کارل مارکس کی سالگرہ اور بائیں بازو کا زوال

بیرسٹر حمید باشانی

گزشتہ دنوں کارل مارکس کی سالگرہ منائی گئی۔ دنیا بھر میں تقریبات ہوئیں۔ تقاریر ہوئیں۔ لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ موقع کی مناسبت سے کسی نے خراج تحسن پیش کیا، تو کسی نے مارکس کے خیالات، نظریات اور تخلیقات پر روشنی ڈالی۔سنجیدہ لوگوں نے مقالات اوور مضامین کے ذریعے مارکس اور اس کے کام پر روشنی ڈالی۔ ان تقاریر اور تحریروں میں زیادہ تر مارکس کی تعریف و توصیف ہی کی گئی۔

میں نے دنیا بھر کی پریس پر نظر ڈالنے کے باوجود ایسی کوئی تحریر یا تقریر نہیں ملی، جس میں مارکس پر تنقید کی گئی ہو۔ لیکن ایسا میں نے پاکستان کے سوشل میڈیا اور اردو ویب سا ئٹس پر دیکھا۔ یہاں مارکس کے ہمدردوں اور پیروکاروں نے اس کے خیالات اور کام کو جس انداز میں پیش کیا اس کا جتنا مارکسزم کو نقصان ہوا ہوگا اتنا اس کے کھلے مخالفین کی تنقید سے نہیں ہو سکتا۔ ان لوگوں نے مارکس کے نظریے اور فلسفے کو جس رنگ میں پیش کیا، اس کا مارکسزم کا دور پرے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ کئی ایسے اقوال و خیالات کو مارکس سے منسوب کیا گیا، جو غیر مارکسی اور رجعتی ہیں۔

کچھ لوگوں نے مارکس کی معرکہ آرا کتاب داس کیپٹل سر مایہ کی تشریح اپنے علم و تفیہم کی روشنی میں پیش کی۔  یہ تشر یح ان لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہے، جنہوں نے سنجیدگی اور توجہ سے داس کیپٹل پڑھی ہے۔ داس کیپٹل دنیا کی مشکل ترین کتابوں میں سے ایک ہے، جس میں سیاسی معیشت اور فلسفے پر بحث کی گئی ہے۔ اس طرح کی کتاب پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ذہنی استعداد اور علمی قابلیت کی ایک خاص سطح پر ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے دو سو سال پرانے حالات اور واقعات کی کچھ واقفیت ضروری ہے، جو اس وقت یورپ کی سیاست، معیشت اور فلسفے کی بنیاد تھی۔

کوئی تھوڑا بہت تاریخ کا علم اور تاریخ کے بارے میں پائے جانے والے مختلف نظریات اور رحجانات کا علم بھی ضروری ہے تاکہ مارکس کے نظریات تاریخ اور تاریخی مادیت کو سمجھا جا سکے۔ تھوڑا بہت فلسفے کا علم اور ان فلسفیانہ روایات سے آشنائی بھی ضروری ہے، جن کو سامنے رکھتے ہوئے مارکس نے فلسفے کو درست تناظر میں سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت کی پولیٹیکل اکانومی اور مختلف معاشی نظریات کا تھوڑا بہت علم بھی ضروری ہے، جن کی بنیاد پر مارکس نے داس کیپٹل لکھی۔

اب ظاہر ہے ان سب چیزوں کا علم ہر آدمی کو نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی ایسا ضروری یا ممکن ہے۔ یہ علم محدودے چند دانشوروں، محقیقین، اور محدود تعداد میں غیر معمولی ذہانت کے حامل لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن مارکس کی سالگرہ پر ان پر تنقید کے تیر یا تعریف کے ڈونگرے ان لوگوں نے برسائے ہیں جو زیادہ تر ایف اے یا بی اے پاس یا فیل لوگ ہیں جنہوں نے زیادہ تر پاکستان کے ایسے سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے، جہاں معاشیات یا سیاسیات کا استاد اپنا زیادہ تر وقت اسلامیات اور مطالعہ پاکستان سے جڑے موضوعات پر گفتگوکرتے ہوئے گزارتا ہے۔یہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں زیادہ تر تو مارکس جیسے دانشوروں کا نام لینا ہی گوارہ نہیں رہا ہے، لیکن اگر کہیں ایسا کیا بھی گیا تو منفی انداز میں متعصبانہ پروپیگنڈے کے لیے کیا گیا۔

اب ایسے تعلیمی اداروں سے نکلے ہوئے لوگ اگر داس کیپیٹل میں غلطیاں نکالیں، اور مارکس پر ایسے تنقید کریں جیسے وہ ان کا ہم عصرطالب علم رہنما ہو تو یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے۔ مارکس کے نقادوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جن کے علم کی ابتدا اور انتہا ہی سوشل میڈیا سے ہوتی ہے، اور ان کے سارے علم و فضل کا منبع گوگلہے۔ ایسے بیشتر لوگوں کا نہ تو کوئی ٹھوس علمی یا تحقیقی پیس منظر ہوتا ہے، نہ ان کی معیشت اور فلسفے میں کوئی باقاعدہ تعلیم ہوتی ہے، لیکن یہ گوگل پر تکیہ کر کے سیدھے کارل مارکس کے دامن پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اب اس طرح کے لوگ جس طرح مارکس کا نام لیتے ہیں، یا اس کی تخلیق پر تنقید کرتے ہیں اس کا معیار کسی کلاسیکل “‘ جگت بازیسے بھی گرا ہوتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جب اس طرح کی چیزوں کو سوشل میڈیا پر لایا جاتا ہے تو کچھ لوگ نا صرف آنکھیں بند کر کہ اسے لائیککرتے ہیں، بلکہ اس میں اپنے قیمتی خیالات کا اضافہ کرتے ہوئے مارکس کو بے نقط کی سناتے ہیں۔

اس صورت حال کو دیکھ کر ہمارے ہاں معیار تعلیم کی پستی اور گراوٹ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں علمی اور ادبی سطح سے بھی زیادہ کارل مارکس کے بارے میں مباحثےسیاسی سطح پر ہوتے ہیں۔ مارکس کے بارے میں گفتگو زیادہ تر ایسی سیاسی تقریبات میں ہوتی ہے، جن کا اہتمام سیاسی گروپوں یا فورمز وغیرہ میں کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں صرف ایسی شخصیات کو بلایا جاتا ہے، جو پارٹی یا فورم کا حصہ ہوتے ہیں، لیکن انیسویں صدی کے اس یورپی لکھاری کے خیالات اور فلسفے کے بارے میں ان کی معلومات واجبی اور پارٹی پالیسیوں کے مطابق ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اس موقع پر جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو اس موضوع پر علم رکھنے والے لوگ ششدر رہ جاتے ہیں۔

پاکستان میں ہر دائیں بازو کے گروپ یا فورم کا اپنا ایک الگ کارل مارکس ہے۔ وہ اپنے اس خاص کارل مارکس کا بلکہ اسی طرح حوالہ دیتے ہیں، جس طرح مذہبی لوگ اپنی برگزیدہ ہستیوں کے اقوال زریں بیان کرتے ہیں۔ جس طرح مذہبی اقوال میں کسی قسم کی ترمیم یا رد وبدل کی گنجائش نہیں ہوتی اسی طرح ان کے پیش کردہ مارکسی خیالات میں بھی اس کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کے پیش کردہ اقوال کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اکثر اقوال ایسے ہیں، جن کا مارکس اور اس کے فلسفے سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہے۔ یہ اقوال سیاسی ضروریات کے تحت گھڑے جاتے ہیں، اور ان کو مارکس کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ مارکس کو لے کر یہ جو طوفان بد تمیزی مچا ہوا ہے، یہ صرف ہمارے حصے میں آتا ہے۔ مغرب میں صورت حال مختلف ہے۔

دنیا میں مارکسزم کے خلاف سب سے طاقت ورترین محاذ مغرب میں کھڑا کیا گیا۔ مارکسزم کا مقابلہ کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ہیری ٹرومین ڈاکٹرائن سے لیکر جو بائڈن کی پالیسیوں تک کو مارکسزم کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا۔ لیکن مغرب میں علمی اور فکری سطح پر مارکسزم کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا اور اس کو ہر سطح پر ہونے والے مباحثوں کا حصہ بنایا گیا۔ یہاں یونیورسٹیوں میں مارکسزم بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں مارکسزم پر بات ہوتی ہے۔ یہاں مارکسزم سے اختلاف اپنی جگہ مگر اس کو انیسویں صدی کا اہم ترین سیاسی اورمعاشی فلسفہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس سے اختلاف یا اتفاق کی بات کی جاتی ہے۔ یہاں کوئی یہ نہیں کہتا کہ مارکس نے یہ غلط کہا یا وہ درست کہا، بلکہ اسے اپنے عہد کے عظیم ترین فلسفیوں کی صف میں کھڑا کر کے اس پر بات کی جاتی ہے۔

کسی معاشرے میں جب زوال آتا ہے تو اس کا اظہار کسی ایک طبقے یا مکتب فکر میں نہیں ہوتا، اس کا اظہار زندگی کے ہر شعبے میں ہوتا ہے۔ اس زوال کا اظہار مارکس کے حوالے سے پاکستان کے دم توڑتے ہوئے بائیں بازوں کے خیالات اور نظریات میں بھی ہوتا ہے، جو فرسودگی اور رجعت پسندی کا شکار درجنوں گروہوں کے لیڈروں کی گرفت میں ہے۔ یہ گروپ ماکسزم کے نام پر ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر بایاں بازوں پسپائی کا شکار ہے اور سیاست میں اس کا کردار ختم ہوتا جا رہا ہے۔

Comments are closed.