بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کابنیادی مقصد پاکستان کے لیے آئین بنانا تھا۔ لیکن سات سال کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود یہ اسمبلی اپنا یہ بنیادی فریضہ سر انجام دینے میں نام رہی۔ اسمبلی کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ پاکستان میں کس قسم کا نظام حکومت ہو گا؟ اس سوال کے جواب پر سخت اختلاف رائے تھا۔ کچھ ممبران کا خیال تھا کہ پاکستان کے لیے برطانوی طرز کی پارلیمانی جمہوریت ٹھیک رہے گی، جس میں وزیر اعظم سربراہ حکومت ہوتا ہے۔ کچھ ممبران امریکی طرز کا صدارتی نظام اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ کچھ لوگ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنائے پر بضد تھے، اور کچھ کا استدلال تھا کہ یہاں پر مذہبی رواداری پر مبنی سیکولر نظام اچھا رہے گا۔
قائداعظم خود اس اسمبلی کے صدر تھے، لیکن انہوں نے گیارہ اگست کی تقریر میں جس طرح کے نظام کی بات کی تھی، اس پر ممبران میں اتفاق نہیں تھا۔ پاکستان میں طرز حکمرانی اور معاشی و سماجی نظام تک ہر بات پر اختلاف تھا، جو کہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا فورم ہو، یا رہا ہو، جس میں اختلاف رائے نہ ہو۔ ہر اسمبلی میں ممبران مختلف نظریات اور خیالات کی بنیاد پر منتخب ہو کر ہی آتے ہیں۔ یہی بات اسمبلی کو ایک ایسا فورم بناتی ہے، جہاں طویل اور گرما گرم مباحث ہوتے ہیں، اور پھر فیصلے ہوتے ہیں۔ متنازعہ اور اختلافی امور پر بحث و تمحیض کے بعد اگر اتفاق سے نہیں تو اکثریتی رائے سے فیصلے ہوتے ہیں، اور آئین سازی یا قانون سازی کا عمل اختلاف رائے کی نظر ہونے کے بجائے جاری رہتا ہے۔
مگر یہاں ایسا نہیں ہو سکا۔ یہاں نظام حکومت اور ملک کے معاشی و سیاسی نظام پر نہ تو اس طرح کھل کر بحث ہوئی، اور نہ ہی آئین سازی میں پیش رفت کی کوشش کی گئی۔ اور اگر بحث ہوئی بھی تو ممبران کے نقطہ نظر میں اتنا فرق تھا کہ ان کے درمیان قدر مشترک تلاش کرنا بہت مشکل کام تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ یہ اسمبلی 1946 کے انتخابات میں منتخب ہوئی تھی۔ اس وقت متحدہ ہندوستان تھا۔ اس اسمبلی کے ممبران روایتی پس منظر رکھتے تھے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے، جو پارلیمنٹ میں آئین سازی کے لیے نہیں، بلکہ اپنی سماجی حیثیت اور مراعات میں اضافے کے لیے آتے تھے۔ان کو پیچیدہ قسم کی آئینی اور قانونی مباحث سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اور نہ ہی وہ ان مباحث میں حصہ لینے کی پوزیشن میں تھے۔
چنانچہ ان کو نئی اور پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اسمبلی کے اندر صورت حال یہ تھی کہ اسی ممبران پر مشتمل اس اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ کی اکثریت تھی۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لوگ تھے، جس نے قیام پاکستان کے بعد اپنا نام بدل کر پاکستان مسلم لیگ رکھ دیا گیا تھا۔ دوسری بڑی پارٹی پاکستان نیشنل کانگرس تھی۔ اس میں وہ ممبران شامل تھے، جو تقسیم ہندوستان سے پہلے انڈین نیشنل کانگرس کے ممبر تھے۔ اور انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر آئیے تھے۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ ممبران جن کا حلقہ انتخاب پاکستان میں شامل ہو گیا تھا، انہوں نے انڈین نیشنل کانگرس کا نام بدل کر پاکستان نیشنل کانگرس رکھ لیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ دوسری پارٹیوں کے ممبران اور آزاد لوگ بھی تھے۔ اس کے علاوہ خان عبدل غفار خان جیسے مشہور رہنما شامل تھے۔ نیشنل کانگرس کے ممبران سیکولر ریاست کے حامی تھے، اور پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست بنانے کے تصور کے خلاف تھے۔ چنانچہ آئین سازی کے سلسلے میں اسمبلی میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی۔
آئین سازی کے سلسلے میں پہلا بڑا قدم تقریباً ڈیڑھ سال بعد اٹھا یا گیا، جب22 مارچ1949کو قرارداد مقاصد پیش کی گئی۔ یہ قرارداد لیاقت علی خان کی سربراہی میں پیش کی گئی، جو قائد اعظم کی رحلت کے بعد اسمبلی کے صدر تھے۔ مگر یہ قرارداد اتفاق رائے سے پاس نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت اسمبلی کے 69 ارکان تھے، جن میں سےاکیس ممبران نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ ان میں نیشنل کانگرس اور کچھ آزاد ممبران کے علاوہ دس اقلیتی ممبران تھے، جنہوں نے قرارداد پر بحث و مباحثے کے دوران اس قرارداد میں ترامیم تجویز کی تھیں، جو مسترد ہو گئیں تھیں۔ ان دس نے بھی قرارداد مقاصد کے خلاف ووٹ دیا۔ ان کا استدلال تھا کہ یہ قرار داد اقلیتوں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتی ، عام بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، اور عوام کے حق حکمرانی سے انکار کرتی ہے۔
قرارداد کا آغاز اس اعلان سے ہوتا ہے کہ” پوری کائنات پر حاکمیت صرف اللہ رب العزت کی ہے، اور جو اختیار اس نے ریاست پاکستان کو اس کے عوام کے ذریعے اس کی مقرر کردہ حدود میں استعمال کرنے کے لیے سونپا ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے۔ اس قرارداد میں گیارہ نکات شامل تھے۔
ان میں پہلا نقطہ یہ تھا کہ پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنے والی یہ دستور ساز اسمبلی ایک آزاد و خود مختار ریاست پاکستان کے لیے ایک آئین بنانے کا عزم کرتی ہے۔
دوسرا نقطہ یہ تھا کہ ریاست اپنے اختیارات اور ا تھارٹی عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
تیسرا نقطہ یہ تھا کہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصول، جن کو اسلام میں بیان کیا گیا ہے، ان پر مکمل طور پر عمل کیا جائے گا۔
چوتھا یہ کہ مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیں جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں بیان کیا گیا ہے۔
پانچواں نقطہ یہ تھا کہ اقلیتوں کے لیے آزادی سے ترقی کرنے اور اپنے مذاہب پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔
چھٹا نقطہ یہ تھا کہ پاکستان ایک فیڈریشن ہو گا، اور اس میں شامل اکا ئیاں خود مختار ہوں گی۔
ساتواں یہ کہ بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی۔ ان بنیادی حقوق میں قانون کے نزدیک سماجی حیثیت ، مساوی مواقع، سماجی، اقتصادی، اور سیاسی انصاف، آزادی فکر، آزادی اظہار، عقیدہ، عبادت، اور انجمن سازی کی آزادیاں شامل ہیں، جو قانون اور عوامی اخلاقیات سے مشروط ہوں گی۔
آٹھواں یہ کہ اقلیتوں ، پسماندہ اور محروم طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔
نواں نقطہ یہ تھا کہ عدلیہ کی آزادی کو مکمل طور پر محفوظ کیا جائے گا۔
دسواں یہ کہ وفاق کے تمام علاقوں کی سالمیت، اس کی آزادی اور اس کے تمام حقوق بشمول زمین، سمندر اور ہوا پر اس کے خود مختار حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔
اور گیارہواں یہ کہ پاکستانی عوام خوشحال ہو کر دنیا کی اقوام میں اپنا جائز اور با وقار مقام حاصل کریں اور بین الاقو امی امن و ترقی اور انسانیت کی خوشی کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں“۔
اس قرار داد مقاصد کے علاوہ یہ اسمبلی کوئی آئینی مسودہ سامنے نہ لاسکی، البتہ سات سال کا طویل اور قیمتی وقت گزرنے کے بعد جب اس اسمبلی کو برخاست کیا گیا تو اس کے ممبران نے کہا کہ ہم آئین تقریباً تیار کر چکے تھے، لیکن چونکہ ملک کے کچھ طاقت ور حلقوں کو یہ آئین پسند نہیں تھا، اس لیے اس سے پہلے کے اسمبلی آئین سازی کے عمل کو مکمل ہونے کا اعلان کرتی اسے غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے برطرف کر دیا گیا۔
یہ پاکستان کی پہلی اسمبلی تھی، جو برخاست ہوئی، آگے چل کر واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس کا احوال کسی آئندہ کالم میں پیش کیا جائے گا۔
♣