بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ ۔ ساتواں حصہ


مہرجان

قومی اہداف کے تعین کے بغیر اجتماعات کو وقت کا زیاں کہنا انہیں عام سیاستدانوں سے امتیاز بخشتا ہے ، وہ قومی اہداف کے تعینکے ساتھ سیاسی پارٹی کے ہرگز مخالف نہیں تھے باقاعدہ اس بابت نشستیں بھی ہوئیں منشور تک بات  چل نکلی۔ مگر وہ ایک اصولی و قومی اہداف کے تعین کے ساتھ سرفیس کی سیاست کے قائل نہیں ہوئے  اور نہ ہی اپنے واضح موقف بہ حیثیت قوم پرست میرا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو آزاد کیا جائےسے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہوئے کیونکہ نوآبادیاتی ریاست میں آزادی کی کوئی بھی شکل کہیں بھی موجود نہیں جہاں واضح اور اصولی موقف کے ساتھ سیاست کی ”سہولت“  میسر ہو۔

وہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ سرفیس کی سیاست میں نیشنل ازم کی حقیقی روح اور قومی اہداف کے تعین سے ہٹ کر بات کرنا وقت کا زیاں، مفاہمتی سیاست تو ہوسکتا ہے لیکن  وسیع المدتی قومی نقصانات کا باعث بنتا ہے ،جس کا ازالہ قومی حوالے سے ممکن نہیں، تاریخ گواہ ہے ان کے یہ سارے خدشات ایک ایک کرکے درست ثابت ہوتے گئے ، بڑے بڑے جلسے و اجتماعات سے قومی شعور کی بڑھوتری کی بجائے کاروبار سیاست ، سیاسی دکانداری کو فروغ ملا، مزاحمت کی بجائے مذاکرات کی فضاء  پیدا ہوئی ، باقاعدہ مزاحمتی کیمپ کے مقابل مذاکراتی کیمپ کی تشکیل ہوئی ، جہاں پاکستان کے نام سے نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ، ،قابض کے آئین و جمہوریت کے اساطین اسی کیمپ سے بھی ابھر کر سامنے آئیں اور بلآخر یہاں سیاست  تجارت کی شکل بنتی گئی۔ دراصل وہ ایک سیاسی فلاسفر کی طرح طاقت کی مداخلت کے تمام راستوں سے آشنا تھے اور ان تمام غیر مرئی اور غیر واضح طاقتوں کی دخل انداز صورتوں کی نشاندہی کرتے رہے  جو حقیقی قومی اہداف کی راہ میں رکاٹ بنیں۔

بابا مری  کی  سیاست عام سیاستدانوں  کی طرح نہیں تھی کہ اجتماعات سے سیاسی  قیادت کا شوق پورا کرتے پھریں اور اسی آڑ میں  قلمکارشوق دانشوری کا دم بھرتے رہے،وہ ان سیاستدانوں کے برعکس ایک سخت گیر اصولی موقف کے ساتھ دانائےراز کے مانند سامنے آتے ہیں اور سوالات رکھتے ہیں کہ بلوچ تو ہمیں کہا جا سکتا ہے ، کیا ہم اپنے آپ کو بلوچ نیشنلسٹ کہہ سکتے ہیں؟ کیا  ہم سطحی انداز سیاست یا ایشو پالیٹیکس کی بجائے ایک نظریہ و نصب العین ، قومی یکجہتی و قومی شعور ،مستقل کمٹمنٹ کے ساتھ میدان سیاست میں اتر سکتے ہیں ؟ یا فقط بلند و بانگ دعوے ، ہزراوں کے اجتماع  سے تقریریں یا  پھر ہمارا اسٹیج  پہ گرجنے برسنے کے بعد بغیر کسی سیاسی پروگرام بستر و بوریا باندھ کر واپس آنا ازل سے  مقدر ہے ؟

یہ وہ سوالات تھے جو بابا مری بار بار خالی الذہن سیاسی قیادت کے سامنے بغیر کسی گرج برس کے دھیمے انداز سے رکھتے رہے کیونکہ ان کے ہاں  نیشنل ازم فقط ایک سیاسی پروگرام نہیں بلکہ ایک نصب العین بھی  ہے  لیکن جواباً وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے، دراصل بابا مری نے اپنے فکروعمل کی بدولت  بلوچ نیشنل ازم کا ایک ایسا معیار بنایا کہ کوئی شخص بلوچ تو ہوسکتا ہے لیکن ہر بلوچ نیشنلسٹ نہیں ہوسکتا، اسی لیے  نیشنل ازم پہ لکھنا ، نیشنل ازم پہ بولنا ، نیشنل ازم کے نام اجتماعات کرنا بہت ہی آساں و دلفریب ہے لیکن اپنی ذات میں، میدان عمل  میں خاص طور پر کسی نوآبادیاتی ریاست میں حقیقی طور پہ نیشنلسٹ ہونا آساں کام نہیں ہے ،اس کے لیے ریڈیکل ہونا لازم آتا ہےاوراپنی زندگی وقف کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر سرزمین کادفاع ممکن ہوتا ہے ”  ،بقول بابا مری اس کے لیے چلہ کاٹنا پڑتا ہے”  وگرنہ وقت گذاری، انفرادی مفادات کے حصول  کے لیے نیشنل ازم کا پرچار کرنا  نیشنل ازم کی بجائے پروفیشنل ازم ہے بقول بابا مری نیشنل ازم کی سیاست میں جس قوم کا کوئی انقلابی پروگرام ہو یا طویل المدت پروگرام  ہو ،اس کی سیاسی قائدین و کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پختہ فکر ہوں ، باکردار ہوں سرسری اور سطحی انداز سیاست و ایشو پالیٹیکس کو صرف سیاست کا نام تو دیا جاسکتا ہے قوم پرستی نہیں کہا جاسکتا۔

آج ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس بات کی چھان بین کی ہے کہ ہم خود کس قدر نیشنلسٹ ہیں؟  اور کتنے لوگوں کو  نیشنل ازم کی راہ کے لیے فکری و عملی طور پہ تیار کیا ہے ؟کہ وہ طاقت کے سامنے تسلسل کے ساتھ کھڑے رہیں بابا مری کے الفاظ میں  ہزاروں کا اجتماع موجودہ ہارٹی قیادت کی عزت میں اضافے کا سبب تو بن سکتا ہے، لیکن ان ہزاروں افراد کے مجمع میں اور اسٹیج پر براجمان حضرات میں سے کتنے ریڈیکل اور مخلص ہیں اور کتنے کردار اور عمل میں مفلس ہیں ؟ 

سیاسی بالشتیے بجائے ان سوالات پہ غور فکر کرتے ، بحث مباحثہ کرتے،عوامی لہر سے ہٹ کر سیاسی پروگرام کی وضاحت کرتے، قابض کے آئین و پارلیمنٹ و قوانین کا قومی تناظر میں جائزہ لیتے ،سانچے بنا بنا کر مخالفین کو سانچوں میں  ڈالنے کی بجائے بقول بابا مری  اپنا مطالعہ وسیع کرتے ، اپنی پالیسیز کا از سر نو جاہزہ نو آبادیاتی تناظر میں لیتے ,نظریات کو اپنی زمینی حقائق پر جانچتے پرکھتے ،ایک ایک لفظ پہ غور و خوض کرتے ، مسابقتی دوڑ میں بے سدھ دوڑنے کی بجائے چند لمحے ٹہر کر خود احتسابی کے عمل سے گذرتے،  ضد و انا کی آگ میں جلنے کی بجائے کچھ دیر صبر کی باد نسیم حیات پرور فضاء میں سانس لیتے، سیاسی میدان میں ریاضت کرتے پھر سیاست کرتے ، لیکن  الٹا چور کوتوال کو  ڈانٹنے کے مترادف وہ بابا مری کو سیاسی میدان سے فارغ الحال سمجھتے تھے بلکہ برملا کہتے تھے  کہ انہیں سیاسی سمجھ بوجھ نہیں ہے،وہ سیاسی حالات کو قبائلی طور پہ دیلھ رہے ہیں وہ سادہ  بندے ہیں مزاج وقت کو سمجھ نہیں پارہے، وہ اپنے آپ کو سیاسی طور پہ محدود کرچکے ہیں، ،وہ سیاسی عمل سے دور جاچکے ہیں، اس طرح کی باتیں زبان پہ زد عام تھیں۔

دراصل وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ سیاست و سیاسی عمل کا بقول بابا مری صرف ایک میدان نہیں ہوتا ، جہاں صرف جلسے و جلوس ریلیاں ،قراردیں پیش کی جائیں بلکہ سیاست و سیاسی عمل کے اور بھی کئی ایک میدان موجود ہیں ، جہاں قومی شعور پروان چڑھتا ہے، قوم کوعملی میدان کے لیے ذہنی طور پہ تیار کیا جاتا ہے ، جہاں علمی مباحثے کے ساتھ ساتھ سیاست کو زیر بحث لایاجاتا ہے ، معروضی حالات کے پیش نظر سیاسی عمل کا تعین کیا جاتا ہے، مزاحمت کی راہیں ہموار کی جاتی ہیں ،صرف جلسے جلوس کو سیاسی عمل قرار دینا سیاسی ناپختگی ہے جس کا اظہار اباہچ ذہن کے حامل لوگ جو خود سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں بار بار بابا مری کے بارے میں کہتےرہے کہ وہ سیاسی میدان سے کب کا ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔لیکن آج اگر دیکھا جائے کہ  قومی تحریک کی جو تھوڑی بہت رمق دکھائی دیتی ہے ، اس کے پیچھے کونسا سیاسی دماغ  یا سیاسی کیڈر کارگر تھا تو سب کچھ واضح ہوجاتا ہے کہ سیاسی سمجھ بوچھ سے مراد ذاتی مفادات کا حصول ، شوق لیڈری ، اسٹیج پہ براجمان  ہونا تھا یا قومی نصب العین کی ترویج  ہے؟ 

بابا مری  نے نیشنل ازم کا جو معیار رکھا اسے کالونیل مائنڈ سیٹ نے ہمیشہ ریڈیکل اپروچ کہا ہے، وہ یہ بھول گئے کہ ریڈیکل ازم فلسفے و تحقیق  کی دنیا سے ذرا ہٹ کے کسی بھی سیاسی تحریک کی اٹھان کی پہلی شرط ہوتی ہے ، دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے ہیں یا انقلابی سیاسی مفکر گذرے ہیں وہ ریڈیکل سینسیرریٹی کے ساتھ باوقار انداز سے باقاعدہ سیاسی میدان عمل میں اترے ہیں ، بنیادی تضاد سے ہٹ کر عام تضادات کو مرکز و محور بنانا خودفریبی و خودشگستگی  کے سوا کچھ نہیں، کھوکھلے پن کے ساتھ سیاسی میدان عمل میں اترنا سیاسی تحریک بالخصوص قومی تحریک کے ساتھ زیادتی کی مترداف ہے۔ آج ریڈیکل لفظ کی جتنی بے حرمتی اکیڈ یمیاء و  پوسٹ ماڈرننسٹ طوطوں نے لفظی جگالی کے ذریعے کی ہے ،اس کی واحد وجہ نظریہ، مزاحمت ، انقلاب ، آزادی کے تصورات کو مسخ کرنا مقصود ہے، کہ فقط جذبات کے حامل لوگ ریڈیکل ، مزاحمت ،انقلاب ، نظریہ و  آزادی کی پرچار کرتے ہیں۔

جبکہ اس کے مقابل سامراج نے غلامی کے کسی بھی رنگ کو سافٹ امیج کے بل بوتے پر بغیر کسی نظریہ ، مزاحمت و انقلاب کے عقلیت سے جوڑا ہے ، یعنی غلامی کے ہر رنگ کو ریشنلائز ڈ کرنے کی تگ و دو میڈیا سے لے کر  اکیڈیمیاء تک جاری ہے ،تاکہ مزاحمت کی بجائے مفاہمت کی فضاء بحال ہو، اس لیے آج  تک بقول بابا مری ہم قابض کو کھل کر قابض  نہ کہہ سکے، کیونکہ یہاں قابض کو قابض کہنا ریڈکل ازم کہلاتا ہے یہ اسی طرح کا ریڈیکل ازم یا رجعت پسندی کہلاتا ہے جس طرح سامراج کی منہ پہ تھوکنا دہشت گردی کہلاتا ہے۔ اب سامراج کی درسگاہوں میں غلامی کی تدبیریں سکھائی جاتی ہیں جس سامراج کی خلاف مزاحمت کرنا مقصود ہے ، ہم ان سے غلامی کا سبق  سیکھنے پہ اکتفا کرچکے ہیں  یعنی اب ہمیں سامراج و سامراجی ادارے مزاحمت کا درس دینے لگے ہیں  کہ مزاحمت کیسے کی جاتی ہیں؟ وہ ہمارے ذہنوں اور زبانوں میں امن، پارلیمنٹ ،آئین و قانون ، عدلیہ جیسے خوش کن  نعرے ٹھونس کر مزاحمت کی سافٹ امیج کی تبلیغ اور اسکی فروغ کے لیے دن رات لگے ہوئےہیں . جہاں جذبات ٹھنڈے ہوکر مزاحمت اپنی خام شکل میں اپنا رنگ و اسلوب بدل کر اپنی مادی طاقت و وسعت کھو بیٹھتی ہے۔اس لیے بابا مری ان جیسی باتوں  کو تابعدارانہ  مطالبےکہتے تھے۔

جاری ہے

پہلا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

دوسرا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ۔حصہ دوم

تیسرا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

چوتھا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ۔چوتھا حصہ

پانچواں حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ ۔ پانچواں حصہ

چھٹا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ ۔ چھٹا حصہ

Comments are closed.