پانچ نومبر کو امریکہ میں صدارتی الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں امریکہ میں الیکشن سرگرمیوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔امریکی ریاست وسکانسن کے درالحکومت ، ملواکی میں ریپبلکن پارٹی کا کنونشن ہو رہا ہے جس میں پارٹی نے سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے۔
ڈانلڈ ٹرمپ اپنے حامیوں کے لیے ایک کلٹ ہیں۔ ان کے منہ سے نکلا ہر فقرہ چاہے وہ کتنا ہی جھوٹ پر مبنی ہو، ان کے چاہنے والے اس پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کے کنونشن میں ہونے والی تقریروں میں ان کے حامی سینٹرز اور کانگریس ارکان نے ان کو خدا کی طرف سے مقرر کردہ نمائندہ قرار دیا ہے جو امریکی عوام کے لیے نجات دہندہ بن کر آیا ہے۔
ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے مقرر کردہ نمائندہ جمہوری نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے 2020 میں، الیکشن کے نتائج اس لیے ماننے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ ہار گئے تھے ۔انھوں نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام لگایا تھا لیکن عدالتوں میں دھاندلی کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے تھے۔حتی کہ سپریم کورٹ میں ان کے مقرر کردہ ججوں نےبھی دھاندلی کے ثبوت کے بغیر ان کے الزامات ماننے سے انکار کردیا تھا۔
انھوں نے اپنے صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان الیکشن نتائج کو تبدیل کرنے کی حتی المقدور کوشش کی۔ اپنے نائب صدر مائیک پنس کو ہدایت کی کہ وہ کانگریس میں جب ڈیلی گیٹس صدر بائیڈن کی توثیق کریں تو وہ اس کو رد کردیں جس پر مائک پنس نے کہا تھا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے جس کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے کیپٹل ہل ( پارلیمنٹ) پر حملہ کیا توڑ پھوڑ کی تھی۔
حال ہی میں ہوئے مباحثے میں جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کریں گے تو ان کا جواب تھا کہ اگر الیکشن فری اینڈ فئیر ہوئے تو۔۔۔! ٹرمپ کے نزدیک فری اینڈ فیئر الیکشنز وہی ہیں جس میں وہ کامیاب ہوں۔ اسی لیے ڈیمو کریٹس انھیں جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔امریکہ کی ڈھائی سو سالہ جمہوری تاریخ میں ٹرمپ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے جمہوریت کو سبوتارژ کرنے کی کوشش کی تھی مگر جمہوری ادارے اتنے مضبوط تھے کہ انہیں ہر فورم میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
سابقہ امریکی صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے طرز سیاست میں کوئی فرق نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی عمران خان سے تو نفرت کرتے ہیں لیکن ٹرمپ کو آئندہ امریکی صدر دیکھنا چاہتے ہیں
دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن اگست میں ہونے جارہا ہے جس میں پارٹی آئندہ صدر کے لیے اپنا امیدوار نامزد کرے گی ۔ ابھی تک 81 سالہ صدر بائیڈن ہی پارٹی کے واحد امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔لیکن پہلے مباحثے میں ان کی خراب کارگردگی کے بعد پارٹی کے اندر ان کی مخالفت بڑھ گئی ہیں اور ایک گروپ مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ صدر بائیڈن کی بڑھتی ہوئی عمر اس با ت کی اجاز ت نہیں دیتی کہ وہ آئندہ الیکشن لڑیں اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ الیکشن سے دستبرار ہوں اور کسی نوجوان کو موقع دیا جائے۔
شعیب عادل، واشنگٹن ڈی سی