بصیر نوید
اخبار کی نائٹ شفٹ کرکے دیر سے یعنی علی الصبح گھر پہنچا اتنی دیر سے گھر پہنچنے کی وجہ یہ تھی کہ تھی شاید آج رات کوئی بڑی خبر آنے والی ہے دفتر سے بار بار اسلام آباد میں نمائندے کو فون کرکے پوچھا جاتا تھا کہ کیا اڈیالا جیل میں کوئی خاص سرگرمی تو نہیں ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیڈروں خاص کر غلام مصطفے‘ جتوئی اور عبد الحفیظ پیر زادہ کو متعدد رپورٹرز نے فون کئے جنہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کی کوئی خبر نہیں ہے اور نہ ہی بھٹو صاحب کو کوئی پھانسی دے سکتا۔ جبکہ اس سے ایک دن قبل پیپلز پارٹی کے قائم مقام سیکریٹری جنرل یاسین وٹو نے اخباری بیان میں کہا تھا کہ ان کی اور ان کے وفد کی جنرل ضیا سے ملاقات ہوئی ہے انہوں نے “عوام الناس” کو یقین دلایا کہ بھٹو کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ اس اعلان سے سیاسی حلقوں اور خاص کر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے غصے، تشویش اور احتجاجی رد عمل میں کمی آگئی تھی۔ بعد میں معلوم چلا کہ پارٹی رہنماؤں کے بیانات ایک خاص منصوبے کے تحت کئے گئے تھے کہ جو کچھ کرنا ہے بھٹو کیساتھ کیا جائے لیکن “ہمارے ساتھ کچھ نہ کیا جائے“۔
ان سب یقین دہانیوں کے باوجود 3 اپریل کی رات کو صحافتی حلقوں میں ایک بے چینی سی تھی۔ بہر الحال سحر کے وقت گھر جاکر سوگئے۔ صبح نو بجے کے بعد نیند سے جگایا گیا کہ بھٹو کو پھانسی دیدی گئی میں بھی فوراً بھاگم بھاگ پریس کلب پہنچا لیکن وہاں رپورٹرز موجود نہیں تھے خیال ہوا کہ رپورٹرز عام لوگوں کا ردعمل رپورٹ کرنے کیلئے فیلڈ گئے ہوں گے یا انہیں ابھی خبر نہیں ملی ہوگی۔ کراچی پریس کلب میں اس وقت میں، فوٹو جرنلسٹ اور رائٹرز کے نمائندے داؤد سبحانی اور بابر ایاز موجود تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ پیپلز پارٹی سے متعلق حلقوں میں جاکر ردعمل دیکھا جائے۔ ہم لیاری پہنچے جہاں لوگوں کی ٹولیاں احتجاج کررہی تھیں۔ اس دوران پولیس سے مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوتی رہیں پھر کہیں دوپہر کے بعد یہ احتجاج بھی ختم ہوگیا۔ داؤد سبحانی اور بابر ایاز لمبے قد کے تھے اسلئے پولیس کی نظروں میں آتے رہے میں چونکہ انکے ساتھ ساتھ تھا تو کچھ لوگ آکر پوچھتے کہ آپ کون سے اخبار سے ہیں اور میں بغیر کچھ سوچے سمجھے اپنے اخبار کا نام بتا دیا کرتا۔
اس روز بھی رات کو دیر سے گھر پہنچا، یہ خبریں آتی رہیں کہ بھٹو کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاڑکانہ تدفین کیلئے لائی گئی ہے اور ان کی قبر میں چونا ڈال کر پانی ڈالا گیا ہے تاکہ انکی میت جل جائے اور لوگ لاش نکال کر پورے سندھ میں نہ گھما سکیں اس طرح انکی لاش فوجی حاکمیت کے خاتمے کا سبب بن جائے گی۔ یہ خبر بھی عام ہوئی کہ بھٹو صاحب کی لاش کی تصویریں بھی نکالی گئیں تاکہ ان کو ہندو ثابت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس شہادت مل سکے۔
دوسرے دن ابھی صبح کے سات بجے تھے کہ نارتھ ناظم آباد تھانے کا ایک سب انسپکٹر اپنی ویسپا اسکوٹر پر گھر آیا اور کہا کہ چلیں آپ کو سب مارشل لا ایڈ منسٹریٹر نے بلایا ہے، میں نے پوچھا گاڑی کہاں ہے اس نے کہا کہ ڈی ایس پی صاحب تھانے میں بیٹھے ہیں وہ لے جائیں گے میں سمجھ گیا ڈی ایس پی کوئی دوست ہے جو گھر آکر شرمندہ نہیں ہونا چاہتا۔ ایسا ہی ہوا ڈی ایس پی وسیم احمد تھے جو بعد میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر بنے تھے اور مذہبی وابستگی کے باعث جسٹس افتخار چوہدری کے عتاب کا شکار رہے۔
مارشل لا ہیڈ کوارٹر پہنچنے کے بعد ایک کرنل کے سامنے پیش کیا گیا جس نے مجھے دیکھتے ہی اپنی ٹانگوں پر سونٹی (فوجی چھڑی) مار کر غصہ کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ اس نے چھوٹتے ہی پوچھنے لگا کہ بھٹو تمہارا کیا لگتا تھا۔ ایسے تضحیک آمیز جملے سن کر میں بھی جھنجھلا گیا میں نے کہا کیا یہ پوچھنے کیلئے بلایا ہے اس نے کہا آپ نارتھ ناظم آباد میں رہتے ہیں اور لیاری میں جاکر لوگوں کو اکساتے ہیں۔ میں نے اسے اپنے اخبار کا نام بتایا اور اپنا فریضہ بھی بتایا۔ اس اثنا میں جناب منہاج برنا صاحب کو ہماری گرفتاریوں کا علم ہوچکا تھا وہ سندھ کے اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات جناب علی احمد بروہی کے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ صحافیوں کو گرفتار کرکے فوجی عدالت میں پیش کرنے کیخلاف سخت احتجاج کیا جائے گا۔ انہیں فوری رہا کیا جائے، اس دوران بی بی سی، رائٹرز اور کئی غیر ممالک کی نیوز ایجنسیوں کے فون آنے لگ گئے ۔برنا صاحب بروہی صاحب کے دفتر سے نیوز ایجنسیوں کو فون کرتے رہے۔ علی احمد بروہی بھٹو کے سخت خلاف تھے لیکن صحافیوں کی گرفتاریوں پر وہ بھی برہم تھے۔ انہوں نے ہماری رہائی کیلئے بہت مدد کی۔
با لآخر دو گھنٹے بعد رہائی ملی، بروہی صاحب نے کہا میں رہائی کے بعد انکے دفتر ہی پہنچ جاؤں۔ برنا صاحب اور کے یو جے کے دیگر عہدیدار بھی موجود ہیں۔ ادھر سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے دفتر میں جب گورنر ہاؤس سے ہمیں رہا کرنے کا فون آیا تو کرنل نے کہا آپ یہاں لکھ کر دیں کہ آپ آئندہ لوگوں کو نہیں اکسائیں گے۔ میں نے صاف انکار کردیا۔ اس نے کہا اگر ایسا نہیں کیا تو مجھ پر مقدمہ دائر کرکے فوجی عدالت میں تخریب کاری کا کیس چلے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے یحییٰ خان کی حکومت سے فوجی عدالت سے سزا ہوچکی ہے آپ مجھے گرفتار کرلیں۔ میرے اڑ جانے پر وہ سخت الفاظ استعمال کرنے لگا۔ آخر کار مجھے رہا کردیا گیا۔
سیکریٹری اطلاعات کے دفتر پہنچنے پر پتہ چلا کہ داؤد سبحانی رات سے گرفتار ہیں اور فوجی افسران انہیں رہا کرنے پر آمادہ نہیں کیونکہ فوجی سخت نالاں تھے کہ وہ ایک تو بہترین فوٹوگرافر تھے اور کوئی ایسی جگہ نہیں ہوتی تھی جہاں وہ موجود نہ ہوں۔ غیر ملکی نیوز ایجنسیاں انکی فوٹوگرافی کے بڑے معترف تھیں۔ البتہ ہمارے تیسرے ساتھی بابر ایاز کو جب ہماری گرفتاریوں کو پتہ چلا تو وہ زیر زمیں چلے گئے اور یہ خبر اڑا دی کہ وہ کسی اور شہر چلے گئے ہیں۔
بھٹو سے ایسی دشمنی کا منظر نہیں دیکھا کہ فوجی افسران انکا نام بھی سننا نہیں چاہتے تھے دوسری طرف بروہی صاحب تھے جن کے ساتھ بھٹو صاحب نے زیادتی کی تھی اور انکی نوکری ختم کردی تھی لیکن اس کے باوجود وہ بھٹو کی پھانسی کے خلاف رہے ہیں۔ یہ بروہی صاحب وہی ہیں جنہوں نے انگریز حاکمیت کیخلاف نیوی کی بغاوت میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا اور جنہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔
♣
One Comment