پائندخان خروٹی
بلخ (باختر، بخدی) دریائے آمو کے ساتھ قدیم تہذیبی اور علمی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے جس کی قدامت کی وجہ اسے اُم البلاد (شہروں کی ماں) بھی کہتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بلخ شہر میں دو اولین مذاہب ،زرتشت بلخی کا زرتشتی مذہب اور گوتم بدھ کا بدھ مت شامل ہیں۔ سرزمین عرب پر بنواُمیہ کی سخت گیر حکمرانی کے خاتمے میں بلخ بالفاظ دیگر افغانستان کے لوگوں نے نمایاں کردار ادا کیا جس میں ابومسلم خراسانی اور برمکی خاندان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یونان کے سکندر اعظم کی اہلیہ رخسانہ کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ بلخ سے ہی تعلق رکھنے والے مشا ہیر،جلال الدین رومی اور ابن سینا کے اثرات پورے خطے میں پائے جاتے ہیں۔
ویسے تو بلخ شہر کی تاریخی اہمیت، قدیم نوادرات اور ممتاز شخصیات کے حوالے سے اب تک بہت کچھ قلمبند نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس موضوع پر علیحدہ سے گفتگو اور تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاہم یہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے عظیم صوفی شاعر امیر خسرو کا بنیادی تعلق بھی بلخ کے مردم خیز علاقے سے ہے۔ ابوالحسن یمین الدین جو امیر خسرو ( 1253 تا 1325) کے نام سے مشہور ہیں، ہندوستان کے شہر اُترپردش کے قصبے پٹیالی میں ایک راجپوت خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیف الدین ہزارہ افغانستان کے شہر اُم البلاد یعنی بلخ سے ہندوستان آئے تھے۔
امیر خسرو دراصل خواجہ نظام الدین اولیاء کے صادق مرید اور سلسلہ چشتیہ کے پیروکار تھے۔ انہوں نے عربی فارسی اور ہندوستان کی مختلف اقوام کی زبانوں کی آمیزش سے ایک نئی زبان ریختہ (ہندوی/اردو) کی بنیاد تقریباً آٹھ سو برس قبل رکھی۔ گویا وہ اردو زباں و ادب کے پہلے دور کی سب سے معتبر شخصیت ہیں۔ وہ ہندوستان کے تقریباً آٹھ بڑی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ طبلہ، قوالی اور سِتار (سہ تار موسیقی کا آلہ) وغیرہ امیر خسرو کی ایجادات ہیں۔ وہ میوزک کو فطرت کی ایجاد سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے گلشن موسیقی میں کئی راگوں کے اضافے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔
تصوف کی دنیا کا ایک معتبر نام حضرت امیر خسرو ایک ہمہ جہت شخصیت و کردار کے مالک تھے۔ شاید برصغیر پاک و ہند کی تقریباً آٹھ بڑی بولی جانے والی زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے انہیں “طوطی ہند” کا خطاب دیا گیا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ امیر خسرو کو مملکت ایران نے “طوطی ہند” کا خطاب دیا جبکہ امیر خسرو کی آواز میں موجود شیرینی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انھیں “بلبل ہند” قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ علم و ادب میں طوطی کا استعارہ بلند آہنگی کیلئے تو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن امیر خسرو کی شریں نوائی کا تقاضا ہے کہ انھیں بلبل ہند کے نام سے ہی منسوب کیا جائے۔ اس کی آواز کی شیرینی کو مدنظر رکھتے ہوتے انھیں “بلبل ہند” کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
ویسے تو حضرت امیرخسرو سلطنت دہلی نے خاندان غلامان، خلجی خاندان اور خاندان تغلق کے آٹھ مختلف حکمرانوں کی حکمرانی کو قریب سے دیکھا اور تقریباً تمام حکمران امیر خسرو پر بہت مہربان تھے لیکن وہ خلجی خاندان کے پہلے بادشاہ جلال الدین خلجی بن خلج خان کے عہد میں تقریباً دو برس تک پایہ تخت دہلی میں رہے اور جلال الدین خلجی نے ہی خسرو کو “امیر” کے خطاب سے نوازا۔ اس دوران وہ درباری ناز و اکرام سے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں بھرپور استفادہ کرتے رہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان کے تمام روایتی مسلمان اور ہندو مورخین برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مختلف ادوار کو مختلف اقوام سے منسوب کرتے ہیں مثلاً “مغلوں اور انگریزوں کی حکمرانی کو الگ الگ دور کے طور پر دیکھا اور انھیں مغلیہ دور اور برطانوی دور سے منسوب کیا ہے لیکن برصغیر پاک و ہند میں طویل عرصے تک حکمران رہنے والے پشتون افغان کو ڈاکٹر مبارک علی نے بھی کئی خاندانوں مثلاً غوری خاندان، لودھی خاندان، خاندان غلامان اور خلجی خاندان میں تقسیم کر کے پشتون دور کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ انگریز اور مغل کی طرح پشتون افعان کے حکمرانوں کی حکمرانی کو بھی ایک مخصوص دور یعنی “پشتون سلطنت” یا “افغانیہ دور” کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا جو درباری اور روایتی تاریخ میں نہیں ہے۔“(1)۔
خیر اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ بیشک امیر خسرو خاص بنے اور اس وقت کے خواص بھی ان پر مہربان رہے لیکن اس کے باوجود وہ خود عام رہے اور عوام کی خوشی سے خوش ہوتے تھے۔
خواجہ نظام الدین اولیاء اور حضرت امیر خسرو مرشد اور صادق مرید کا ایسا مضبوط رشتہ رہا کہ خواجہ نظام الدین اولیاء نے اپنی زندگی میں یہ وصیت کی کہ مرنے کے بعد امیر خسرو کو میرے پہلو میں دفنایا جائے۔
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جان شدی
تاکس نہ گوید بعد ازی، من دیگرم تو دیگری
واضح رہے کہ بادشاہ علاوالدين خلجی نے شروع میں جب لشکر صفوی کو شکست دینے کے بعد خواجہ نظام الدین اولیاء کو خصوصی دعا کے بدلے موتیوں کا تھال بطور نذرانہ پیش کیا۔ خواجہ نظام الدین اولیاء سے منسوب یہ تاریخی جملہ “ہنوز دلی دور است” جو مغل حکمرانوں نے انگریزوں کیلئے بھی استعمال کیا تھا کے بارے یہ مشہور ہے کہ افغان بادشاہ فیروز شاہ تغلق نے حضرت نظام الدین اولیاء کو جب یہ دھمکی دی کہ میرے دہلی پہنچنے سے قبل تم دہلی شہر سے باہر نکل جاؤ جبکہ فیروز شاہ تغلق دہلی پہنچنے سے پہلے خود ایک حادثہ میں جاں بحق ہوگئے۔
یہ کہنا بےجاء نہ ہوگا کہ برصغیر پاک و ہند میں اب تک سب سے زیادہ ریسرچ حضرت امیر خسرو پر ہی ہوئی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ حضرت امیر خسرو اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کے حکم کو بجا لاتے ہوئے پانی پت کے حضرت علی شاہ قلندر کی محفلوں میں بھی جاتے تھے۔ مگر وہ حضرت نظام الدین اولیاء کی وفات کے بعد زیادہ رنجیدہ رہتے تھے۔ اپنے رنج ودکھ کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ
گوری سوئے سیج پر سو مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے سو سانجھ بھئی چہو دیس
حضرت امیرخسرو کو 9 ستمبر 1325ء کو وفات پانے کے بعد ہندوستان کے پایہ تخت دہلی میں اپنے مرشد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی وصیت کے مطابق ان کے پہلو میں دفنائے گئے۔ میں اپنے مضمون کا اختتام اسد اللہ خان غالب کے اس شعر پر کرنا چاہتا ہوں۔
غالب مرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں
♠
حوالہ
۔1۔ ڈاکٹر مبارک علی مظلوموں کا ترجمان نہیں، ایک تنقیدی جائزہ، پائندخان خروٹی۔