پائندخان خروٹی
انسانی زندگی میں زوال سے عروج تک سفر کرتے ہوئے اگرچہ غلطیاں ناگزیر ہوتی ہیں پھر بھی ہمارے ہاں بعض لوگ ناکامی یا غلطی کا نام سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں، لب و لہجہ بدل لیتے ہیں، اُن پر اپنے بڑوں سے ڈانٹ ملنے کا خوف طاری ہو جاتا ہے، فکر مخالف سے طنز و تنقید کا ڈر لگ جاتا ہے، دوسروں کے اعتماد اٹھنے کا خطرہ پڑ جاتا ہے۔ کسی بدنما داغ لگنے کا خدشہ ہو جاتا ہے، شرمندگی اور رسوائی کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار کوئی نقصان اٹھانے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ گویا ناکامی اور غلطی کے خوف سے خوفزدہ ہو جانا یا اپنے وقار کھونے کے ڈر سے ڈرنا معمول کی بات ہے لیکن ذہنی طور پر کمزور لوگ اپنی معمولی غلطی کو سر پر سوار کرنے سے صدمہ یا اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف نفسیاتی یا ذہنی بیماریوں کے خطرات اور خدشات متعلقہ افراد کو گھیر لیتے ہیں حالانکہ زندگی کے نشیب و فراز میں ہر قسم کے خونی مناظر کا سامنا کرنا، کٹھن حالات سے گزر جانا، نئے خطرات مول لینا، نئی چیزوں کو آزمانا اور سب سے بڑھ کر ڈر سے آگے جیت کی امید جگانا ہی بنی نوع انسان کی عظمت ہے۔
انسانی تاریخ ایسی شاندار مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ انسان اپنی ملنساری، زندہ دلی، کمال پسندی اور اعلیٰ توقعات کی بنیاد پر ارتقاء اور ترقی کے بہت پرخار اور پرخطر مراحل سے گزر چکے ہیں آج بالکل ایک نئے جذبے اور ارادے سے آپ کی توجہ ایک اہم چیز کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ کبھی کبھار انفرادی یا پیشہ کی سطح پر غلطی ہو جاتی ہے اور غلطی انسان سے ہی سرزد ہوتی ہے۔ ماضی میں بھی بہت عظیم شخصیات نے غلطیاں کیں ہیں اور بعض مواقعوں اور مقامات پر بڑی شکست یا ناکامی سے بھی دو چار ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی انسان کے ساتھ اپنے زمان و مکان کے اعتبار سے غلطی، نااہلی ناکامی اور ناچاقی منسلک رہے گی۔
انسانی زندگی میں ناکامی اور غلطی کے تجرباتی پہلو بھی ہوتے ہیں، یہاں غلطیوں کی خوبی کو بھی زیر بحث لانے کی ضرورت ہے اور کبھی کبھار ناکامی کو خوبصورتی کے نظر سے بھی دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر غلطیوں سے مہارت، ناکامی سے کامیابی، ذلت سے عظمت اور زوال سے عروج تک سفر کرنے کی درست تفہیم حاصل نہیں ہوگی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو غلطی نہیں کرتا وہ کچھ نہیں سیکھتا۔ غلطی سے مبرا ہونے کا دعویٰ دراصل انسان کی انسانیت چھپا لیتا ہے۔ غلطی انسان کو دوبارہ سیکھنے اور خبردار رہنے کے مواقع فراہم کرتی ہے جس کی بنیاد پر انسان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ ایمپرومنٹ ہوتی رہتی ہے۔ مشاہدہ میں آیا ہے کہ ناکامی یا نقصان اٹھانے کے بعد لوگ انفرادی اور ادارے کی سطح پر اپنی کارکردگی کا بےرحمانہ تنقیدی جائزہ لینے پر راضی ہو جاتے ہیں، احساس قبولیت کا جذبہ اختیار کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو جاتے ہیں اور نئی پالیسی تشکیل دینے کیلئے حرکت میں آجائے ہیں۔ اس طرح اپنا جرم، اپنے احساس محرومی یا اپنی مجرمانہ غفلت کو تسلیم کے بعد اصلاح کا ارادہ کر لیتے ہیں۔
میرے خیال میں کسی بھی شخص کو اپنی بیماری کا احساس ہو جانا، اپنی غلطی تسلیم کرنا، ناکامی کے اصلاح کا ارادہ کرنا اور اپنی کارکردگی میں بہتری لانا سب کے سب غلطی اور ناکامی کی خوبی اور خوبصورتی کے زمرے میں آتے ہیں لیکن ایک ہی غلطی کو ایک سے زائد مرتبہ دہرانا اچھے اور سچے انسان کو قطعاً زیب نہیں دیتا۔ آئیے ہم سب اپنی غلطی یا ناکامی سے واپس ابھر آنے۔ نئی تبدیلی کا سراغ لگانے اور نئے ابھرتے ہوئے حالات میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت پیدا کریں کیونکہ غلطی یا ناکامی وقتی یا عارضی ہوتی ہے جبکہ دنیا ہر وقت نئے امکانات اور نئی کامیابیوں کے دریچے کھلے رہتے ہیں، آپ کے منتظر کامیابی کا دروازہ آپ سے اپنے قدم آگے بڑھانے اور کچھ مزید ہمت کرنے کا تقاضا کرتا ہے، بلا شک و شبہ پوشیدہ امکانات آپ کی محنت اور صلاحیت سے ظہور پذیر ہو سکتے ہیں، آپ ناممکن کو اپنی شعوری کاوش سے ممکن بنا سکتے ہیں۔
مقدار اور معیار بڑھانے کی خاطر چند قدم آگے بڑھانے سے ہی کامیاب اور سرخروئی آپ کے قدم چومے گی۔ مجھے اپنے فزکس کے استاد کی وہ مثال ابھی بھی یاد ہے جہاں وہ فکری رہنمائی کیلئے فرماتے تھے کہ زندگی میں مزید آگے بڑھنے یا بڑا جمپ مارنے کیلئے چند قدم پیچھے جانا پڑتا ہے۔ اپنی خامی، غلطی، نااہلی اور ناکامی سے ہرگز نہیں گھبرانا نہیں چاہتے، غلطی سرزد ہونے کی صورت میں یا اپنی ناکامی کے پیش اس کے تجرباتی پہلوؤں، سیکھنے کے مواقعوں اور نئی دریافتوں کے باعث بنے والے امکانات کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔ ڈر سے آگے جیت پر کامل یقین بنانے سے ہی آپ دوسروں سے مختلف اور مضبوط اعصاب کا مالک بن سکتے ہیں۔ اسی لیے سیف وقلم کے علمبردار خوشحال خان خٹک نے ایک عظیم انسان کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا کہ ” ننگیاز “ حالات کی پیداوار ہونے کی بجائے ” زمان ساز ” ہوتا ہے۔۔
♣