بین الاقوامی دنیا میں پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ کو غیر معمولی بارشوں نے بہت بڑا سہارا فراہم کیاہے۔ بے شک ان بارشوں سے پاکستانی عوام کا نقصان ضرور ہوا ہے لیکن اس نقصان کی ذمہ دار، ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ، ریاست پاکستان کی وہ جنگجویانہ پالیسیاں ہیں جن کی بدولت ریاست کے تمام وسائل ریاستی انفراسٹرکچر کی بجائے جنگجویانہ پالیسیوں کے عمل درآمد پر صرف ہوجاتے ہیں۔
غیر معمولی بارشوں سے ہوئی تباہی کے مناظر دکھانے کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستان کے دورے پر بلایا گیا ۔ وہ بھی پریشان ہوئے اور امداد کےلیے اپیل کی اور ترقی یافتہ ملکوں نے ایک دو بلین ڈالر امداد کا وعدہ کیا لیکن 200 ملین ڈالر سے زائد نہ مل پائے۔ کیا یہ رقم بھی سیلاب زدگان کے کسی کام آئی؟
اب کچھ ماہ بعد کسی لابی فرم کے ذریعے ایک اور ماحولیاتی کانفرنس کا اہتمام کرایا گیا اور ایک بار پھر کشکول پھیلایا گیا نو بلین ڈالر کے اعلان کو ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیاجارہا ہے لیکن یہ تو وقت بتائے گا کہ کتنی رقم ملتی ہے اور کہاں جاتی ہے۔ اس رقم کی تقسیم کے لیے ایک نیا بینک (ایشین انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک) بنایا گیا ہے جو کہ چین میں رجسٹرڈ ہے۔ کچھ مبصرین اس بینک کے منصوبوں کی شفافیت پر تحفظ رکھتے ہیں۔
بین الاقوامی دنیا اب پاکستان پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں اور ایک بار پھر اس رقم کو جو کہ زیادہ تر قرض کی صورت میں ہوگا کی شفافیت پر زور دیا جارہا ہے ۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہر دفعہ وہ ان اداروں کو شفافیت سے خرچ کرنے کے وعدے کرکے رقم تو لے لیتے ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو ان کی مرضی ہوتی ہے۔
چند دن پہلے ہی ڈیلی ڈان نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو چند ماہ قبل ہی دوبارہ پٹری پر لایا گیا تھا، اور صرف اس وقت جب سابق وزیر خزانہ نے کابینہ کو ملک کی مالیاتی ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دینے کے لیے کئی مشکل فیصلے لینے پر راضی کیا تھا۔ تاہم، مفتاح اسماعیل کو فارغ کرنے اور ان کی جگہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد یہ ایک بار پھر رک گیا اور اب آئی ایم ایف ایک بار پھر اڑ گیا ہے کہ پہلے وعدے پورے نہیں کرتے لیکن پھر مانگنے آجاتے ہیں۔ اب کی بار پھر ہماری خارجہ پالیسی حرکت میں ہےاگلی قسط مل بھی گئی تویہ ہماری خارجہ پالیسی کی کامیابی تصور ہوگی اور رقم بلیک ہول میں چلی جائے گی۔
پچھہتر سالوں سے پاکستانی عوام کو سبز باغ دکھائے جارہے ہیں۔ لیکن اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمیں اپنے سیاسی رہنماؤں سے عقیدت ہوتی ہے۔ سیاست کرنے کے لیے ان کے بارے میں سچا جھوٹا پراپیگنڈہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں حقائق پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اپنے محبوب رہنماؤں کی پالیسیوں کو تنقیدی نظر سے جانچنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہر وقت ان کی بونگیوں کی خوشامد کرتے رہنے کی بجائے ان سے سوال کرنا بھی عوام کا فرض ہے۔
محمد شعیب عادل