خطرے کی گھنٹی

بیرسٹر حمید باشانی

ہمارے ہاں اکثر خطرے کی گھنٹی بجتی رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کو اسلام خطرے میں نظرآتا ہے۔ کچھ لوگ ملک کو خطرے میں گھرا دیکھتے ہیں۔ خطرات کے اس شور میں اکثر حقیقی خطرات سے چشم پوشی کی جاتی ہے۔ حقائق کی روشنی میں اس وقت اگر کسی چیز کو خطرہ ہے تو وہ ملک کا جمہوری نظام ہے۔جمہوریت، کو طویل عرصے تک ہماری اس دنیا میں آزادی، مساوات اور قانون کی حکمرانی کے قیام کے لیے سیاسی نظاموں میں سے ایک قابل عمل نظام کے طور پر سراہا جاتا رہا ہے۔ بہت سارے ممالک نے اس نظام کو کسی حد تک اپنایا بھی، اور اس کے کچھ مثبت نتائج بھی حاصل کیے۔ مگر آج 21ویں صدی میں اس نظام کو اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ یہ نظام مختلف تاریخی ادوار میں مختلف شکلوں میں پروان چڑھا ہے، لیکن اس کی آج جو شکل بھی ہو کچھ عصری مسائل اس کی بنیادوں میں دراڑیں ظاہر کرتے ہیں۔ اور اس کے قابل عمل ہونے کے بارے میں خدشات کو جنم دیتے ہیں۔

جمہوریت کوئی ایک آدھ صدی کا قصہ نہیں ہے۔ ایک اعتبار سے یہ قدیم ترین نظام رہا ہے، جس کا تصور قدیم یونان سے جا ملتا ہے۔ اس میں کچھ خامیوں کے باوجود تسلسل رہا ہے۔ ایتھنز کی شہری ریاست میں 5ویں صدی قبل مسیح کے آس پاس تک اس کی موجودگی اور مقبولیت کے شواہد عام ہیں۔۔ آغاز میں فیصلہ سازی میں شہریوں کی براہ راست شرکت اس کی بنیادی خصوصیت تھی۔۔ صدیوں کے سلسلہ عمل اور پریکٹس کے دوران، جمہوریت نے جڑیں پکڑیں۔ اس پریکٹس میں جمہوریت کی مختلف اشکال سامنے آئیں، مگر ان میں سے نمائندہ جمہوریت غالب شکل اختیار کر گئی، جیسا کہ آج بھی اس کو برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں  کامیاب پارلیمانی نظام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

دنیا آج بھی کسی دوسرے نظام کی عدم موجودگی میں ۔جمہوریت کو انسانی تاریخ کے کامیاب ترین نظام کی حیثیت میں دیکھنے پر مجبور ہے۔ بہت لوگ مانتے ہیں کہ نظریاتی اختلافات سے قطع نظر عملی طور پر ابھی تک اس کے متبادل نظام کا کامیاب تجربہ نہیں ہوا ہے۔مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حالیہ دہائیوں میں، عمل کی دنیا میں جمہوری اصولوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔ اور جمہوریت کے بنیادی تصورات جیسے قانون کی حکمرانی، آزادی صحافت، اور اقتدار کی پرامن منتقلی کا احترام جیسے بنیادی اور لازمی اصولوں کو سختی سے پائمال کیا گیا ہے۔ ۔عام طور پر پاکستان سمیت ہنگری، ترکی اور برازیل جیسے ممالک کے رہنماؤں پر ان اصولوں کو کمزور کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، مگر اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اس صف میں کئی دوسرے ممالک کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ۔

ایک وقت میں ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کو ملک کے نظام انصاف اور عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے اور پریس کی آزادیوں کو سلب کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مگر اب پاکستان سمیت تیسری دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس میں جمہوریت ہو اور حکمران اشرافیہ کو ان الزامات سے مبرا قرار دیا جا سکے۔۔ ماضی میں مزید جھانک کر دیکھا جائے تو اس طرح کی الزامات کی بے شمار مثالیں ہیں ،جن کی جڑیں بہت دور تک جاتی ہیں، لیکن اس میدان میں سب سے زیادہ 20ویں صدی میں نازی جرمنی اور اٹلی جیسی مطلق العنان حکومتوں کا عروج دیکھا گیا، جنہوں نے جمہوری اداروں کو ختم کرنے کے لیے معاشی اور سماجی انتشار کا فائدہ اٹھایا۔

 چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جمہوریت کے پھیلاؤ کو اس طرح کی آمریت کے خلاف تحفظ کے طور پر دیکھا گیا، جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین جیسے بین الاقو امی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ مگر یہ ادارے جمہوریت کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے بر عکس معاشی اور سماجی انتشار دنیا میں ابھرتی ہوئی نئی پاپولر لیڈر شپ کے ہاتھ مین ایک طاقت ور ہتھیار بن گیا۔ پاپولسٹ لیڈر آج اقتدار حاصل کرنے کے لیے معاشی عدم مساوات، ثقافتی خوف اور روایتی اشرافیہ کے خلاف عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور نا امیدی کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ اکثر جمہوری اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے یا کمزور کرتے ہوئے اپنے آپ کو کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

اس کی ایک حالیہ مثال ریاستہائے متحدہ امریکہ ہے جہاں، ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت میں جمہوری اصولوں اور مسلمہ قواعد و ضوابط کو نظر انداز کیا گیا، جس کا اختتام 6 جنوری 2021 کو کیپٹل فسادات میں ہوا، جس نے اقتدار کی پرامن منتقلی کو چیلنج کیا، جو جمہوریت کا لازم اصول مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن ہمارے دور میں یہ چیلنج ایک خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک اس چیلنج کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

 ریاستہائے متحدہ میں ترقی پسند دور (1890- سے بیسویں صدی کے وسط تک ، اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ اصلاحات دیکھنے میں آئیں جن کا مقصد اجارہ دادریوں کی طاقت کو کم کرنا اور جمہوری طرز حکمرانی کو مضبوط بنانے کے لیے آمدنی میں عدم مساوات کو دور کرنا تھا۔ لیکن حکمران اشرافیہ دائیں بازوں کے قدامت پسند سوچ کے دباو کی وجہ سے ایک حد سے زیادہ جانے کو تیار نہیں ہے، اس لیے عدم مساوات ایک مستقل روگ بنتی جا رہی ہے۔ آج دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے۔ چند لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز سیاسی عمل پر غیر متناسب اثر و رسوخ کی اجازت دیتا ہے۔ یہ سیاست میں پیسے کے کردار سے واضح ہوتا ہے، خاص طور پر ریاستہائے متحدہ امریکہ میں، جہاں 2010 میں سٹیزن یونائیٹڈ کی حکمرانی نے کارپوریشنوں اور مفاد پرست گروہوں کو لا محدود سیاسی اخراجات کی اجازت دی تھی۔ یہ عمل ایسی پالیسیوں کا باعث بنتا ہے، جو دولت مندوں کی حمایت کرتی ہیں، عدم مساوات کو بڑھاتی ہیں اور جمہوری اداروں پر اعتماد کو ختم کرتی ہیں۔ پروپیگنڈے کا استعمال پوری انسانی تاریخ میں حکومتوں نے رائے عامہ کی رہنمائی یا بسا اوقات گمراہی کے لیے کیا ہے۔

تاہم، ڈیجیٹل دور نے معلومات اور غلط معلومات کے پھیلاؤ میں اس کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے، جس کی وجہ بعض دانش وروں کا خیال ہے کہ یہ جمہوریت کے لیے ایک زیادہ طاقتور خطرہ ہے۔ ان کے خیال میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک طرح کا ایکو چیمبرزبنائے ہیں جہاں غلط معلومات تیزی سے پھیل سکتی ہیں، یہ انتخابات کو متاثر کر سکتے ہیں اور معاشروں کو پولرائز کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں سوشل میڈیا ڈس انفارمیشن مہمات کے ذریعے اہم مداخلت دیکھنے میں آئی، جس نے انتخابی عمل میں اعتماد کو مجروح کیا۔ اسی طرح، فلپائن میں، روڈریگو ڈوٹیرٹے نے سوشل میڈیا کا استعمال کر کہ جمہوری پسپائی میں حصہ ڈالا۔ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے انتخابات میں سوشل میڈیا کے استعمال کے الزامات زبان زد عام رہے ہیں۔

ایک متحرک جمہوریت فعال شہری شرکت پر انحصار کرتی ہے، جس کے لیے سوشل میڈیا ضروری ہے۔ 20ویں صدی کے اوائل میں شہری حقوق، مزدوروں کے حقوق، اور خواتین کے حق رائے دہی کے لیے چلنے والی تحریکوں کے اندر شہری مصروفیت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ یہ عمل انسانی حقوق کی تحریکوں کو مضبوط کرنے، جمہوری حقوق کو وسعت دینے اور حکومتی احتساب کو یقینی بنانے کے لیے بڑا اہم تھا۔ لیکن بد قسمتی سے آج پاکستان سمیت بہت سی کمزور جمہوریوں میں اس میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ اور سیاسی اداروں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ اس کو اکثر جمہوری عمل سے مایوسی کے احساس سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور آئے روز قانون کی حکمرانی کے خلاف اقدامات و مظاہر جمہوریت کے لیے حقیقی خطرے کی گھنٹی ہیں۔

Comments are closed.