بائیس 22خاندان اور ٹاٹ والے سکول

بیرسٹر حمید باشانی

یہ ایک ہائی سکول کی تصویر ہے۔ تصویر میں ایک عالی شان عمارت ہے۔ یہ عمارت جدید دور کے طرز تعمیر کے مطابق تعمیر کی گئی ہےجو عموماً آزاد کشمیر میں غریب اور پسماندہ علاقوں میں سرکاری سکولوں کی تعمیر کے لیے مروج ہے۔تصویر کے پس منظر میں دکھائی دینے والے سحر انگیز مناظر اس تصویر کی خوبصورتی کو دو بالا کر دیتے ہیں۔ حد نگاہ تک سر سبز درختوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑ ایک طلسماتی منظر پیش کرتے ہیں، جو کشمیر میں عام ہیں، اور اس خطے کی خوبصورتی کی شہرت کا باعث ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ  سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس خوبصورت عمارت کی اٹھان ایک کھنڈر نما عمارت پر ہوئی ہے۔ یہ کھنڈر نما عمارت ہمارا پہلا با قاعدہ پرائمری اور پھر مڈل سکول تھا۔

یہ تصویر کسی نے سوشل میڈیا پر شئیر کی ہے۔ شئیر کرنے والے نے بڑے دکھ اور افسوس سے لکھا ہے کہ اسے اس طرح کی کسی عالیشان عمارت میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اس کے بجائے اس نے دو کمروں پر مشتمل ایک سکول میں تعلیم پائی تھی، جو مٹی اور گارے سے تعمیر کیا گیا تھا۔ بچے ٹاٹ پر بیٹھتے تھے۔ فرنیچر کے نام پر دو کرسیاں تھیں، جو اساتذہ کے لیے مختص تھیں، اور کسی طالبعلم کے لیے کرسی پر بیٹھنا کسی سنگین ترین جرم سے کم نہیں تھا۔ مجھے اس شخص کے دکھ پر افسوس ہوا۔ لیکن شاید یہ شخص نہیں جانتا کہ یہ عالیشان عمارت والا سکول جس کھنڈر نما عمارت پر تعمیر ہوا تھا، اس میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں تھی جو اس بد نصیب سابق طالب علم نے بیان کی ہے۔ یہ سکول بھی مٹی اور گارے سے بنا تھا، اس میں طلبا کے لیے دریاں اور ٹاٹ بھی نہیں تھے، لیکن ہم اس سکول کو  کسی طرح بھی تاج محل سے کم نہیں سمجھتے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم اس سکول میں دوسری جماعت میں پہنچے تھے۔ پہلی جماعت میں ہم نے جس سکول سے اپنی تعلیم کی شروعات کی تھی وہ ایک مسجد کے صحن میں قائم تھا۔ سکول کی ساری کاروائی مسجد کے برآمدے سے باہر ایک چھوٹے سے ناہموار میدان میں ہوتی تھی، جسے ہم مقامی پہاڑی زبان میں بیڑا کہتے ہیں۔ یہاں ہم بڑے آرام سے کچی مٹی پر چوکی مار کر بیٹھتے تھے اور پرویز کی گانے والا سبق با آواز بلند پڑھتے تھے، اور خدا کا شکر ادا کرتے تھے، جس نے پرویز کی گائے بنائی۔ فرنیچر کے نام پر یہاں بھی صرف ایک کرسی تھی، جو سکول کے اکلوتے استاد کی آمد پر باہر لائی جاتی تھی، اور ان کے جانے کے بعد کسی متبرک چیز کی طرح واپس رکھ دی جاتی تھی۔ یہاں کسی ٹاٹ ، دری یا سر پر چھت کا کو کوئی تصور نہیں تھا،البتہ یہ عام خیال تھا کہ شدید بارش کی صورت میں ہم لوگ جوتے اتار کر مسجد کے برآمدے میں پناہ لے سکتے ہیں۔ ان حالات میں جب ہم اس اوپن ائیرسکول سے نکل کر باقاعدہ سکول میں پہنچے جو اگر چہ مٹی اور گارے سے بنا تھا، مگر اس کے اپنے درو دیوار تھے تو ہم نے اسے اپنے لیے ایک اثاثہ سمجھا اور ٹاٹ کو  نظر انداز کر دیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے ہوتے ہوئے اس سکول میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ ٹاٹ اور دری کی جگہ لکڑی کے لمبے لمبے بنچ آگئے۔ اور جب تک ہم لوگ مڈل سکول پاس کر کہ آگے جاتے، اس وقت تک مٹی اور گارے کی کچھ دیواروں کی جگہ پتھر اور سیمنٹ کی دیواریں بن گئیں، اور چھت پر ٹن کی چادریں لگ گئیں، جس سے سکول کی چھت ٹپکنا بند ہو گئی۔

 مزید آگے چل کر اس جگہ وہ عالیشان عمارتیں تعمیر ہو گئیں، جن کی تصاویر ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے طالبعلم نے شئیر کی ہیں۔ یہ بات جو ہم کر رہے ہیں، یہ کوئی زمانہ قدیم کی بات نہیں ہے۔ لیکن اس بات کو نصف صدی ہو چکی ہے۔ مگر حالات میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ جہاں ترقی کرتے کرتے ہمارا سکول ایک عالیشان عمارت میں ڈھل چکا ہے، وہاں آج بھی کئی ایسے سکول ہیں، جو نصف صدی پہلے کی غربت اور تنگ دستی کی یاد دلاتے ہیں۔ ہم آئے دن سوشل میڈیا پر ہی شئیر ہونے والی تصاویر میں ایسے کئی  سکول دیکھتے ہیں، جہاں بچے بچیاں ایک کمرے کے بے در و دیوار سکولوں کے اندر اور ان کے باہر کچی مٹی پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور لاکھوں بچوں کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ ان کے یہ مٹی اور گارے کے سکولوں میں بھی جانے کی سہولت میسر نہیں، اور ان کا بچپن بغیر کسی سکول کے آوارہ گردی یا محنت مزدوری میں گزر جاتا ہے۔

ابھی حال ہی میں اہل حکم نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے ہاں لاکھوں کروڑوں بچے سرے سے کسی قسم کے سکول میں جاتے ہی نہیں۔ اس کے لیے انہوں نے تعلیمی ایمرجنسی کی بات بھی کی ہے۔ عالمی اداروں سے گفت و شنید بھی کی ہے، جو اس باب میں ہم سے زیادہ فکر مند ہیں۔ بلکہ یہ ان کی فکر مندی کا اعجاز ہے کہ حکمران اشرافیہ اس موضوع پر لب کشائی کی زحمت گوارا کر رہی ہے، ورنہ یہ چیزیں تو ان کے ریڈار پر ہی نہیں ہو تی۔ یہاں سکولوں کے درو دیوار یا ٹاٹ دری کے بارے میں کوئی پریشان نہیں ہوتا نہ ان لاکھوں بچوں کا کسی کو غم ہے جن کو کسی سکول جانا ہی میسر نہیں۔ دوسری طرف حکمران اشرافیہ ہمہ وقت اپنی مراعات اور اپنے معیار زندگی کے بارے میں فکر مند رہتی ہے۔ حال ہی میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں اربوں روپے کے اضافے کے اعلانات اسی فکر مندی کا شاخسانہ ہیں۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ پچاس سال پہلے بھی حکمران طبقات کی ترجیحات میں تعلیم نہیں بلکہ اپنی مراعات میں اضافہ تھا۔اس وقت کی حکمران اشرافیہ کا دعوی تھا کہ انہوں نے ملک کو اسپین اور پرتگال کے برابر کھڑا کر دیا ہے۔ ملک میں معاشی انقلاب آ چکا ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ مگر حقیقت میں یہ ریل پیل چند خاندانوں اور ایک محدود طبقے کے لیے تھی، جس کے خلاف عوام نے علم بغاوت بلند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ جن سالوں میں میں نے کچی مٹی پر چوکڑی مار کر پرویز کی گاہے والا سبق پڑھتا شروع کیا وہ بغاوت اور انقلاب کے سال تھے۔ 1968 اور69کے سال ایوب آمریت کے خلاف غم و غصے کے اظہار کے سال تھے۔ تقریباً پندرہ ملین سے زائد لوگوں نے اعلان بغاوت کر دیا تھا، جن میں مزدور، کسان اور ٹریڈ یونین والے شامل تھے، اور اس تحریک میں طلبا نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔

ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق اس وقت پلاننگ کمیشن کے چیف اکانومسٹ تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اس وقت ملک میں بائیس امیر ترین خاندانوں کا راج ہے۔ یہ لوگ ملک کی چھیاسٹھ فیصد صنعتوں کے مالک ہیں ۔ ملک کی بینکنگ اور انشورنس انڈسٹری میں ان کا شیئر ستاسی فیصد ہے۔ یہ لوگ ملک کا سارا بجٹ اور پالیسیاں کنٹرول کرتے تھے۔ یہ اس بات کا تعین کرتے تھے کہ ملک کی معاشی پالیسی کیا ہو گی، اور تعلیم پر کتنے پیسے خرچ ہوں گے۔ محبوب الحق نے حکمران اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی صنعتی ترقی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ملک میں اگر کوئی ترقی ہوئی بھی تھی، تو اس کا فائدہ ایک چھوٹے سے طبقے اور ان سے وابستہ لوگوں نے ہی اٹھایا تھا۔ عام آدمی پہلے کی طرح غربت اور پسماندگی کا شکار تھا۔ حکمران اشرافیہ اپنی خوشحالی کو ملکی ترقی کہتی تھی۔ آج بھی صورت حال زیادہ مختلف نہیں، جس کا احوال پھر کبھی۔

♣  

Comments are closed.