عمران خان کی حکومت ختم کرنے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ نئی آنے والی پی ڈی ایم کی حکومت ملک کی سیاسی و معاشی سمت کو درست کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گی جیسا کہ وہ عمران حکومت کے دوران اپوزیشن میں رہتے ہوئے دعوے کرتے تھے۔ لیکن پی ڈی ایم اتحاد اپنے دوسرے غیر تصوراتی بجٹ میں گرتی ہوئی معیشت کے لیے کوئی سمت متعین کرنے میں ناکام رہا ہے۔
جبکہ بزنس کمیونٹی کے رہنما اس بارے میں بالکل واضح رہے ہیں کہ وہ بہرحال یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اپنے موجودہ بحران سے نکلنے کا راستہ نکال سکتا ہے۔بزنس کمیونٹی کچھ ایسے عام فہم اقدامات کی نشاندہی کر رہی ہے جن پر یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہیں، جن میں ملک کے نظام عدل کو درست کرنا، تعلیم کی فراہمی میں بہتری، بیوروکریسی میں اصلاحات، معاہدوں کا نفاذ، ریاست کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی مشینری کی ڈاؤن سائزنگ کرنا اور سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والے کاروباروں سے دستبردار ہونا۔
زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان شعبوں کو درست کرکے شہریوں اور حکومت دونوں کے لیے زیادہ دولت پیدا کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے، جیسا کہ گزشتہ سال نے ظاہر کیا ہے، حکومتی قیادت اس بات سے بے خبر ہے اور خود کو ایک بڑے بحران میں پاتے ہوئے بھی کوئی رستہ تلاش کرنے میں ناکام ہے۔
ملک کے سب سے بڑے کاروباری ادارے کے سربراہ، میاں منشا نے، ڈان کو ایک حالیہ انٹرویو میں، ایک کیس اسٹڈی کے طور پر ہندوستان کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہاکہ نئی دہلی نے تقریباً تین دہائیاں قبل اپنے آخری آئی ایم ایف پروگرام کے بعد سخت اصلاحات نافذ کیں، اور اب وہ اپنی محنت کا صلہ اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا جس پر بہت سے لوگ کچھ عرصے سے زور دے رہے ہیں – کہ بھارت کے ساتھ تجارت کا احیاء، دیگر علاقائی معیشتوں کے ساتھ، پاکستان کے طویل مدتی اقتصادی استحکام کے لیے ایک شرط ہے۔
بدقسمتی سے، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے اپنے پڑوسی ملک بھارت سے اچھے خیالات یا سستی اشیاء دونوں درآمد کرنے سے خود کو بند کر دیا ہے۔ حکومت سے دوبارہ غور کرنے کی اپیل کرتے ہوئے، بہت سے لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب تاریخی دشمنی رکھنے والے دوسرے ممالک (چین اور بھارت) ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی طور پر منسلک ہونے سے انکار نہیں کرتے تو پاکستان اور ہندوستان کیوں؟ ان کی اس بات سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔
درحقیقت، اگر کوئی اسلام آباد کے ہندوستان کے ساتھ تجارت نہ کرنے کے فیصلے کی خوبیوں و خامیوں کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر اس کا نتیجہ پاکستانی عوام کی غربت کی صورت میں ہی نکل رہا ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ حکومت کی خارجہ پالیسی کے پنڈت اور فیصلہ ساز اپنے موقف پر نظر ثانی کریں اور تجارت کو جغرافیائی سیاسی تنازعات سے دوگنا کریں۔
خوراک سے لے کر ادویہ سازی تک، پاکستان بھارت سے بہت کچھ درآمد کر سکتا ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ سستے نرخوں پر۔ پھر بھی، ہم ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ مہنگائی ہمارے شہریوں کو کچل رہی ہے، سوال ‘کیوں‘ پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔ریاست نئی دہلی کے ساتھ اپنے اصولی اختلافات کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ جیسے چین اور بھارت، دونوں ممالک تجارت کرتے ہیں۔
دریں اثنا، جو سامان بازار میں دستیاب آپشنز سے سستا خریدا جا سکتا ہے، ان کو اندر آنے کی اجازت دی جائے تاکہ مہنگائی کے دباؤ سے نجات مل سکے۔ تجارت اور جغرافیائی سیاست کو بین الاقوامی پالیسی کے آزاد اجزاء کے طور پر سمجھا جانا چاہیے۔ اس معاملے پر سیاست کرنا خود غرضی ہے اور اپنے لوگوں کی کوئی خدمت نہیں کرتا۔ اس پر ہماری ریاست اور ہمارے سیاست دانوں کو متفق ہونے کی ضرورت ہے۔
ڈیلی ڈان 13 جون، 2023