بیرسٹر حمید باشانی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے، اس جھولی کا پھیلانا کیا۔ ابن انشا نے شاعرانہ انداز میں ایسی جھولی پھیلانے سے منع کیا، جس میں چھید ہوں۔ معاشیات اور سیاسیات کی دنیا میں جھولی کی جگہ بیگ اور تھیلے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اس سلسلے میں دنیا کی تقریباً ہر ایک زبان میں کوئی نہ کوئی کہانی موجود ہے، جس میں کسی ایسے شخص کا ذکر ہے، جو دولت کمانے یا سرمایہ جمع کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے، اور اس سلسلے میں بڑا کمال دکھاتا ہے، لیکن آخر میں وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس جو تھیلا ہے، اس میں سوراخ ہیں، وہ سونا چاندی حاصل کر کے اس تھیلے میں ڈالتا جاتا ہے۔ یہ دولت تھیلے کے سوراخ سے نکلتی رہتی ہے۔ چنانچہ وہ شخص غریب اور بدحال ہی رہتا ہے۔
ان لوک داستانوں کا سبق یہ ہے کہ آپ چاہے دنیا جہاں کی دولت جمع کر لیں لیکن اگر آپ کے تھیلے میں سوراخ ہے، یعنی آپ اس دولت کو بچانا نہیں جانتے، اس کا درست استعمال نہیں کر سکتے تو آپ کو اس دولت سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اس کہانی کو مغربی ممالک میں عموما مالیاتی ادارے اپنی بچت اور سیونگ کی مختلف سکیموں کی تشہر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں عموما ایک تصویر دکھائی جاتی ہے، جس میں ایک آدمی جا رہا ہے۔اس کے کندھے سے ایک تھیلا لٹک رہا ہے، جس میں سوراخ ہیں، اور ان سوراخوں سے کرنسی نوٹ گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بے شک فرد یا افراد کی کہانی ہے، مگر اس کا اطلاق ملکوں اور ریاستوں پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان پر اس کا اطلاق تو اس قدر ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ کہانی پاکستان کو سامنے رکھ کر خصوصی طور پر تخلیق کی گئی ہے۔ پاکستان کی جھولی میں چھید اتنے ہیں کہ انکا شمار ہی ممکن نہیں، لیکن حکمران اشرافیہ اس چھید بھری جھولی کو ہر دور میں بڑے تسلسل اور ثابت قدمی سے پھیلائے رکھتی ہے۔ سو چھید کے باوجود جھولی میں کچھ نہ کچھ پڑتا رہتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی تھیلے میں جو سوراخ ہیں، ان سے گزر کر دولت کہاں کہاں جاتی ہے، اس کا حساب کتاب دل دہلا دینے والا ہے۔ یہ حساب کتاب یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کھربوں کا قرضہ لینے کے باوجود پاکستان مستقل طور پر معاشی بحران کا شکار کیوں رہتا ہے۔ اور ملک ہر وقت نازک دور سے ہی کیوں گزر رہا ہوتا ہے۔
پاکستان کے تھیلے میں طرح طرح کے سوراخ ہیں۔ ہر سوراخ کسی خاص طاقت ور طبقے کے لیے ہے۔ایک سوراخ ایسا ہے ، جو خصوصی طور پر سرکاری ملازمین کی مراعات کے لیے بنایا گیا ہے۔ملک میں سرکاری ملازمین پر کیے جانے والے اخراجات اور ان کو دی جانے والی مراعات پر کئی ایک سروے ہوئے ہیں، اور تحقیقاتی رپورت تیار کی گئی ہیں، جو وقتا فوقتا قومی اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں شاِئع ہوتی رہی ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق پاکستان میں سرکاری ملازمین کو ادا کی جانے والی رقم تین کھرب روپے سے زیادہ ہے۔ صرف پنشن کی مد میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک اعشاریہ پانچ کھرب روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ گورنمنٹ سرونٹس یا سرکاری ملازمین کے علاوہ حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے مختلف پروجیکٹس پر کام کرنے والی حکومتی کمپنیوں کے ملازمین اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کو ادا کی جانے والی رقم تقریباً 2.5 کھرب ہے۔
اسی طرح دفاع سے منسلک ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں ادا کی جانے والی رقم ایک کھرب کے قریب ہے۔ یہاں عموما تنخواہوں کا رونا رویا جاتا ہے ، مگر حقیقت میں سرکاری ملازمین کو جو رقوم مراعات اور فوائد کی مد میں ادا کی جاتیں ہیں ان کے مقابلے میں تنخواہ کا ذکر ہی بے کار ہے۔ یہ مراعات اور فوائد ان کی تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہیں، اور سرکاری ملازمت میں اصل کشش کی وجہ بھی ہیں۔ سرکاری افسران کی طرف سے صرف سرکاری گاڑیوں کے ذاتی استعمال پر اٹھنے والے اخراجات ان کو ادا کی جانے والی بنیادی تنخواہوں سے ایک گنا زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں اقوام امتحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی کچھ رپورٹس بڑی اہم ہیں۔ ان میں سے کچھ رپورٹس دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور اس کے اثرات کے بارے میں بڑی اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں معاشی مراعات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی معاشی مراعات ملکی معیشت کا چھ فی صد ہے جو تقریباً سترہ عشاریہ چار ارب ڈالر بنتے ہیں۔ اسی طرح کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے تحت نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں پاکستان میں مخصوص افراد کو حاصل معاشی مراعات اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طاقتور طبقات اپنے منصفانہ حصہ سے زیادہ وصول کرنےکے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہیں۔
مراعات یافتہ لوگ معاشرتی روایات پر مبنی تعصب کے ذریعہ ساختی امتیازی سلوک بھی برقرار رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے لائی گئی پالیسیاں اکثر ناکام رہتی ہیں۔اس رپورٹ پر یو این ڈی پی کی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور علاقائی چیف نے اس وقت کےوزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے دیگر اراکین سے بات چیت کی تھی۔اس بات چیت کے بعد پریس سے بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی رہنماؤں نے اس رپورٹ کو درست مانا ہے۔ اور کارروائی کاعہد کیا ہے۔انہوں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ موجودہ ٹیکس اور سبسڈی پالیسیوں جیسی چیزوں ، زمین اور سرمائے تک رسائی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے گا۔
ان کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق مراعات کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والاکارپوریٹ سیکٹر ہے، تخمینہ کے مطابق اس سیکٹر نے سات کھرب 18ارب روپے کی مراعات حاصل کیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات حاصل کرنے والا ملک کا ایک فی صد امیر ترین طبقہ ہے، جو ملک کی مجموعی آمدن کے نو فی صد کا مالک ہے ۔ ملک کے جاگیر دار اور بڑے زمیندار کل آبادی کا ایک عشاریہ ایک فی صد ا ہیں، لیکن ملک کی 22فی صد قابل کاشت زمین کے مالک ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں دونوں طبقوں کی مضبوط نمائندگی ہے، بیشتر بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یاکاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہاں جو لوگ مراعات کی فراہمی کے ذمہ دار تھے وہ خود ہی مراعات وصول کررہے ہیں۔ ایک ہاتھ سے وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کیلئے مراعات دے رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے وصول کررہے ہیں۔
ملک کا طاقتورطبقہ زمین ، سرمایہ، انفرااسٹرکچر او رٹیکس کی چھوٹ کی مد میں دو کھرب ساٹھ ارب روپے (ایک عشاریہ سات ارب ڈالر) کی مراعات لے رہا ہے۔ ملک کے امیرترین ایک فی صد طبقے کے پاس 2018 اور 19 میں ملک کی نو فیصد آمدنی تھی۔ جب کہ غریب ترین 1 فیصد کے پاس صرف 0.15 فیصد حصہ تھا۔مجموعی طور پر، 20 فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس قومی آمدنی کا 49عشاریہ چھ فی صد ہے،جب کہ بیس فی صد غریب ترین کے پاس قومی آمدنی کا صرف سات فی صد ہے۔ ان حالات میں تھیلے کا سوراخ واضح طور پر بتاتا ہے کہ پاکستان میں جو دولت لائی یا پیدا کی جاتی ہے، وہ جاتی کہاں ہے ؟اس سوراخ کو بند کیَ بغیر، اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا راستہ اختیار کیے بغیر حالات میں کسی مثبت تبدیلی کے امکانات نہیں ہیں۔
♣