رشید یوسفزئی
ڈاکٹر سلطان بشیر الدین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے رکن رکین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مایہ ناز اور ممتاز سائنس رہا ہے۔ گزشتہ دہائی میں ایک اور ھمکار سائنسدان کے ساتھ اپنے این جی او “امہ تعمیر نو” کی افغانستان میں سرگرمیوں کے آڑ میں القاعدہ کو ایٹمی ہتھیاروں کی فراہمی کی ساز باز میں پکڑا گیا۔ عالمی سطح پر ملک کی بڑی بدنامی کاباعث بنا۔۔۔۔اور حسب معمول اقتدار پر قابض جنرل مشرف نے اپنی بش و امریکہ دوستی کے توسط سے معاملہ رفع دفع کیا۔
دوران ملازمت قبلہ ڈاکٹر صاحب نے حکومت کو سفارشات بھیجی تھیں کہ ملک میں توانائی کے بحران کے حل کیلئے بہترین راستہ یہ ہے کہ “جنات سے انرجی حاصل کیا جائے“۔ بات درست تھی۔ اسلامی نظریاتی اساس پر دنیا کے واحد اسلامی جمہوریہ کیلئے اگر مسلمان جنات کچھ قربانی دیں تو اس میں برا کیا تھا۔ بھلا ہو ہم سیکولر لوگوں کا ہم نے اس کا مذاق بنایا۔
پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ اس نے اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین سے ڈاکٹر بشیر الدین کے ایک اہم عہدے پر ہونے کے باوجود اتنے مضحکہ خیز اور احمقانہ تجویز پر افسردگی کا اظہار کیا “تو چئیرمین صاحب مجھ پر برس پڑے کہ بشیر الدین کی تجویز ایمان اور عقائد کی عین مطابق ہے اور اس کا مذاق اڑانا افسوسناک ہے“۔
چئیرمین اٹامک انرجی کمیشن کی بات درست تھی۔ جنات کی وجود پر ایمان اسلامی عقائد میں شامل ہے۔ کئی ایک علماء کی آراء نظر سے گزرے ہیں کہ جنات کے وجود سے انکار کرنے والے خارج عن الاسلام اور واجب القتل ہیں۔ اگر چہ کچھ علماء لفظ” جن” کے مختلف تاویل کرتے ہیں۔ سرسید احمد خان جنات کو غیبی اور نظر نہ آنے والی مخلوق تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی تفسير سورۃ جن کے مطابق نیم تہذیب یافتہ احمق ، دیہاتی، پہاڑی اور صحرائی۔۔۔ اور قبائلی۔۔۔ لوگ ہی جنات ہیں۔۔۔۔ سرسید کا اشارہ سابق فاٹا یا وزیرستان کے لوگوں کو بالکل نہیں تھا۔
اسی طرح کا ایک کردار ہماری عدلیہ میں بھی تھا۔ اگر آپ تاریخ پاکستان یا ملک کی قانونی و عدالتی تاریخ پر اچھی نظر رکھتے ہیں تو آپ ضیاء الحق دور کے ایک حکومتی کردار، سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس کے نام سے واقف ہوں گے۔ ضیاء دور میں امیر المؤمنین ضیاء ہی کے خفیہ اشارات و ہدایات پر جسٹس کیکاوس نے لاہور کورٹ میں ایک مقدمہ دائرہ کیا تھا کہ جمہوریت، اسمبلی، عوامی نمائندگی، الیکشن سب غیر اسلامی ہیں۔ “لہذا اسلام کے نام پر بنے اسلامی ملک میں ان خرافات کیلئے کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان پر عقیدہ رکھنے والا خارج عن الاسلام ہے“۔
جسٹس بدیع الزمان کیکاؤس کا جمہوریت کے اسلام کے منافی ہونے کے عدالتی بیانات میں ایک مؤقف یہ تھا کہ
اول اسلامی شرعی حکومت میں جنات کی باقاعدہ حیثیت ہے جبکہ جمہوری نظام صرف انسانوں کو محدود ہے۔
دوم اسلامی پاکستان کے قیام میں بھی مسلمان جنات نے بھرپور کردار ادا کیا تھا اور بڑی قربانیا ں دی تھیں ۔ اب حکومت میں جنات کی کمیونٹی کو کیوں محروم رکھا جاتا ہے؟
جسٹس کیکاؤس کے مطابق “جمہور اور ڈیمو ” کا لفظ صرف عوام اور انسانوں پر لاگو ہوتا ہے اور جنات سے انکار کا پہلو رکھتا ہے۔ لہذا قرآن اس سے مشتق سیاسی نظام قران و سنت کے منافی اور صریح کفر ہے۔ (اس امر پر راقم کا عقیدہ ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کے تشکیل میں جنوں کا بڑا کردار تھا بلکہ بنائی ہی جنات نے ہے)۔۔۔ اب آپ خود آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا کوئی ملک جنات کے غیبی امداد کے بغیر ایسا چل سکتا ہے؟
سلطان بشیر الدین جیسے سائنسدان اور جسٹس کیکاؤس جیسے ماہر قانون کی مثال عالمی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اسٹبلشمنٹ کو ان کے خدمات و کارہائے نمایاں کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہئے۔ ساتھ ہی شریعت میں جنات کی اہمیت اور تحریک پاکستان میں ان کے کردار اور ان کی قربانیوں کی بناء پر مطالعہ پاکستان میں جنات سے متعلق ابواب شامل کرنا ضروری ہے اور ساتھ ہی اٹامک انرجی کمیشن و سپریم کورٹ ججز میں جنات کیلئے کوٹہ مختص کیا جائے۔
♣