بیرسٹر حمید باشانی
آج کل دو معاملات پر عام بحث ہو رہی ہے۔ ایک اسمبلی کی بالا دستی اور برتری ہے۔ دوسری آئین و قانون کی حکمرانی ہے۔ اگر ان معاملات کا تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے، اور پہلی آئین ساز اسمبلی سے اس کی شروعات کی جائیں تو کئی ہوش ربا انکشاف ہوتے ہیں۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے کئی معاملات پر مختصر اظہار خیال کیا۔ ان میں رشوت، اقربا اور کرپشن جیسے کئی معاملات شامل تھے، لیکن دو معاملات ایسے تھے، جن پر قائد اعظم نے زیادہ زور دیا۔ ایک یہ کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر ادارہ ہے، جس کے پاس سب اختیارات ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ پاکستان میں تمام شہریوں کے ساتھ بلا تفریق رنگ ، نسل اور عقیدے کے مساوی سلوک کیا جائے گا، اور ریا ست کے نزدیک سب شہری برابر ہوں گے۔
آگے چل کر قائد اعظم کی وفات کے بعد یہی دو نقاط تھے، جن پر قائد اعظم کے خیالات، افکار اور واضح احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، بلکہ ان کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اسمبلی کی مقتدر اور سپریم حیثیت کو نا صرف بار بار چیلنج کیا گیا، بلکہ کئی بار طاقت، دھونس اور دھندلی سے اسمبلیوں کو برخاست کیا گیا اور اس کی جگہ شخصی اور مطلق العنان حکومتیں قائم ہوتی رہی،یہاں تک کہ یہ سارا نظام ایک مذاق بن کر رہ گیا۔
اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو، جب کسی نہ کسی طریقے سے اسمبلی کے اختیار اور بالا دستی کو چیلنج نہ کیا گیا ہو۔ اکثر ادوار تو ایسے گزرے، جب عوام کے منتخب نمائندوں کو برخاست کر کہ ایوانوں میں من پسند افراد کو بٹھایا جاتا رہا ، جو مطلق العانیت کے سائے میں قانون سازوں کا کردار ادا کرنے کی کامیاب ادا کاری کرتے رہے۔ اس طویل سلسلہ عمل میں ایک ایسا ماحول بن گیا کہ ستر سال بعد آج بھی اسمبلی کی مقتدر حیثیت اور بالا دستی کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہیں، جن میں اسمبلیوں کے اختیارات کو سنگین چیلنج کا سامنا کرتا پڑتا ہے۔
آئے روز ایسی ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں، جن میں اسمبلی کے اختیارات اور حیثیت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایسے قصے سامنے آتے ہیں کہ ملک میں ہر دفعہ انتخابی عمل کا ڈرامہ مکمل ہونے کے بعد کس طرح اسمبلی کو ایک طرف کر کہ صرف دو یا تین افراد ایک بند کمرے میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس ملک کا حکمران کون ہو گا، اور اس کے اختیارات اور حدود و قیود کیا ہوں گی۔ اور یہ فیصلہ اسمبلی پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اس باب میں اندرونی اور بیرونی سازشوں پر مشتمل ان قصوں کا نچو ڑ یہ ہوتا ہے کہ آج بھی ان اہم معاملات کے فیصلے اسمبلی ممبران نہیں کرتے۔ یا تو کوئی انہیں بتاتا ہے کہ ان کو کیا فیصلہ کرنا چاہیے، یا وہ خود کسی کی طرف دیکھتے ہیں کہ ان کو بتایا جائے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ ان میں لیڈر آف دی ہاوس کے انتخاب سے لیکر، اعتماد اور عدم اعتماد کی تحریکوں میں ووٹ کاسٹ کرنے تک ہر اہم معاملہ شامل ہوتا ہے۔قائد اعظم کے خیالات اور ہدایات کو صرف اسمبلی کی بالا دستی اور برتری کی حد تک ہی نظر انداز نہیں کیا گیا، بلکہ اس ملک میں مذہبی روداری اور اقلیتوں کے سوال پر بھی قائد اعظم کے افکار کو یکسر رد کر دیا گیا۔
ان دو موضوعات پر پہلی آئین ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے جو کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ “جناب صدر, خواتین و حضرات، میں انتہائی خلوص کے ساتھ آپ کا تہہ دل سے شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس اعزاز سے نوازا ہے – مجھے اپنا پہلا صدر منتخب کیا ہے۔ یہ سب سے بڑا اعزاز ہے ، جو اس خود مختار اسمبلی کے لیے ممکن ہے۔ میں ان قائدین کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں ۔ دستور ساز اسمبلی کو دو اہم کام انجام دینے ہیں۔ پہلا پاکستان کے مستقبل کے آئین کی تشکیل کا بہت مشکل اور ذمہ دارا نہ کام ہے ، اور دوسرا پاکستان کی وفاقی مقننہ کے طور پر ایک مکمل خود مختار ادارے کے طور پر کام کرنا ہے۔ ہمیں پاکستان کی وفاقی مقننہ کے لیے ایک عبوری آئین کو اپنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے ۔
آگے چل کر انہوں نے کہا کہ پہلی اور سب سے اہم چیز جس پر میں زور دینا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ آپ اب ایک خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں، اور آپ کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ اسی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حوالے سے وہ باتیں کی، جن کی وجہ سے اس کو تاریخی خطاب کہا جاتا ہے، اور اس کو قائد اعظم کا گیارہ اگست کے خطاب کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے کہا ” آپ آزاد ہیں ؛ آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں، یا اس ریاست پاکستان میں کسی بھی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو سکتا ہے۔ اس کا ،ریاست کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انگلستان میں صورت حال اس سے کہیں زیادہ خراب تھی، جو آج ہندوستان میں ہے۔ رومن کیھتولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کو پراسیکیوٹ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آج بھی ایسی ریاستیں موجود ہیں، جن میں ایک خاص طبقے کے خلاف امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، اور خاص طبقے پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم اس دور سے شروع نہیں کر رہے۔ ہم ایک ایسے دور میں شروع کر رہے ہیں ، جس میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے۔ ایک کمیونٹی اور دوسری کمینوٹی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک ذات یا عقیدے اور دوسرے کے درمیان امتیاز نہیں کیا جاتا۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ شروع کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں، اور ایک ریاست کے برابر شہری ہیں۔ انگلستان کے لوگوں کو ایک وقت میں حقائق کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب وہ اپنی فرائض کی ادائیگی اور اپنے ملک کی طرف سے ڈالا گیا بوجھ اٹھانے کے لیے آگ سے گزرے۔ آج آپ انصاف سے کہہ سکتے ہیں کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کا کوئی وجود نہیں ہے، آج انگلستان کا ہر آدمی ایک شہری ہے، برابر کا شہری، اور وہ سب ایک قوم کے ممبر ہیں۔ اب ہمیں اس کو ایک آئیڈیل کے طور پر سامنے رکھنا چاہیے ،اور آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیوں کہ وہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں پاکستان کے شہری کی حیثیت سے“۔
پاکستان کے قیام سے چار دن پہلے پہلی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس دس اگست1947 کو سندھ اسمبلی بلڈنگ میں ہوا۔ اس اسمبلی کے بارے میں بے شمار باتیں ایسی ہیں، جن سے پاکستان کے عام لوگ تو دور کی بات ہے، کئی دانش ور بھی آگاہ نہیں ہیں۔ ان میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس اسمبلی کا انتخاب 1946 میں ہندوستان کی تقسیم سے ایک سال پہلے ہوا تھا۔ ان معنوں میں اس اسمبلی کے ممبران پاکستانی عوام کے منتخب نمائندے نہیں تھے۔ لیکن اس وقت کے حالات کے مطابق ان ہی ممبران کو جو متحدہ ہندوستان میں منتخب ہوئے تھے پاکستان کی پہلی اسمبلی کے ممبران قرار دیا گیا۔
یہ اسمبلی جس کے صدر قائد اعظم تھے، اور جن کے افکار و خیالات سے اس اسمبلی کو براہ راست استفادہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ یہ اسمبلی آگے چل ان کی توقعات پر کس حد تک پور اتری ؟ اپنی مقتدر حیثیت اور برتری کو برقرار رکھنے اور ملک کا آئین بنانے میں اس نے کیا کامیابی حاصل کی، اس کا احوال آئیدہ کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔
♣