بیرسٹر حمید باشانی
آج کل حکمران اشرافیہ کے بیانات دیکھ کر یہ یقین سا ہونے لگتا ہے کہ آج کے حکمرانوں کو بنیادی طور پر ان ہی مسائل کا سامنا ہے، جن کا نصف صدی پہلے کے حکمرانوں کو تھا۔ ان کے دعوے اور وعدے وہی ہیں ۔ مسائل کے حل کے لیے کیے جانے والے اعلانات بھی وہی ہیں۔ محل وقوع ، الفاظ اور لب و لہجہ وہی ہے۔ بس وقت ، تاریخ اور نام بدلتے رہتے ہیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ جس زمانے میں ہم بغیر فرنیچر کے سکولوں میں مٹی اور دھول میں بیٹھ کر پڑھتے تھے اس زمانے میں پاکستان میں حیرت انگیز اور تیز رفتار ترقی کا چرچا تھا۔ ترقی کا شور اتنا تھا کہ یہ بلند و بالا پہاڑوں کا سینہ چیر کر آزاد کشمیر میں ہم جیسے پرائمری سکول کے طلبہ تک بھی پہنچ رہا تھا۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر قرار دیا جا رہا تھا اور یہ باور کرایا جاتا تھا کہ پاکستان دنیا میں تیز رفتار ترین ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہو چکا ہے۔ دعوی ٰکیا جاتا تھا کہ ملک میں سبز انقلاب آ گیا ہے۔ زراعت میں جدید اوزار متعارف کروا د یے گئے ہیں۔ زرعی پیداوار میں ملک خود کفیل ہو چکا ہے، اور یہ دور پاکستان میں معاشی ترقی کی تاریخ کا سنہری دور ہے۔ لیکن حقیقت میں ایوب خان کے طویل اقتدار کا یہ “سنہری ” دور خاتمے کے قریب تھا۔ اس اقتدار کو مزید طوالت بخشنے کے لیے حکومت کے ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا۔
ترقی اور خوشحالی کی کہانیاں عوام میں مقبول ضرور تھیں، مگر ان کہانیوں کی کوئی جھلک زمین پر دکھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ درست ہے کہ کچھ انڈیکیٹرز کسی حد تک معاشی ترقی کی تصدیق کرتے تھے، لیکن دوسری طرف یہ ملک میں تشویشناک حد تک بڑھتی ہوئی معاشی نا ہمواری اور عدم مساوات کو بھی ظاہر کرتے تھے۔ معاشی خوشحالی کا فائدہ ایک محدود طبقہ اٹھا رہا تھا، اور لاکھوں کروڑوں لوگ غربت ، بے روز گاری اور بھوک و ننگ کا شکار تھے۔ اس صورت حال پر خود سرکار کے ساتھ کام کرنے والے دانش ور اور ماہرین بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کر چکے تھے۔
ڈاکٹر محبوب الحق کی رپورٹ اور بائیس خاندانوں کا قصہ اس کی ایک کلاسیکل مثال تھی۔ اسی طرح دوسرے کئی ماہرین کے علاوہ عالمی بینک کے ماہر معاشیات جاوید برکی نے ایوب خان کی ترقی اور جی ڈی پی انڈیکیٹرز پر بڑی جامع رپورٹ پیش کی۔ تھی انہوں نے بتایا کہ معاشی ترقی کی جڑیں عدم مساوات میں بڑی گہرائی سے پیوست ہیں۔ یہ عدم مساوات مختلف علاقوں اور عوام کے مختلف طبقات کے درمیان مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے ان علاقوں اور لوگوں کا تفصیلی ذکر کیا جو اس ترقی سے مستفید ہو رہے تھے۔ ایوب خان نے جس چمک دمک کو ترقی قرار دے کر اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کی کوشش کی تھی وہ دراصل غیر ملکی امداد کی مرہون منت تھی۔ ان کے دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں غیر ملکی امداد کل سرمایہ کاری کا چالیس فیصد تھی۔ ترقی اور روز گار کے بڑے دعووں کے باوجود دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے دوران بے روز لوگوں کی تعداد پانچ اعشاریہ آٹھ ملین تک پہنچ چکی تھی۔
اسی غربت و افلاس اور طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں اگے چل کر روٹی کپڑے اور مکان کا مقبول نعرہ سامنے آیا، جس نے سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ لیکن حکمران اشرافیہ رائے عامہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ ملک انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔اور ملک میں صنعتی انقلاب رونما ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار بھی یہ بتا رہے تھے کہ ملک میں صنعت انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے۔لیکن عملاً ہو یہ رہا تھا کہ حکومت جو بھاری غیر ملکی امداد وصول کرتی تھی اس سے کچھ رقم خرچ کر کے فیکٹریاں لگاتی تھی۔ کچھ عرصہ تک ان فیکٹریوں کو سرکاری کنٹرول میں چلانے کے بعد نجی شعبے میں اپنے پسندیدہ اور مراعات یافتہ لوگوں کو فروخت کیا جاتا تھا۔ اس سرگرمی سے اعداد و شمار میں بڑے پیمانے پر صنعتوں کا قیام ظاہر ہوتا تھا۔
یہ ایک بڑی معاشی سرگرمی تھی جس کو تمام انڈی کیٹرز معاشی ترقی دکھاتے تھے۔ لیکن اس عمل میں جو معاشی عدم مساوات پیدا ہو تی ہے اس کئی نہیں دکھایا جا تا تھا۔ عالی معاشی ادارے اور تجزیہ کار بھی اس کو تیز رفتار صنعتی ترقی قرار دیتے تھے۔ اس ترقی کے ثبوت کے طور پر گاہے بڑی بڑی عالمی شخصیات کی گواہی بھی پیش کی جاتی تھی۔ کبھی صدر جانسن کا بیان کا حوالہ دیا جاتا، اور کبھی چارلس ڈیگال کے تعریفی کلمات پیش کیے جاتےتھے کہ عالمی برادری پاکستان کی صنعتی ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بیانات سرد جنگ کے تناظر میں ایک خاص معاشی ماڈل کی مصنوعی کامیابی کے لیے چلائی جانے والی عالمی مہم کا حصہ تھے۔
اس وقت کی اشرافیہ کا پسندیدہ بیانیہ یہ بھی تھا کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام لائے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں ترقی اور سرمایہ کاری کے دروازے کھلے ہیں۔ اس دعوے کے پس منظر میں وہ سیاسی عدم استحکام تھا، جس کا ملک طویل عرصے سے شکار تھا۔ گیارہ سالوں سے حکومتیں بدلنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہو چکا تھا۔ اس عرصے میں چار سربراہان ریاست اور سات وزیر اعظم بدل چکے تھے۔ اس پس منظر میں ایوب خان یہ نتیجہ اخذ کر چکا تھا کہ سیاست دان نااہل ہیں۔ وہ حکومت کرنے اور ملک کا انتظام و انصرام چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ اسی سوچ کے پیش نظر آگے چل کر سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر سیاست سے باہر نکالنے کے لیے قوانین بنائے گے۔ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عوام کے بارے میں بھی ایوب خان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ عوام جاہل اور بے شعور ہیں، اور وہ قومی مسائل و معاملات کے بارے میں رائے دینے اور فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
عوام کو سیاسی معاملات میں براہ راست شرکت سے روکنے کے لیے بنیادی جمہو ریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اس نظام کے تحت معدودے چند لوگوں کو صدر کے انتخاب کا حق دیا گیا۔ پھر ان گنے چنے معدودے چند نمائندوں کو نوکر شاہی کے ذریعے ایوب خان کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا گیا۔ صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کو شکست دینے کے لیے نہ صرف بنیادی جمہو ریتوں کا نظام استعمال کیا گیا بلکہ اس مقصد کے لیے وسیع پیمانے پر بنیاد پرست قوتوں کو بھی استعمال کیا گیا۔ حکمران اشرافیہ نے انتہائی فخر سے جو جو کارنامے نمایاں انداز میں پیش کیے ان میں سبز انقلاب سر فہرست تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ٹریکٹر، مشین اور زرعی ادویات کے استعمال نے ملک میں زرعی انقلاب برپا کر دیا ہے۔ پاکستان نہ صرف زراعت میں خود کفیل ہو چکا بلکہ یہ دوسرے ملکوں کو خوراک مہیا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
دوسرا کارنامہ صنعتی انقلاب تھا، جو بنیادی طور پر سرکاری سرپرستی میں صنعت لگا کر فروخت کرنا تھا۔ ان دونوں کاموں کا انحصار امریکی امداد پر تھا، جس کے بغیر سبز انقلاب اور صنعتی انقلاب ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق تھا تو آنے والے دنوں میں ملک جن طوفانی حالات سے گزرا اس نے اس استحکام کا بھانڈا پھوڑ دیا، جو حکمران اشرافیہ نے دس سال کے طویل عرصے میں قائم کیا تھا۔اس وقت وہ سبز انقلاب اور سنہری دور محض ماضی کے قصے ہیں، جن کے اس زمین پر کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سیاسی عدم استحکام آج بھی پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے، اور آج بھی حکمران اشرافیہ کا دعوی ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام لا رہے ہیں لیکن زمینی حقائق ان کے دعووں سے میل نہیں کھاتے۔
♣