہ “ہم “ ہے اور “ہم” صرف ہم نہیں “میں” ہے۔

یہ نفی در نفی کا اصول جدلیاتی ہے ، جہاں انسان تاریخ کا سفر طے کررہا ہوتا ہے ، اب سیلف و ادر کا تعلق انفرادی سطح سے اُٹھ کر کمیونٹی میں موجود ہوتا ہے ، تاریخ “فرد”کی بجائے بقول مارکوزے “کمیونٹی” کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک کمیونٹی کی شناخت ایک تاریخی (رد و نمو) کے مراحل میں بن رہی ہوتی ہے ،جہاں وقت کے ساتھ ساتھ کسی سماج میں کمیونٹی ،قوم اور پھر بین الاقوامیت میں تبدیل ہوجاتی ہے تو کسی سماج میں طبقات بالائ و ذیلی طبقات کی صورت جنم لیتی ہے ، وہ پارٹیکولر ہونے کے ساتھ ساتھ یونیورسل اور پھر مجموعی طور پہ انفرادی بھی ہوتی ہے۔

ہیگل کے ہاں اسی رد و نمو کے “عمل” کو شناخت کہا جاتا ہے، اب یہ شناخت فقط ایک تجریدی خیال نہیں رہتا ، کیونکہ تجریدی خیال میں رد و نمو کا سلسلہ نہیں ہوتا ، وہ فقط ایک خیال ہوتا ہے جبکہ اس کے مقابل نوشن(فکر) میں ایک ارتقائ عمل کا دخل ہوتا ہے جو مقرونی ہوتا ہے ، جہاں ہر ذی شعور کا فیصلہ فکری بنیادوں پہ ہوتا ہے ، کہ وہ کسی بھی سماج میں نہ صرف اپنے (سیلف)لیے “محبت و عزت اور وقار” کو ملحوظ خاطر رکھے بلکہ دوسروں(ادر) کے ساتھ یہی “محبت و عزت و وقار “ کا رشتہ بھی برقرار رکھے، اب کسی بھی سماج کے اندر کسی بھی انسان یا کسی بھی قوم کے وجود (شناخت) کی نفی کرنا ان کی اقدار کی نفی کرنا ، ان کی آزادی کو سلب کرنا یہ تناظر “سیلف و ادر” “حاکم و محکوم” “آقا و غلام” کے درمیان کسی بھی سماج میں “بنیادی تضاد” کی وجہ سے بنیادی امتیاز حاصل کرپاتا ہے۔

شناخت اگر کسی بھی قوم یا طبقہ کی محکوم ، و غلام کی بن جائے ، تو حاکم و محکوم کی شناخت میں “بنیادی تضاد” فکری بنیادوں پہ سامنے آجاتا ہے ، یہ “بنیادی تضاد” یا شناختوں کا عمل اس لامحدود شناختوں کے زمرے نہیں آتا ، جسے ہیگل مصنوعی لامحدودیت کہتا ہے۔ حاکم و محکوم کے اس “بنیادی تضاد” کو سامنے رکھ کر کوئی بھی ذی شعور انسان انہیں ایک جیسا قرار دے کر مشترکہ اقدار کے لیے جہد نہیں کرتا ، کیونکہ اس تضاد کو جدلیاتی انداز سے ختم کیے بغیر حاکم و محکوم کو ایک جیسا قرار دے کر مشترکہ اقدار کے لیے جہد کرنا محکوم کے لیے خطرناک ترین ثابت ہوتا ہے۔

حاکم ہر لحاظ سے محکوم سے مضبوط ہوتا ہے، اب وہ مشترکہ جہد کے تناظر میں مضبوط تر ہوتا جاتا ہے ، حاکم کا پارلیمنٹ ، عدلیہ ، ایگزیکٹیو کو مضبوط کرنا حاکم کی مضبوطی کی مترادف ہے ،گر کوئ اس تضاد کو جدلیاتی انداز سے ختم کیے بغیر مشترکہ اقدار کی جہد کی بات کرتا ہے وہ شعوری یا لاشعوری طور پہ حاکم کے مضبوط بیانیہ کو اور مضبوط تر کررہا ہوتا ہے ، یہی وہ بنیادی تضاد ہے جس کو سمجھے بغیر لکھاری حضرات “کائناتی شہری” کے فقط برانڈز کا لیبل لگا کر بوتل میں استعمار کی شراب کو بیچتے ہیں ۔

مارکسی فلسفہ بھی قطعا اس بات کی تائید نہیں کرتا کہ بورژوائ اقدار کے لیے پرولتاریہ بھی کمر بستہ ہو جائے،جبکہ ریاستی لبرلز کے لیے ریاست او لین رہا ہے ، اس تناظر پہ بہت کچھ معاصرانہ فلسفے میں لکھا جارہا ہے۔ کوئی بھی انسان کسی بھی نظریاتی شناخت کو اپنا کر محکوم کی شناخت کو کسی بھی (سیاسی و اخلاقی) لحاظ سے زدکوب نہیں کر سکتا کہ محکوم اپنی زمین ، اقدار و تاریخ اور اپنے محکوم و مظلوم لوگوں سے منہ موڑ کر مشترکہ اقدار کے لیے جہد کرکے حاکمیت کا بول بالا کرے۔ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ زمین و اقدار کی ٹھوس تاریخ ، جدلیاتی اصول کے تحت “بنیادی تضاد” کو بالا ئے طاق رکھ کر فقط فکری موضوعیت کے تحت استعمار (ادر) کے بیانیہ کو کسی بھی ازم کے تحت تقویت دے ۔

۔جاری ہے۔

پہلا حصہ

شناخت، اقدار اور آزادی

دوسرا حصہ

شناخت ، اقدار اور آزادی۔2