مئی کا مہینہ سیاسی افراتفری اور عدم استحکام پر مبنی رہا اور مقامی و بین الاقوامی میڈیا سمیت پوری قوم کی نظریں اس دوران لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورتحال پر جمی رہیں۔ تاہم اس سب کے بیچ پاکستان کو درپیش بلاشبہ سب سے بڑا بحران کچھ دیر کے لیے میڈیا کی توجہ سے دور ہوا جس کے اثرات ہر روز عام عوام کو جھیلنے پڑ رہے ہیں۔
پاکستان میں مئی میں مہنگائی کی شرح ریکارڈ40 فیصد تک جا پہنچی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مہینوں میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں عوام کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ کیا آنے والا بجٹ عوام کو کوئی ریلیف دے سکے گا؟
اس وقت پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط کئی ماہ کی بات چیت کے باوجود نہیں مل سکی اور اس حوالے سے تاحال ایک ڈیڈلاک برقرار ہے۔ یوں حکومت نو جون کو پیش ہونے والا بجٹ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر پیش کرنے جا رہی ہے۔
یہ پاکستان میں الیکشن کا سال ہے اور اگست کے مہینے میں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہو جائے گی جس کے بعد عبوری حکومت اس کی جگہ لے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ عموماً الیکشن کے سال میں حکومتیں ’ریلیف بجٹ‘ پیش کرتی ہیں جوعوام دوست تو ہوتا ہے لیکن اس کے باعث حکومتی اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
گذشتہ ہفتے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں بات کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے جب پوچھا گیا کہ آئی ایم ایف اور دیگر بیرونی امداد کے بغیر وہ بجٹ کیسے بنائیں گے تو انھوں نے کہا کہ ’کوشش کریں گے کہ عوام پر بوجھ نہ پڑے۔۔۔ یہ ایک عوام دوست بجٹ ہو گا‘۔
تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے پیر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا گیا تھا کہ انھیں امید ہے کہ موجودہ پروگرام کے اختتام سے قبل وہ بورڈ میٹنگ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسحاق ڈار اس سے قبل جیو نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں اس حوالے سے بات کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے بجٹ کے اعداد و شمار شیئر کرنے کا کہا ہے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے ہم سے بجٹ کی تفصیلات مانگی ہیں، وہ ہم انھیں فراہم کر دیں گے۔‘۔
کیا آئی ایم ایف امداد کے بغیر حکومت کے لیے بجٹ بنانا کتنا مشکل ہو گا؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے پاکستان مسلم لیگ ن کے وزرا اسحاق ڈار، احسن اقبال اور عائشہ غوث پاشا سمیت دیگر رہنماؤں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم انھوں نے فی الحال اس بارے میں بات کرنے سے گریز کیا۔
خیال رہے کہ پاکستان کو اگلے مالی سال میں بیرونی قرضوں کی مد 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام میں داخل ہوئے بغیر ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب، گذشتہ ماہ سامنے آنے والی فسکل مانیٹر رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان نے بجٹ خسارہ، بیرونی قرضوں کا کل حجم اور سرکاری اخراجات کم کرنے جبکہ ریوینو بڑھانے جیسے اہداف پورے نہیں کیے ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ خزانہ کی جانب سے رواں ماہ جاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کل بجٹ خسارہ ساڑھے تین کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔
معیشت پر رپورٹ کرنے والے صحافی مہتاب حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت حکومت کے لیے عوام کو ریلیف دینے اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے درمیان توازن برقرار رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔انھوں نے کہا کہ ویسے تو ہم ہر چند سالوں بعد یہ فقرہ سنتے ہیں کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال بہت زیادہ سنگین ہے، حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے نویں اور دسویں قرض پروگرام کا حصہ بننا بھی ضروری ہے اور اس وقت مہنگائی کی یہ صورتحال ہے کہ یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے تو اس میں عوام بھی ریلیف کے منتظر ہیں۔
ایسے میں بظاہر تو حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترنے اور عوام کے لیے ریلیف بجٹ پیش کرنے کے درمیان خاصا مشکل فیصلہ درپیش ہو سکتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق حکومت اسے اپنی مرضی کا بجٹ بنانے کے موقع کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔
معاشی امور کے صحافی خرم حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ کے بغیر بجٹ بنانا تو مشکل کام نہیں ہو گا۔انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنی مرضی سے رقوم مختص کر دیں گے، لیکن اس کے ریوینیو اہداف پورے کرنا اور ان کے اثرات کو قابو کرنا وہ بہت مشکل ہو گا۔ یعنی اس بجٹ پر عمل کرنا اصل مسئلہ ہو گا۔‘
خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف ہمیشہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ آپ کا بجٹ حقیقت کے قریب ہونا چاہیے تاکہ اہداف پورے کیے جا سکیں۔ لیکن عموماً الیکشن کے سال میں حکومتیں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ کس قسم کا بجٹ بناتے ہیں۔‘آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کی بحالی کے حوالے سے دیے گئے اشارے کے بارے میں خرم حسین کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کا بیان بظاہر یہ اشارہ ضرور دیتا ہے کہ پروگرام بحال ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی ایسا ہونا بہت مشکل دکھائی دیتا ہے‘۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے امریکہ کی فرینکلن اینڈ مارشل کالج میں معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر دانش خان کا کہنا تھا کہ ’حکومت تو الیکشن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس ایک موقع کے طور پر دیکھ سکتی ہے لیکن ایک ریلیف بجٹ دینے سے پاکستان کی عالمی معاشی اداروں کی ریٹنگز نیچے جا سکتی ہیں اور دوست ممالک کا اعتبار بھی پاکستان پر کم ہو سکتا ہے۔’اس سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا‘۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ اس کی پیداواری صلاحیت کا کم ہونا ہے۔ یعنی آپ کی معیشت وہ اشیا پیدا نہیں کرتی جن کی طلب باقی دنیا کو ہے تو آپ کی برآمدات بہت کم ہیں اور معیشت کے اندر روزگار کے مواقع بھی کم ہیں۔’ جس کی وجہ سے معیشت کو مالی خسارہ، ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقوم میں کمی، بیروزگاری، قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات اور روپے کی قدر گرنے جیسی مشکلات درپیش ہیں۔ اور یہ اس بنیادی مسئلے کا حل نکالے بغیر ہر بجٹ میں سامنے آتی رہیں گی‘۔
bbc.urdu.com & Web desk