تحریر: پردیپ بخشی
انگریزی سے ترجمہ: خالد محمود
اب تقریباً ڈیڑھ دہائی ہو چکی ہے کہ ہمارے سیکس ورکرز اپنے پیشہ ورانہ، قانونی اور سماجی حقوق کی کمی سے متعلق مسائل کو ہمارے معاشرے کے دیگر طبقات کے افراد کے سامنے اٹھا رہے ہیں۔ اس پورے عرصے کے دوران، وہ اپنے قانونی، شہری اور سماجی حقوق کے لیے,بحیثیت ایسے سیکس ورکرز جنہوں نے رضاکارانہ طور پر جنسی خدمات کے شعبے میں بطور کارکن کام کرنے کا انتخاب کیا ہے، حکومتی شناخت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کا تعلق ایک ایسے پیشے سے ہے جو کم از کم 10,000 سال پرانا ہے۔ ہماری سیکس ورکرز رائٹس موومنٹ کے حامیوں، کارکنوں اور رہنماؤں سے اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ وہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کی طرح مساوی حقوق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ قانون کی نظر میں دوسرے پیشہ ور افراد اور کارکنوں کے برابر سلوک کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی خواہشات بہت فطری اور جائز ہیں۔
مساوات اور انصاف کی ان کی خواہشات کو سمجھنے کے لیے کم از کم عقل، حساسیت اور انسانی ہمدردی ہی کافی ہے۔ یہ صرف ہماری جزوی طور پر مغربی اور جزوی طور پر ہندوستانی بری پالیسی پر مبنی حکومت، اس کی پولیس، انتظامی، اور عدالتی بیوروکریسی اور، ان کے سماجی سرپرست ہیں۔ ہمارے غالب پدرسری دانشوروں نے ذات پات کے ایک زوال پذیر نظام کے اندر جنم لیا، پرورش پائی اور اب تک اِسی میں غرق ہیں۔ جو ہمارے لاکھوں سیکس ورکرز کے جائز مطالبات سمجھنے اور تعریف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ہماری جنسی کارکنوں کو اِن مخالف قوتوں کی مشترکہ طاقت پر قابو پانے کے لیے بہت طویل سفر طے کرنا پڑے گا۔ یہ احتجاج، تحریک، قانونی چارہ جوئی اور تعلیم و تربیت کے ذریعے سیکھنے کا راستہ ہے۔ ہمیں اپنی سرزمین کے قوانین کو بدلنا ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ اور کرنا ہوگا۔ ہمیں بار بار اپنے بارے میں اور باقی معاشرے کے بارے میں دیرینہ دقیانوسی تصورات میں کانٹ چھانٹ ، صفائی اور تبدیلی لانا ہو گی۔ جب ہماری دھرتی کے جنسی کارکنان سماج کے دوسرے لوگوں کے لیے ‘برابر‘ حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں، تو یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے آئین میں درج، ہندستانی انسانوں کے ‘بنیادی حقوق‘ درحقیقت ‘حقوق 12-35′ ہیں۔
جو لوگ دھرتی کی حکمران ذاتوں میں پیدا ہوتے ہیں اور پرورش پاتے ہیں وہ اکثر اس بات پر بھی توجہ نہیں دیتے ہیں کہ آج بھی ان کے پیدائشی سماجی حقوق کی بالادستی باقی لوگوں کے لیے ‘دستیاب‘ آئینی اور قانونی حقوق سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ حکمران ذاتوں کے طاقتور اور پڑھے لکھے ارکان ہمارے آئینی حقوق کے بارے میں دعووں کی سچائی یا جھوٹ کی تصدیق کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ سماجی دھارے کے آخری سرے پر، ہمارے سیکس ورکرز جیسے لوگ، ہمارے معاشرے کے دائرے میں میں ‘جلاوطنی‘ کاٹ رہے ہیں بلکہ تمام سماجی حقوق سے محروم ہیں؛ وہ اپنے سروں کو اونچا کر کے کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، اور صرف ان امیدوں سے چمٹے ہوئے ہیں جو ہماری آئینی اور قانونی حقوق کی غالب بیان بازی نے پیدا کر رکھی ہیں۔
حکمران ذات کے سماجی حقوق کے مراعات کے لیے پیدا ہونے کے بعد، مجھے ہندوستانیوں کے آئینی حقوق کے بارے میں دعووں کی سچائی یا جھوٹ کی کبھی پرواہ نہیں ہوئی تھی۔ میں نے کبھی ہندوستان کے آئین کے صفحات کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ دربار مہلا سمان وایا کمیٹی (ڈی ایم ایس سی) سے میری واقفیت نے آہستہ آہستہ یہ سب کچھ بدل دیا۔ پہلا بڑا جھٹکا 2002 میں آیا۔ اسی سال کمیٹی نے ایک امن میلہ منعقد کیا تھا۔ اس میلے کے دوران اس وقت کے مغربی بنگال کے وزیر کھیل آنجہانی سبھاش چکرورتی نے فیسٹیول کا اہتمام کرنے والی جنسی کارکنوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ کچھ تعارفی رسمی تقریریں بھی ہوئیں۔
مہمان مقررین میں سے ایک، سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشنز [2] کے اس وقت کے خصوصی ڈائریکٹر کولکتہ زون نے کہا کہ وہ سیکس ورکرز کے آئین میں درج بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد میں اگلی صفوں میں ہوں گے۔ میں بہت مضطرب ہوا تھا۔ ہماری پولیس اب بھی نوآبادیاتی انڈین پینل کوڈ 1860 کے ذریعے بااختیار ہے، ہمارے جنسی کارکنوں کو دن دہاڑے اذیت اور تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ اور، یہاں میں نے اس پولیس فورس کے ایک اعلیٰ عہدے دار کو جنسی کارکنوں کے آئینی حقوق کے حصول کے لیے لڑنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سنا تھا۔ میں نے سوچا،یا تو وہ شخص بغیر کسی معنی کے محض ہئیت کی خاطر بول رہا تھا یا، ہندوستان کے آئین میں بنیادی انسانی حقوق کی کوئی حقیقی ضمانت موجود نہیں ہے۔ میں اس پر تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرا جھٹکا چند مہینوں بعد آیا تھا۔
اٹھائیس28 مارچ 2003 کو ڈی ایم ایس سی نے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا جس کا مقصد اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کے حقوق کے بارے میں آگاہی کو بڑھانا تھا۔ اس ورکشاپ کی تیاری کے دوران یہ دیکھا گیا کہ ہمارے سیکس ورکرز کے لیڈروں میں حقوق کے بارے میں آگاہی کے مقابلے میں ذمہ داریوں کا احساس نسبتاً زیادہ پروان چڑھا ہے۔ واضح طور پر، ان کے مختلف حقوق کے بارے میں ان کی آگہی کو بہت زیادہ دبایا گیا تھا، بلکہ کمزور تھی۔ بہت سے معاملات میں یہ پایا گیا کہ انہیں جنسی کارکنوں، خواتین اور انسانوں کے طور پر اپنے ذاتی حقوق کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ جس کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے وہ اکثر اپنی ذمہ داری ہی نکلی۔ مثال کے طور پر، وہ اپنے چھوٹے بچوں اور بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ جنسی شعبے کی این جی اوز کے کالج/یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ملازمین میں حقوق سے متعلق آگہی بھی اسی طرح ناقص تھی۔
بنیادی حقوق
ڈی ایم ایس سی نے مذکورہ ورکشاپ کے موقع پر ایک کتابچہ شائع کیا۔ اس میں دیگر چیزوں کے علاوہ، ہندوستان کے آئین، حصہ 3 میں بنیادی حقوق کے کچھ اقتباسات شامل تھے۔ آئیے اب غور کریں کہ ہمارے آئین کے اس حصے میں کیا ہے۔ وہاں، آزادی کے حق کے عنوان کے تحت آرٹیکل 19 (1) میں لکھا ہے کہ: تمام شہریوں کو کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے، کوئی بھی پیشہ، تجارت یا کاروبار کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ جنسی کام ایک پیشہ یا پیشہ یا تجارت یا کاروبار ہے۔ قدیم ہندوستان میں اسے ’گنیکاوریتی‘ کہا جاتا تھا۔
کچھ لوگ اپنے بنیادی پیشے کے علاوہ اضافی رقم کمانے کے لئے، اس پیشے میں کل وقتی یا جُز وقتی شامل ہوتے ہیں۔ یہاں، اس یا اس قسم کی جنسی خدمات کا کچھ رقم کے عوض تبادلہ کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ ایک تجارت یا کاروبار ہے۔ اس طرح، ایسا لگتا ہے کہ سیکس ورکر کا پیشہ یا کاروبار ہندوستان کے آئین سے منظور شدہ ہے۔ ایسا لگتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے؛ کیونکہ، تھوڑی دیر بعد اسی آرٹیکل 19 (2) (6) میں کہا گیا ہے کہ حکومت 19 (1) کے ذیلی جز میں دیئے گئے حقوق پر “کسی بھی موجودہ قانون” کی بنیاد پر “مفاد عامہ” میں “معقول پابندیاں” لگا سکتی ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور اس کے بیوروکریٹس اگر چاہیں تو “وجہ” اور “مفادِ عامہ” کی اپنی ذاتی تفہیم کے مطابق کسی بھی کاروبار کے لین دین میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں یا اسے بند کر سکتے ہیں۔
ہمارے سیکس ورکرز اپنے روزمرہ کے تجربے سے جانتے ہیں کہ پولیس کس طرح 1860 کے تعزیرات ہند کے “موجودہ قوانین” کے پردے کے پیچھے سے کام کرتی ہے، کسی نہ کسی بہانے چھاپے مارتی ہے، دہشت گردی کرتی ہے اور صارفین سے ہفتہ وار یا مہینہ وار بھتہ وصولی طے کرتی ہے۔ ہمارے سیکس ورکرز اور ہماری زمین کے بہت سے دوسرے رعایا نہیں جانتے کہ اگر حکومت کے افسران چاہیں تو وہ آرٹیکل 19 (2) کے پیچھے محفوظ رہتے ہوئے، دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد کے خلاف ایسے چھاپے مار سکتے ہیں اور بند کر سکتے ہیں )۔
آرٹیکل(6) اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ اب تک جاری اس پریکٹس کے تحت، ہندوستانیوں کے کسی بھی پیشے یا کاروبار پر عمل کرنے کے “بنیادی حقوق” پر قدغن لگا سکتے ہیں۔اب آئیے ہمارے آئین میں درج آزادی کے دیگر حقوق پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ہندوستان کے سیکس ورکرز اور دیگر محکوم لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہاں تک کہ اگر انہیں یہاں کسی مطلوبہ اور ممکنہ پیشے یا کاروبار کی پیروی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، تب بھی ہمارے آئین میں کم از کم جینے اور آزادانہ نقل و حرکت کرنے کے بنیادی انسانی حقوق کی اجازت ہے۔ یہ بھی ایک غلط تصور ہے۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 21 کہتا ہے کہ: حکومت موجودہ قوانین کے ذریعے قائم کردہ طریقہ کار کے مطابق کسی بھی شخص کو مار سکتی ہے [یعنی زندگی کے حق کو ختم کر سکتی ہے] یا گرفتار کر سکتی ہے۔
انڈین پینل کوڈ کے قوانین کا ایک بڑا حصہ 1860 کا ہے۔ یہ ایک ضابطہ ہے جو 1857-1859 کی عظیم ہندوستانی بغاوت کو دبانے کے فوراً بعد نافذ کیا گیا تھا۔ ہمارے موجودہ حکمران منافقت کے سوا کچھ نہیں کرتے، جب وہ ہمیں آزاد ہندوستان کے شہری ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی برطانوی راج کے دنوں میں نافذ کیے گئے قوانین کے مطابق ہمیں محکوم سمجھتے ہوئے، ہم پر ظلم بھی کرتے ہیں۔ہمارے آئین کا آرٹیکل 22، پارلیمنٹ کے حقوق، حکومت اور اس کی پولیس کے ہمیں گرفتار کرنے کے حقوق کے بارے میں ہے۔ کسی بھی بہانے من مانی سے گرفتاری کا تجربہ ہمارے سیکس ورکرز اور ان کے صارفین کا عام تجربہ ہے۔ تاہم، ہمارے سیکس ورکرز اور زمین کے دیگر عام محکوم یہ نہیں جانتے کہ کچھ ہندوستانی صرف حکمران ذاتوں کے ارکان کے طور پر، اپنے سماجی حقوق کی وجہ سے، من مانی نظر بندی کے اس عام تجربے سے بچ جاتے ہیں۔
انتہائی کیسز میں ہمارے حکمرانوں کی پارلیمنٹ اور ان کے ایڈوائزری بورڈز یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو بغیر کسی وجہ بتائے اور بغیر کسی مقدمے کے تین ماہ سے زائد عرصے کے لیے من مانی طور پر حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے معاملات کے لیے زیرِ حراست مدت کی زیادہ سے زیادہ حدود کھلی رہ گئی ہیں۔اس کے علاوہ، ہماری جنسی کارکنان اور ان کے دوست یہ جان کر خوش ہو سکتے ہیں کہ استحصال کے خلاف حق کے عنوان کے تحت، ہمارے آئین کا آرٹیکل 23 (2) ہماری حکومت کو “عوامی مقاصد” کے لیے انسانوں کی اندھا دھند جبری نقل و حرکت میں ملوث ہونے کا واحد اور خصوصی حق دیتا ہے۔
ہندوستان کا آئین: حصہ3: ایک متن کے طور پر، بنیادی حقوق شاید ہماری پارلیمنٹ، مقننہ، حکومتوں اور تمام قسم کے مقامی حکام کو حقیقی، صوابدیدی اور مطلق حقوق سونپ دینے کی ایک بے مثال نظیر ہے۔ ہمارے سب سے طاقتور سیاسی مالکان، ان کی پولیس اور متعدد دیگر بیوروکریٹس، جو آج بھی برطانوی راج کے نوآبادیاتی قوانین کے تحت، ہندوستان کی محکوم رعایا کے “بنیادی حقوق” کے متعلق بااختیار ہیں۔
ہم نے اپنی زندگی کے تقریباً 62 سال ایسے بے مثال “بنیادی حقوق” کے ساتھ گزارے ہیں۔ ہم میں سے وہ لوگ جو حکمران ذاتوں کے سماجی حقوق اور مراعات کے ساتھ پیدا ہوئے تھے اور اس کے علاوہ انہوں نے انگریزی، امریکی، فرانسیسی، روسی، چینی اور دیگر انقلابات کے الفاظ بھی اٹھائے تھے، نہ صرف اس آئین پر بنیادی تنقید کی تجویز پیش ہی نہیں کی بلکہ ان تمام سالوں میں، اور یہ زیادہ شرمناک بات ہے، ہمارے کچھ “لبرلز“، “سوشلسٹ” اور، “مارکسسٹ” سبھی، دستور ساز اسمبلی کے دنوں سے، ہمارے آئین کی ناقابلِ سوال “بالادستی” کے متعلق رطب السان رہے تھے۔ان میں سے کچھ نے، یہاں وہاں کچھ معمولی غلطیاں تلاش کرنے کی مشقیں کیں اور کچھ نے اس بات پر شیخی بھی ماری کہ ہم نے دنیا کے سب سے طویل تحریر شدہ آئین کے نافذ ہونے کے بعد سے اس میں 97 بار ترامیم کی ہیں۔ کچھ ماہرین نے وقتاً فوقتاً کچھ گھریلو سچائیاں بیان کی ہیں لیکن ان تنقیدوں کے گرد کبھی کوئی بڑا ہنگامہ برپا نہیں ہوا۔
ہمارے آئین کے ایک نامور ماہر، ڈاکٹر سبھاش سی. کشیپ، جو لوک سبھا [ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں] کے سابق سکریٹری جنرل رہے ہیں، نے لکھا ہے کہ: ہمارے آئین کا تقریباً 75 فیصد برطانوی امپیریل گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے متن کی تکرار کے علاوہ کچھ نہیں ہے [سبھاش سی. کشیپ 1998: 4]۔
ڈاکٹر بھیم راؤ آر امبیڈکر، جو ہندوستانی آئین کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین تھے، نے افسوس کا اظہار کیا کہ: 26 جنوری 1950 کو، ہمارے آئین کے نفاذ کے دن، ہم خود ایک متضاد دنیا میں داخل ہو گئے ہیں۔ سیاست میں ہم نے ایک شخص ایک ووٹ کے اصول کو تو اپنایا ہے، لیکن ہم اپنی سماجی و اقتصادی زندگی میں، اپنے معاشرے کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کی وجہ سے اس اصول کی خلاف ورزی کرتے رہیں گے۔ [ایضاً: 52]۔
بنیادی طور پر، تمام آئین اور تمام قوانین ایک مخصوص جگہ اور وقت کی حکمران اشرافیہ کے سمجھے گئے مفادات اور تعصبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اب کچھ انتشار اور بے یقینی نے ہماری حکمران ذاتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کچھ بنیادی تنقید اور متبادل مسودے تجویز کر کے ان کی قانونی اور آئینی الجھنوں کی حدود کی جانچ پڑتال کا یہ اچھا وقت ہے۔
بشکریہ مین سٹریم ویکلی
http://mainstreamweekly.net/article13539.html