بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ ۔ چھٹا حصہ


مہر جان
بلوچیت وہ قومی شعور ہے جو بلوچ کو اس کی اصل سے جوڑ دیتا ہے،جو اسے زمین پہ سیاسی، ثقافتی و تاریخی بنیادیں عطاء کرتا ہے ، بلوچ میں ہر قوم کی طرح حصول آزادی و غلامی ہر دو کی استعداد موجود ہے اب اس کے شعور کی پختگی پہ منحصر ہے کہ وہ کس راہ میں اپنا یہ تاریخی سفر طے کرکے اپنے سیاسی وجود /سیاسی عدم وجود کو برقرار رکھتا ہے۔اگر وہ حالات پہ مکمل طور پہ منحصر ہوئے بغیر جدلیاتی انداز سے حصول آزادی کی استعداد کے لیے کمر بستہ ہوجائے تو بلوچیت تاریخی سفر میں پروان چڑھ کر ٹھوس شکل میں آزادی کی صورت سامنے آجاتا ہے ، اور تاریخ عالم میں تصور آزادی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے،۔

درحقیقت یہ بلوچیت ہی ہے جوبلوچ کو تاریخی سفر میں ہئیت دے کر اپنے سفر کی طرف گامزن ہے ۔بقول بابا مری تبدیلی  زمانہ ہمیشہ قوم و ثقافتی دائرے میں اپنا سفر مکمل کرتی ہےاس لئے حقیقی نیشنل ازم کا رستہ ہی وہ واحد رستہ ہےجہاں یہ سفر ممکن ہے نہ کہ بیرونی مداخلت اور جبر تسلط کے دائرے میں”  لیکن نوآبادیاتی ریاست میں نوآبادکار اس شعور پہ بیرونی طور اور جبر و تسلط سے کئی محاذوں سے حملہ آور ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک خطرناک محاذ  بلوچ و بلوچیت کے نام لینے والوں کا بھی ہوتا ہے جس پہ بابا مری کی خاص الخاص سیاسی و فلسفیانہ نظرتھی کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں بلوچیت کے نام پہ بلوچ کو بلوچ سے دور تو نہیں کیا جارہا؟۔

اس محاذ پہ نیشنل ازم کا خاص پرچار ہوتا ہے ،نیشنل ازم کے نام پہ جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتاہے ، سیاسی پروگرام، سیاسی اداروں سے بڑھ کر شخصیت پرستی ، ہیروازم جیسی نوآبادیاتی وبائی  بیماریوں کا بول بالا ہوتا ہے، بلوچیت کے نام پہ نوآبادکار کے ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر جمہوریت ، آئین و قانون کی بالادستی اور عدلیہ کے دائرہ کارمیں رہ کر انسانی حقوق جیسے  کھوکھلے نعروں کی پذیرائی ہوتی ہے، فینن افتاداگان خاک میں  اس حوالے سے گس قدر حقیقت سے قریب تر بات کرتاہے کہ نوآبادیات کے عوام جو یک بیک اپنے تشدد کو نوآبادیاتی نظام کی تباہی کے عظیم کام پر لگاتے ہیں ۔بہت جلد خود کو ایک بنجر اور جامد نعرے کے سپرد کردیتے ہیں، پارلیمنٹ سے لے کر پریس کلب تک بنیادی مدعا کو پس پشت  ڈالتے ہوئے تقاریر کا ایک سلسلہ  جاری رہتا ہے ، اس ہا و ہو میں آہین قانون و عدلیہ اور جمہوریت کی بالادستی جیسے نمائشی نعروں کی  بازگشت بار بار سنائی دیتی ہے۔ ،

چیخ و پکار و شور کی فریکوینسی کو کنٹرول کرنے کے لیے کھوکھلی ریاست ، ڈیتھ اسکواڈز .ریاستی فورسز ، پولیس ، لیویز ، پیرا ملٹری کے علاوہ  لالچ ، دھمکی دھونس کے سارے ذرائع بروئے کار لاتی ہے ، اور کبھی کبھی انہیں اقتدار کے ایوانوں میں  کچھ جگہ وزاتوں و مشیروں  اور سینیٹرز کی صورت میں رشوت دی جاتی ہے ۔ فنڈز و ترقیاتی کام کے محدود ذرائع کھول دیے جاتے ہیں، لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انہیں اقتدار سے اس طرح نکالا جاتا ہے جس طرح مکھن سے  بال نکالا جاتا ہے ۔ یہ ساری پالیسیز  ڈیپ اسٹیٹ”  پالیسی کا حصہ ہوتا ہے کہ کس کو لانا ہے ، کس کو نکالنا ہے ، چیخ پکار کی اس آواز کو کس فریکوئینسی میں رکھنا ہے ، اس لیے بابا مری  اسے فیڈریشن کے بجائے غلام اور طاقتور کا رشتہ سمجھتے تھے۔ 

غلام اور طاقتور کے اس رشتے  میں محکوم کے اس طرح کے سارے اعمال درحقیقت ریاست کے لئے شعوری یا لاشعوری طور پہ سیفٹی واؤلز  کا کام دے رہے ہوتے ہیں۔ جب بھی سیاسی میدان میں پریشر زیادہ ہوتا ہے تو سیفٹی واؤلز کے  ذریعے پریشر کو ریلیز کیا جاتا ہے ، جس طرح کہ تاریخ میں جب نواب بگٹی  کا واقعہ  پیش آیا ، لاش کی وصولی کے بغیر غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی گئی تو بابا مری اسے بھی سیفٹی والوؤ اور دکھاؤا سے تشبیہ دے کر شرکت نہیں کی ۔ بقول بابا مری کے بلوچیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب تک لاش کی وصولی نہ ہو اس وقت تک جنازہ نہیں پڑھاجاتا ، غائبا نہ نماز جنازہ پڑھا کے دراصل پریشر کو ریلیز کیا گیا۔

آج ریاستی قانون ، عدلیہ ، پارلیمنٹ و جمہوریت ، اس کی بہترین مثالیں ہیں ،جہاں پریشر وزارت ، عہدے و تقاریر اور ترقیاتی فنڈز کی صورت کم ہوتا رہتا ہے . اور اس طرح ریاست اپنے آپ کومکمل طور پہ کلی قومی مزاحمت سے محفوظ تصور کرتی ہے، ریاست کا سول سوسائٹی بھی اس کارخیر پریشر کو ریلیز کرنے  میں بطور ہمدرد کے حصہ لیتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی صورت پاکستانیت پہ کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں رہتا، بقول گرامشی کہ جب بھی ریاست لڑکھڑاتی ہے تو سول سوسائٹی کا ایک مضبوط  ڈھانچہ سامنے آتا ہے۔اس لیے بابا مری جب ایک بار آزادی کا اصولی موقف  اپنایا جسے موقف کی جنگ”  کہا جاتا ہے اس پہ پھر کبھی بھی نہیں لڑکھڑایا.جبکہ آئین ، قانون ، عدلیہ و جمہوریت کے نام لیوا روم کی غلاموں کی طرح اپنی غلامی پہ ثابت قدم رہے۔

میں نے روم کے غلاموں کی طرح حکومت کی ہے یہ الفاظ ایک ایسے وزیر اعلی کے ہیں جسے  ڈھائی سال بلوچستان میں حکومت کنٹریکٹ پہ دی گئی تھی اور  ڈھائی سال بھرپور وفاداری نبھانے کے بعد اسے کان سے پکڑ کر نکالا گیا۔ بلوچیت اور مڈل کلاس کے نعروں پہ پلنے والے اس سیاستدان کو اقتدار میں آنے کے لیے کیسے کیسے پاپڑے بیلنے پڑے  یہ ایک الگ کہانی ہے۔ ویسے بھی  بقول بابا مری مڈل کلاس  پولٹیکس دنیا میں یا دنیا کے کس ملک میں راہبری کی ہے؟ البتہ یہاں  بلوچستان میں قومی شعور کے حامل سرداروں کی مخالفت  مڈل کلاس پولیٹکس  کا مرکز و محور رہا ہے، اور ان کی مخالفت صرف اس بنیاد پہ کی گئی ہے بابا مری کے الفاظ میں کہ جی وہ تو سردار ہے یا سردار کا بچہ ہےایسے جملوں کی سنجیدہ و علمی حلقوں میں کوئ وقعت نہیں ہوتی لیکن وہ سادہ لوح عوام کو اسی ایک جملے سے ٹرک کے بتی کے پیچھے لگادیتے ہیں ، اس حوالے سے نہ ان کے پاس نہ کوئ دلیل ہوتی ہے  نہ مکالمہ و بحث کی گنجائش رکھتے ہیں۔

،بہرحال روم کا غلام نے اپنی چالاکی و عیاری سے مقتدرہ حلقوں (پاور سینٹرز )کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ  مزاحمت کاروں کا اک حلقہ انکی سیاسی شاگردی میں رہا ہے۔ اس لیے اقتدار میں آکر وہ مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی میز پہ لانے میں کامیاب ہوگا وگرنہ  مزاحمت کاروں کا قلع قمع کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہے گا ۔ بلوچ مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی میز  پہ خیر وہ کیا لاتے البتہ جن کے کندھوں پہ بیٹھ کر  وہ شہر اقتدار میں آیا تھا اپنے دور اقتدار میں انہی کے جنازوں کو کندھا دے دے کر شہر اقتدار سے رخصت ہوا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی  وفاداری نبھانے کی باوجود اس کی اوقات بقول ان کے روم کے غلاموں سے بڑھ کر نہیں تھی ۔ بلوچ لکھاریوں کی مہربانیوں سے وہ اپنا اصل چہرہ بلوچ عوام سے کسی حد تک چھپائے رکھا، وزارات اعلی سنبھالتے ہی بلوچ کوتاہ نظر لکھاریوں کو گرانٹس ،ایوار ڈز ، اشتہارات ، وعدہ و وعید  و نجی مجالس کے تحت خوش رکھا کیونکہ وہ ہر بلوچ للھاری کو مٹھی میں بند رکھنے کا ہنر جان چکا تھا لیکن اونٹ کو جیب میں  ڈال کر تو نہیں چرایا جاسکتا جلد یا بدیر وہ اپنے اصل چہرے کے ساتھ آشکار ہوا کہ بلوچیت و مڈل کلاس پولیٹیکس کے پردے میں وہ کس قدر کریہہ المنظر  چہرہ رکھتا ہے۔

شہر اقتدار میں مڈل کلاس کی سیاست ہو یا بلوچیت کے نام پہ سیاست کرنے والا ریاستی سردار ہو ، ان سب کی اوقات مقتدرہ حلقوں میں ہمیشہ غلاموں کی ہوتی ہے وہ اقتدار کے لیے نہ صرف اپنے آپ کو غلام رکھتے ہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کا ، سائل و ساحل کا بھی سودا جمہوریت و آہین و قانون کے نام پہ کرتے ہیں ،دراصل وہ اس حقیقت کو سمجھ چکے ہوتے ہیں کہ حقیقی نیشنل ازم کی سیاست کتنی پرخار ہے ، کیونکہ حقیقی نیشنل ازم کی سیاست ایک انتظامی یونٹ تک محدود نہیں ہوتی بلکہ بلوچ وطن کی حقیقی سیاست ہی بلوچ نیشنل ازم ہے ، اس لئے ان کی سیاست سڑک و نالی کی سیاست و  قوم پرستی کی  بجائے بقول نواب بگٹی پیٹ پرستیرہا ہے وہ بڑے فخر سے ایوانوں میں اپنے بڑوں اور قوم کے شہیدوں کا نام استعمال کرتے  ہیں لیکن ان کے رستوں پہ چلنا ان جیسوں کی بس کی بات نہیں رہی ، بقول سردار عطاء اللہ مینگل کہ یہ اتنے خوش نصیب بھی نہیں ، اب وہ ایک ایسے درمیانی رستے کو اپنا چکے ہیں جہاں نہ وہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔

اقتدار کے دروازے تک پہنچنے کے لیے ایک وقت ایسا بھی آیا ، کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے نام سے جاننے والا ، یا مسنگ پرسنز کے لیے پاکستانی صحافت کی دنیا میں وکالت کرنے والا صحافی حامد میر نے  صرف اس بات پہ انہیں محسن پاکستان”  کہہ کر کالم لکھا کہ کہ سردار صاحب مسنگ پرسنز کے حوالے سے یو این کے وفد سے ملاقات کرنے کی بجائے عدلیہ کا دروازہ کھٹکٹھایا ، اور آج تک اسی دراوزے پہ کھڑا ہوکر محسن پاکستان ہونے ثبوت دے رہا ہے ۔دراصل یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پہ جاننے والے  صحافی ان دنوں سردار  و اسٹیبلشمنٹ کے درمیان  پل کا کردار ادا کررہا تھا ۔لیکن وقت کا کرنا ایسا ہوا  کہ مڈل کلاس کی سیاست نے بڑی عیاری و چالاکی سے اس  پل کو دریا برد کرکے خود مقتدرہ حلقوں کے لیے روم کی غلاموں کی طرح حکومت کرنے لئے رخت سفر باندھا،اور آج نو آبادیاتی ریاست کے لیے بلوچستان وہ تجربہ گاہ بن چکی ہے جہاں ان جیسوں کو اقتدار کی ایوانوں سے بغیر ہاتھ لگائےاچھوت کی طرح نکال کر مافیاز، ڈیتھ اسکواڈز کو طاقت بخش بناکر نت نئے تجربے کیے جارہے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے  سےحقیقی نیشنل ازم کا رستہ روکا جائے۔
کیا یہ سارا ٹوپی ڈرامہ جمہوریت کے لیے رچایا جارہا ہے یا دو طرفہ ضرورت کے تحت یہ تماشہ جاری ہے ؟ بابا مری کا یہ سوال یہاں کس قدر بر محل ہے کہ  کیا جمہوریت پہ ان کا ایمان ہے یا جمہوریت ان کی ضرورت ہے؟ یا بالفاظ دیگر  کسی محکوم قوم کی جمہوریت حقیقی جمہوریت ہے یا شکست خوردگی کی علامت ہے ؟ موجودہ حالات میں ایک طرف  پیٹ پوجا شد و مد سے جاری ہے تو دوسری طرف ساحل و وسائل پہ گھیراؤ نہ صرف تنگ ہورہا ہے بلکہ انہی ساحل وسائل کی بنیاد پہ بین الاقوامی ضمانتیں و قرضے لیے جارہے ہیں ، یعنی جمہوریت کے نام لیوا بھی اپنی اپنی ضرورت  و پیٹ کو دیکھ کر جمہوری بساط میں پیادے بنے ہوئے ہیں ان کا جمہوریت و جمہوری رویوں سے کوئی لینا دینا نہیں،  یہ صرف مفادات و قومیت کو  گڈ مڈ کرکے بلوچ نیشنل ازم کا خالی خولی پرچار کررہے ہیں اور بلوچ قوم کو بقول بابا مری محکومیت کا سبق دے رہے ہیں۔بلوچ نیشنل ازم کے نام پہ شروع شروع میں حق خودرادیت  کی گونج بھی سنائی دیتی ہے لیکن یہ اب اس قدر خصی پن کا شکار ہوگئے ہیں کہ اس لفظ کی گونج بھی کہیں سنائی نہیں دیتی۔

ایک صوبے کی بات ، یا حصہ داری کی بات کرنا بقول بابامری ایسا ہے کہ جیسا کہ کوئی مزدوری مانگ رہا ہو ، مزدوری بھی ایسی کہ جیسے کوئ فقیر  کو بچا ہوا  کھانا دے دیتا ہے , یہ سارے جو نیشنل ازم کے نام پہ سیاست کررہے ہیں بابا مری کے الفاظ میں ان کی پارٹی پالیسی اور اور حکمت عملی ابہام کا شکار ہے۔بابا مری  اس بات  پر زور دیتے ہیں کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی پارٹی پالیسی کیا ہے ؟ بابا مری کے مطابق قوم پرست پارٹی کو وطن سے منسوب ہونا چاہیے نہ کہ کسی انتظامیہ یونٹ سے جبکہ یہاں ایسا  کچھ نہیں ہے ، ہر طرف آہ و بکا ہے ، اس لئے انکے جلسے جلوس و تقاریر کو بابامری موج میلوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔بابا مری قوم کے سامنے ایک سوال رکھتا ہے کیا ہم ان تقریروں ، بلند بانگ دعوؤں اور موج میلوں سے حقوق حاصل کریں گے؟ بقول بابا مریگہرائی سے تجزیہ کرنا پڑے گا کہ وقت گذاری اور سطحی انداز سیاست سے کوئی قوی کامیابی حاصل نہیں ہوگی بلکہ نقصانات کے قوی امکانات ہیں۔

جاری ہے

پہلا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

دوسرا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ۔حصہ دوم

تیسرا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

چوتھا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ۔چوتھا حصہ

پانچواں حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ ۔ پانچواں حصہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *