کشمیر مزاحتمی تحریک:حکمران طبقہ کریڈٹ لینے کی کوشش میں

بیرسٹر حمید باشانی

 حس ظرافت رکھنے والا کوئی شخص ہماری سیاست پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ عام طور پر ہماری سیاست ٹریجڈی سے بھری ہے۔ اس میں مزاح کا پہلو بہت ہی کم ہوتا ہے۔ مگر اگر آپ حس ظرافت رکھتے ہیں تو آپ اس المناک سیاست میں بھی مزاح کا پہلو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ہماری سیاست کا سٹیج بہت وسیع ہے۔ اس پر ہر وقت ہر طرح کے ڈرامے چلتے رہتے ہیں۔ ان ڈراموں سے کئی قسم کے کردار جڑے ہوتے ہیں، جو اپنی ضروریات کے مطابق کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ہمارا سیاسی ڈرامہ کبھی مزا حیہ اور کبھی المناک شکل اختیار کرتا رہتا ہے۔

اس صورت حال کی ایک جھلک ابھی حال ہی میں ہمیں آزاد کشمیر میں چلنے والی تحریک میں نظر آئی۔ یہ ایک پر امن تحریک تھی، لیکن اس میں تشدد کا تھوڑا سا عنصر شامل ہو گیا، جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اس کا سب کو افسوس ہوا۔ اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، اور یہ مطالبہ بھی جاری ہے کہ حقائق کو سامنے لایا جائے اور ذمہ دار افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ایسا ہونا لازم ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔ دوسری طرف اس تحریک کا مزا حیہ پہلو تھا کہ اس کی وجہ سے روایتی سیاست کاروں، روایتی سیاسی جماعتوں اور کچھ منتخب نمائندوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ لوگ اس تحریک کی وجہ سے سخت قسم کی افراتفری اور کنفیوژن کا شکار ہو گئے۔

تحریک کے ابتدائی مراحل میں یہ لوگ تحریک میں شامل ہوئے، انہوں نے تحریک کے مطالبات جائز قرار دیتے ہوئے ان سے اتفاق کیا، اور ان کے کارکن تحریک کا حصہ بن گئے۔ مگر سیاست میں روایتی سٹائل کے عادی ہونے کی وجہ سے وہ اس تحریک کی شدت اور رفتار کا ساتھ نہ دے سکے۔ جوں جوں تحریک آگے بڑھتی گئی ان کا کارکن پیچھے ہٹتا گیا اور بالآخر تحریک سے ہی باہر ہو گیا۔ جس قسم کی سیاست کے یہ لوگ عادی ہیں اس میں کسی بڑے مقبول رہنما کے نام پر سٹیج لگا کر عوام کو اکٹھا کیا جاتا ہے، جہاں ان لوگوں کو انجمن ستائش باہمی کی طرز پر نعروں اور تالیوں کی گونج میں سٹیج پر بولایا جاتا ہے۔ قدیم مغلیہ شہنشاہوں سے بڑھ کر ان کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ سارا سلسلہ ان لوگوں کی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا ہونا اس تحریک میں ممکن نہیں تھا۔

اس تحریک کے پیچھے اصل ڈرائیونگ فورس ایسے تربیت یافتہ سیاسی کارکن تھے، جنہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی سڑکوں اور گلیوں میں جدوجہد اور مزاحمت میں گزارا تھا۔ یہ سب لوگ بھی خود ستائشی اور خبط عظمت کے ہر جراثیم سے بھی پاک نہیں ہیں، لیکن تجربے سے وہ اتنا ضرور سیکھ چکے ہیں کہ بڑے مقصد کے لیے وقتی طور پرپچھلی صفوں میں جانے میں حرج نہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ نے دل پر بڑا بھاری پتھر رکھ کر ایسا کیا۔ اس عمل کے مثبت نتائج نکلے۔ تحریک کی اگلی صفوں میں غیر معروف اور غیر شناسا چہرے نظر آئے، مگر تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ روایتی سیاست کاروں کی اس تحریک سے باہر ہونے کی وجہ تحریک کی شدت اور رفتار تھی، جو ان کے طرز سیاست سے میل نہیں کھاتی تھی۔ یہ لوگ تحریک کا حصہ ہونے کے باوجود بھی تحریک کے اندر موجود عوام کے لیے غیر متعلقہ ہو چکے تھے، چنانچہ ان کی حیثیت ایک اجنبی یا تماش بین سے زیادہ نہیں تھی۔ ان حالات میں ان لوگوں نے پہلے تحریک سے لا تعلقی کا اعلان کیا، پھر مزید دبا و کا شکار ہو کر تحریک کی باقاعدہ مخالفت شروع کر دی۔

ستم بالائے ستم یہ کہ اس صورت حال کا نظریاتی جواز ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ یہ جواز ڈھونڈنا مشکل تھا کیوں کہ تحریک کے مطالبات، نظریات اور خیالات وہی تھے، جو پہلے دن تھے، اور جن کو تسلیم کر کہ یہ لوگ تحریک میں شامل ہو ئے تھے۔ اس طرح یہ لوگ عوام کے منتخب نمائندے، ہمدرد اور رہنما ہونے کے دعوے کے باوجود عوام کا ساتھ دینے کے بجائے ان کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ تحریک کی کامیابی کے بعد جو کردار انہوں نے ادا کرنا شروع کیا وہ ہالی وڈ کے بڑے سے بڑے کامیڈین ادا کار کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ انہوں نے مطالبات تسلیم ہونے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا، مگر تحریک کو کسی غیر ملکی سازش کا نتیجہ قرار دیا۔

دوسری طرف بلاواسطہ مطالبات کی منظوری کا کریڈٹ بھی لینے کی کوشش کی اور کہا کہ مطالبات کی منظوری میں تحریک کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اصل کردار صدر مملکت کا ہے، جنہوں نے بر وقت تمام سٹیک ہولڈرز کو ایوان صدر میں بلایا اور مطالبات پر دو ٹوک بحث کی۔ اور دوسرا بڑا کردار وزیر اعظم کا ہے، جنہوں نے بغیر چوں چرا کے 27 ارب روپے کا فنڈ جاری کر دیا۔ تیسرا بڑا کردار حکومت آزاد کشمیر کا ہے، جس نے راتوں رات مطالبات کی منظوری کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا۔ اس طرح ایک سال تک چلنے والی تحریک کو نظر انداز کرتے ہوئے سارا کریڈٹ حکمران اشرافیہ کو دے دیا۔ اس بات کو عوام تک لے جانے کے لیے آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں ریلیوں کا اہتمام کیا گیا، مگر عوام نے ان ریلیوں کو نظر انداز بلکہ مسترد کر دیا، جس کی عکاس وہ تصاویر اور و ڈیوز ہیں، جو منتظمین نے خود جاری کیں۔

یہ روایتی سیاست کاروں اور منتخب نمائندوں کے لیے بہت ہی ڈیپرسنگ بات ہے۔ انہوں اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے روایتی ہتھکنڈے آزمانے شروع کر دیے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں قبیلے اور برادری کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے، تحریک کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے اور اس سارے عمل کے پیچھے کوئی غیر ملکی خفیہ ہاتھ ثابت کرنا شامل ہے۔ نظریاتی محاذ پر یہ طے کیا گیا ہے کہ کانفرنسوں اور ریلیوں کا ایک طوفان برپا کیا جائے اور اس میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین جیسے ایشوز کو اجاگر کیا جائے جن کے ساتھ سخت قسم کی جذباتی وابستگی رکھنے کی وجہ سے لوگ روز مرہ کے فوری ایشوز کو نظر انداز کر یں، اور حکمران اشرافیہ کو چین کی سانس لینے دیں۔ لوگوں کی توجہ فوری مسائل سے ہٹانے کی یہ حکمران اشرافیہ کی بہت پرانی اور کامیاب پالیسی رہی ہے، مگر گزشتہ چند سالوں کے دوران یہ پالیسی کچھ کمزور پڑہ گئی تھی۔

ظاہر ہے جواباً عوام کو ایک پالیسی کی ضرورت ہے۔ روایتی سیاست کی دیوار میں ایک بہت بڑی دراڑ پڑہ چکی ہے، لیکن ظاہر ہے یہ دیوار خود نہیں گرے گی ۔ اس کو عوامی دھکے کی ضرورت ہو گی۔ لیکن آزاد کشمیر ایک جما جمایا جمہوری معاشرہ ہے۔ اس معاشرے میں ہر کام احتجاج اور ریلیوں کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے جمہوری عمل کا حصہ بننے کی ضرورت ہے، اور عوام کا واضح مینڈیت درکار ہے۔ عوام یہ مینڈیٹ ریفرینڈم یا کسی اور جمہوری طریقے سے بھی دے سکتے ہیں، لیکن اس نظام میں تبدیلی کے لیے جمہوری عمل اور جمہوری نظام کا حصہ بننا ضروری ہے، جس کے لیے کسی بڑے پلیٹ فارم، سیاسی پارٹی یا اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کی اس وقت پالیسی یہی بنتی ہے کہ وہ مزید اتحاد و اتفاق کی طرف بڑھتے ہونے اپنی صفیں مضبوط کریں اور آنے والے سخت چیلنج کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں۔ وہ چیلنج ہو گا روایتی رجعتی قوتوں کو اقتدار کے ایوان سے باہر نکال کر تازہ دم، نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں کو وہاں پہچانا ۔ اس کے بغیر نہ دیوار گر سکتی ہے، اور نہ ہی نظام میں کوئی قابل ذکر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.