ڈاکٹر مبارک علی
تاثر یہ ہے کہ تاریخ جامع اور مکمل ہوتی ہے اور اس میں معاشرے کے تمام طبقات کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ ہمیں اشرافیہ اور عام لوگوں کے درمیان بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ اشرافیہ کا ابتداء ہی سے تاریخ نویسی پر تسلّط تھا۔ اس میں بادشاہ اور اُمراء کی شان و شوکت، دولت کی فراوانی، اَدب، آرٹ، موسیقی اور فن تعمیر کی سرپرستی تاریخ کے خاص پہلو ہیں۔ اشرافیہ کو اپنے ماضی پر فخر رہا ہے۔ کیونکہ اس میں اُن کی خاندانی شرافت، جنگوں میں بہادری اور شُجاعت کے کارنامے اور غریبوں کے ساتھ فیاضی اور رحم دِلی کی ثبوت درج ہوتے تھے۔
اس کے مقابلے میں نچلے طبقوں اور عام لوگوں کا تاریخ میں کردار تو ہے مگر ان کا کوئی ماضی نہیں ہے۔ مثلاً ہندوستان کے اَچُھوت یا دلت ہزاروں برس سے تعصّب اور نفرت کے درد سہتے رہے ہیں۔ نہ یہ تعلیم یافتہ تھے نہ ہی کاریگر اور دست کار۔ ان سے وہی کام کروائے گئے، جو معاشرے کے نظر میں گندے اور غلیظ تھے۔ ایک برہمن راہنما جب اس برادری کے کسی فرد سے بات کرتا تھا تو ان کے درمیان پہلے پردہ ہوتا تھا تا کہ وہ اچھوت کا چہرہ نہ دیکھے۔
برطانوی حکومت کے دور میں اچھوت یا دلتوں کو پہلی مرتبہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع مِلا لیکن ان لوگوں کی اپنی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ ان پر جو تحقیق کی گئی اُس کے لیے یا تو اشرافیہ کے تاریخی ماخذوں کو استعمال کیا گیا یا ان کے بزرگوں سے انٹرویو کیے گئے۔ ان انٹرویوز کی مدد سے ان کے کھوئے ہوئے ماضی کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس برادری کا لوگوں کے لیے اوّل تو ان کا کوئی ماضی نہیں تھا اور اگر اس کی کچھ یادیں نسل در نسل جاری رہیں تھیں تو وہ قابلِ فخر نہیں تھا۔ اُن کی تاریخ اُن کے لیے بے معنی تھی۔ نہ تو وہ ان کو کوئی شناخت دیتی تھی اور نہ ہی ذہنی طور پر انہیں اعتماد بخشتی تھی۔ برطانوی دور ہی میں کچھ تعلیم یافتہ اچھوتوں نے اپنے حالاتِ زندگی لکھے اور جس تعصب یا نفرت سے وہ گزرے اُس کا ذکر بھی کیا۔ اب اچھوت اپنے ماضی کی تلخی کو بھول کر حال اور مستقبل میں اپنے لیے عزت و وقار کے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
یہی صورتحال امریکہ میں افریقی غلاموں کی ہے، جنہیں اُن کے قبیلے اور خاندان سے جدا کر کے غلام بنا کر امریکہ لایا گیا تھا۔ اِن کی بھی اپنی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اِن کے پاس ماضی کی جو کچھ یادیں ہیں وہ تلخ اور دَردناک ہیں۔ امریکہ میں بحیثیت غلام نا تو اِن کا کوئی مذہب رہا، نہ اپنی کوئی زبان اور نہ ہی اپنے افریقی نام باقی رکھ سکے۔
غلاموں کے لیے لِکھنا پڑھنا قانونی قدر پر جرم تھا۔ اِن کی زندگی میں اُس وقت تبدیلی آئی جب امریکہ میں خانہ جنگی کے نتیجے میں غلامی کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد کچھ غلاموں نے اپنی زندگی کے حالات یا تو خود لِکھے یا کسی اور سے لکھوائے۔ اس طرح پہلی مرتبہ سابق غلاموں نے اپنی تاریخ تشکیل کی۔ یہ بھی اپنے ماضی سے بیگانہ رہنا چاہتے تھے۔ کیونکہ وہ اِن کے لیے خوشگوار نہیں تھا۔
امریکہ میں افریقی غلام جس کرب اور عذاب سے گزرے اس کا اندازہ “بین رینز”کی کتاب
“The last slave ship”
سے ہوتا ہے۔ اس کتاب میں 1860ء میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افریقہ سے غلاموں کو امریکہ کی ریاست الاباما لانے کا ذکر ہے اور کس طرح ان کو غلاموں کی منڈی میں فروخت کیا گیا تھا۔ کیونکہ اُس وقت امریکہ میں غلاموں کے کاروبار پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس لیے انہیں خفیہ طور پر امریکہ لایا کیا گیا تھا۔ جہاز کے کپتان نے اپنا جرم چھپانے کے لیے، جہاز کو آگ لگا کر سمندر میں ڈبو دیا۔
افریقی غلاموں پر کیا بیتی۔ بین رائنز نے اِس کتاب میں آخری غلام سمجھے جانے والے” کوجو لیوس” سے اُس کے حالاتِ زندگی پر کی جانے والی بات چیت تحریر کی ہے۔ اس سے غلامی کے کاروبار کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جنوب کی ریاستوں میں کپاس کے بڑے بڑے کھیت تھے، جن میں کام کے لیے غلاموں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس لیے کھیت کے مالک غلامی کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتے تھے۔
کوجو نے اپنے اِنٹرویو میں تفصیل کے ساتھ اُس پر جو کچھ گزری تھی، اُسے بیان کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ کس طرح اسے اور اس کے ساتھ دیگر افراد کو امریکی تاجروں کے ہاتھوں فروخت کیا گیا اور کیسے کچھ دن بعد اُنہیں بحری جہاز میں سوار کرا کے اُس کے نچلے حصّے میں چھپایا گیا تھا تاکہ کوئی انہیں دیکھ نہ لے۔
جہاز کا سفر غلاموں کے لیے اذیت ناک تھا۔ کھانے اور پانی پینے کے لیے کم مقدار دی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ بحری سفر کے عادی نہ تھے۔ اس لیے اِن میں سے کئی غلام سخت بیمار ہو گئے۔ لیکن یہ بچتے بچاتے الاباما کی بندرگارہ پہنچ گئے یہاں سے غلاموں کی نئی زندگی شروع ہوئی۔ اِنہیں چھپا کر بلاآخر غلاموں کی ایک منڈی میں فروخت کیا گیا۔ اِن میں سے کچھ غلاموں کو کاشتکاری پر لگایا گیا۔ کچھ سے جنگل میں درخت کٹوائے گئے۔ اس دوران امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور جب یونین کی فوجوں کو فتح ہوئی تو غلامی کا خاتمہ بھی ہو گیا۔
اگرچہ غلام آزاد تو ہو گئے مگر اب اِنہیں ملازمت کی تلاش میں جگہ جگہ جانا پڑا اور کچھ افریقیوں نے مِل کر اپنی آبادیاں قائم کیں اور زمین حاصل کر کے اُس پر کاشتکاری بھی کی۔ کوجو اور اُس کے بہت سے ساتھی واپس افریقہ جانا چاہتے تھے۔ مگر ان کے پاس کرائے کے لیے پیسے نہ تھے اور ساتھ ہی میں یہ ڈر بھی تھا کہ اگر واپسی پر انہیں دوبارہ سے غلام بنا کر بھیج دیا گیا تو وہ اِس اذیت کو کیسے برداشت کریں گے۔ اس لیے امریکہ اُن کے لیے ایک محفوظ جگہ تھی۔
مورخوں نے غلامی کی تاریخ کو لکھتے ہوئے ابتدائی غلاموں کا ذکر کیا ہے، جن کے کوئی حقوق نہ تھے اور جو محنت و مُشقت کرتے اِس دنیا سے چلے گئے۔ اب غلاموں کی تاریخ پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مگر اچھُوت برادری کی طرح غلامی کی تاریخ بھی تلخ حادثات سے بھری ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طبقاتی تاریخ کو آپس میں ملایا جا سکتا ہے۔ یا یہ اسی طرح اشرافیہ اور عام لوگوں کے درمیان بٹی رہے گی؟۔
بشکریہ۔ ڈی ڈبلیو، اردو سروس