نیا سال ایران اور اُس کے عوام کے لیے آسان نہیں ہوگا کیونکہ حکمرانوں اور عوام کے مابین دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایران خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی ایک بند گلی میں پہنچ چُکا ہے۔
گزشتہ سال یعنی 2022 ء ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک کا ایک ایسا سال ثابت ہوا جس میں تہران حکومت کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا رہا۔ یعنی1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک یمن میں مساوی حقوق اور مزید آزادیوں کا مطالبہ کرنے والی خواتین کی قیادت میں ہونے والے عوامی مظاہروں نے مذہبی علماء پر مشتمل حکومت کو اب تک سب سے بڑی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
پولیس کی حراست میں 22 سالہ کرد نسل ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت نے ایرانی خواتین کو روزمرہ کی تذلیل، بدسلوکی اور صنفی امتیاز کے خلاف سڑکوں پر آنے کے لیے متحرک کر دیا ہے۔
سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید کریک ڈاؤن کے باوجود، ہزاروں ایرانی لڑکیاں اور خواتین عوامی مقامات پر سر پر اسکارف پہننے سے انکار کر رہی ہیں اور انہوں نے اس پابندی کے خلاف ملکی سیاسی نظام کو چیلنج کر رکھا ہے۔
ایک ماہر عمرانیات آزادہ کیان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا،”ایران میں خواتین جو کچھ کر رہی ہیں یہ ایک انقلاب سے کم نہیں، یہ کم از ایک ثقافتی انقلاب ہے‘‘۔
پیرس یونیورسٹی کے سینٹر فار جینڈر اینڈ فیمینسٹ اسٹیڈیز کی ڈائریکٹر اور ایک طویل عرصے سے ایران میں خواتین کی تحریکوں پر تحقیق کرنے والی محقق آزادہ کیان کا مزید کہنا تھا،”ہم پہلی بار دیکھ رہے ہیں کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے خوف پر قابو پا چکی ہے اور کم از کم بڑے شہروں میں، لازمی حجاب کے بغیر عوامی سطح پر خود کو ظاہر کر رہی ہیں۔ ‘‘ان کا مزید کہنا تھا،” ایران میں موجودہ مظاہروں اور احتجاج نے معاشرے میں پائے جانے والے خواتین کے تشخص کو بہت حد تک سیکولرائز کر دیا ہے اور اس سے ایرانی خواتین کو اپنے مساوی حقوق کی جدو جہد تیز تر کرنے کی ترغیب ملی ہے‘‘۔
ایران جیسی مذہبی ریاست کے نظریے میں خواتین کی تصویر غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے کیونکہ اس ایرانی مذہبی ریاست کے مطابق معاشرے میں خواتین کو ایک ‘ماتحت‘ کا کردار ادا کرنا چاہیے، حجاب لازمی طور پر پہننا چاہیے اوراس پابندی کو قبول کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اس معاشرے میں لڑکیوں اور خواتین کے لیے ہیڈ اسکارف پہننا لازمی ہے۔
”حجاب اسلامی جمہوریہ کا جھنڈا ہے۔ حجاب پہننے سے انکار کرنے والوں کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘ یہ کہنا ہے ایرانی قانون ساز اور پارلیمنٹ کی ثقافتی کمیٹی کے رکن حسین جلالی کا۔ حال ہی میں انہوں نے یہ بیان دیا۔ جلالی نے مناسب طریقے سے حجاب نہ پہننے والی خواتین کے خلاف نئے تعزیراتی اقدامات کا اعلان بھی کیا۔ مثال کے طور پر اُن کے بینک اکاؤنٹس کو بلاک کرنا وغیرہ۔
اس قسم کے بیانات دراصل یہ ظاہر کر تے ہیں کہ ملک گیر عوامی مظاہروں کے باوجود، جس کے نتیجے میں 400 سے زائد مظاہرین کی ہلاکت اور تقریباً 18000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ایران کے رہنما مشکل سے ہی سنجیدہ اصلاحات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اس کی بجائے، حکومت ایک ظالمانہ کریک ڈاؤن پر انحصار کر رہی ہے اور گرفتار مظاہرین کو پھانسی دے کر مظاہرین کو ڈرانے کی کوشش کر رہی ہے۔
”حکومت یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ لوگ سیاسی نظام سے کتنے غیر مطمئن ہیں۔‘‘ یہ کہنا ہے ایک ایرانی ماہر تعلیم صدیق زیباکلام کا، جنہیں گزشتہ اکتوبر سے ایران میں سخت گیر افراد پر تنقید کی وجہ سے کسی بھی یونیورسٹی میں پڑھانے سے روک دیا گیا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس وقت حکومت کا واحد مقصد جبر کے ذریعے مظاہروں کو ختم کرنا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ان کے عوامی بیانات سے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے نہ تو سیاسی اور نہ ہی سماجی مسائل کے لیے کوئی حل تجویز کیا ہے۔‘‘ زیباکلام نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے پر احتجاج کسی بھی وقت دوبارہ بھڑک سکتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اپنے خارجہ پالیسی محاذ پر ایک بند گلی میں پہنچ چُکا ہے۔ تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا میں ہونے والے مذاکرات کئی مہینوں سے تعطل کا شکار ہیں۔چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعاون کو گہرا کرنے کے معاملے میں بھی ایران نے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی ہے۔
دونوں ممالک نے 2021 ء میں 25 سالہ جامع تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ایران میں انفراسٹرکچر کی ترقی یا آزاد تجارتی زونز کے قیام کے سلسلے کے تقریباً 100 مشترکہ منصوبوں میں سے کسی ایک میں بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔چینی سرمایہ کار ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے ممکنہ امریکی پابندیوں کے خدشے کے باعث پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ایران کے لیے اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تہران کے حریف سعودی عرب کے ساتھ چینی قربت بڑھ رہی ہے۔
ایران میں شیعہ علماء کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں سنی شاہی خاندان خود کو عالم اسلام کے مذہبی رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں اور خطے کے ممالک میں پراکسی جنگوں میں دونوں ہی ملوث ہیں۔
گزشتہ ماہ یعنی دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی عرب کے سرکاری دورے کے دوران، دونوں ممالک نے نہ صرف ٹیکنالوجی اور سکیورٹی جیسے شعبوں میں اپنے تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا بلکہ ایران کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو مربوط کرنے کے اپنے ارادے کا بھی اعلان کیا۔
انہوں نے ”ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کو یقینی بنانے کے لیے تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت‘‘ پر بھی زور دیا اور تہران سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرے اور”جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کو برقرار رکھے۔‘‘
دونوں فریقوں نے ”اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے احترام اور دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت‘‘ پر زور دیا۔
اکتوبر میں، چین نے قطر کے ساتھ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی فراہمی کو محفوظ بنانے اور گیس کی پیداوار میں دوحہ کی مدد کے لیے ایک طویل مدتی معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔قطر اور ایران خلیج فارس میں قدرتی گیس کی ایک ایسی فیلڈ کو شیئر کرتے ہیں جو کہ عالمی قدرتی گیس کے ذخائر کا 18 فیصد ہے۔
تاہم ایران امریکی پابندیوں اور ایران کے خستہ حال انفراسٹرکچر کی وجہ سے گیس پیدا کرنے اور مغرب کو گیس فروخت کرنے سے قاصر رہا ہے۔
dw.com/urdu