آمریت کے بطن سے جمہوریت کا جنم

بیرسٹر حمید باشانی

 گزشتہ دنوں میں نے ان ہی سطور میں عرض کیا تھا کہ موجودہ حکمرانوں کو تقریباً وہی مسائل در پیش ہیں، جو نصف صدی پہلے کے حکمرانوں کو در پیش تھے۔ مگر وہ اپنے پیشروؤں کی ناکامیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ میں نے اس تناظر میں نے ایوب خان کی ناکامیوں کا ذکر کیا تھا۔ ان ناکامیوں کے ساتھ ایوب خان کے کچھ کارنامے بھی ہیں، جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کارناموں میں آزاد کشمیر میں پہلی منتخب حکومت کا قیام ہے۔ مگر چونکہ تاریخ میں ایوب خان کا نام اور مقام بطور آمر متعین ہو چکا ہے اس لیے بہت سے لوگ ان کو جمہوریت کی خدمت کا کریڈٹ نہیں دینا چاہتے ، اس کے بجائے وہ آزاد کشمیر میں پہلی منتخب اور جمہوری حکومت کے قیام کا سہرا کےایچ خورشید کے سر باندھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک منتخب جمہوری حکومت کا خیال قائد اعظم محمد علی جناح کے سیکریٹری کے ایچ خورشید کا تھا۔

ایوب خان نے 1959میں کے ایچ خورشید کو آزاد کشمیر کا صدر نامزد کیا تھا۔ قائد اعظم کے سیکریٹری، پیروکار اور جمہوریت کے پر جوش حامی کے لیے ایک آمر کی طرف سے نامزدگی قبول کرنے کا عمل نا قابل فہم اور وضاحت طلب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ عہدہ فاطمہ جناح کے اصرار پر قبول کیا۔ یہ وہ دور تھا جب فاطمہ جناح ایوب حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی۔ سکندر مرزا اور فیروز خان نون حکومت کی نا اہلی اور کرپشن کے مقابلے میں انہوں نے شروع میں ایوب حکومت کو خوش آمدید کہا تھا۔ کے ایچ خورشید پر ان کے بے شمار احسانات تھے۔ لندن میں ان کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات بھی محترمہ نے اٹھائے تھے، اور قائد اعظم کے سیکریٹری کی حیثیت سے وہ ان کو گھر کے ایک فرد کی طرح دیکھتی تھیں۔ فاطمہ جناح کے اصرار کے باوجود جدید خیالات کے حامل ایک جمہوریت پسند سیاست کار کی حیثیت سے خورشید کے لیے ایوب خان کی نامزدگی قبول کرنا نا قابل فہم تھا۔

کے ایچ خورشید کو اس بات کا احساس تھا اس لیے آزاد کشمیر کے صدر کا عہدہ قبول کرنے کے فورا بعد انہوں نے آزاد کشمیر میں ایک منتخب جمہوری حکومت کے قیام کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا، اور بی ڈی یعنی بنیادی جمہو ریتوں کے نظام کے تحت1961 میں پہلی جمہوری حکومت قائم کی اور اسی نظام کے تحت وہ آزاد کشمیر کے صدر منتخب ہوئے۔ مگر سیاسی دانش ور اور تاریخ دان اس حکومت کو منتخب اور جمہوری ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اس کی ایک وجہ تو بی ڈی نظام تھا۔ اور دانش وروں خیال تھا کہ بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت جمہوری حکومت کا قیام ایوب خان کی اس کھلی پالیسی کا حصہ تھا، جس کے تحت وہ عوام کو اپنے نمائندوں کے براہ راست انتخاب کے قابل نہیں سمجھتے تھے، اس کے بر عکس وہ بالواسطہ انتخاب کے قائل تھے، جس میں گنے چنے لوگ ہی جمہوری عمل میں شرکت کر سکتے تھے، اور ان گنے چنے لوگوں کا حق رائے دہی نوکر شاہی کے کنٹرول میں تھا۔ پٹواریوں اور تحصیل داروں کے ذریعے ان لوگوں کے ووٹوں کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ۔

اس پالیسی کو آگے چل کر ایوب خان نے خود اپنے صدارتی انتخاب کے لیے استعمال کیا، اور بنیادی جمہوریت کے تحت منتخب ہونے والے نمائندوں کے ذریعے فاطمہ جناح کو شکست دے کر صدر پاکستان بن گئے۔ اس حکومت کو منتخب اور جمہوری نہ ماننے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ سیاست دانوں کو جمہوری عمل سے باہر رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا تھا۔ سردار ابراہیم جیسے مقبول رہنما پابند سلاسل تھے، اور انتخابی عمل میں ان کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے باوجود آزاد کشمیر میں ایک جمہوری حکومت کے قیام کا کریڈٹ کے ایچ خورشید کو دیا جا سکتا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کے نام پر اس جمہوریت کو بے دست و پا کر دیا تھا۔ ایک منتخب حکومت ہونے کے باوجود آزاد کشمیر میں آئین تک نہیں بنایا گیا اور منتخب حکومت کو رولز آف بزنس کے تحت چلایا جاتا رہا۔ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور حکومت کے اختیارات کا تعین بھی واضح طور نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود کے ایچ خورشید نے پانچ سال تک آزاد کشمیر میں حکومت کی۔ وہ پانچ اگست1964کو اس عہدے سے مستعفی ہوئے، بعض روایات کے مطابق ان سے استعفیٰ لیا گیا۔

آزاد کشمیر حکومت سے مستعفی یا دست بردار ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کے مقتدرہ کے ساتھ سنگین اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ یہ اختلافات کوئی نئی بات نہیں تھی۔ کے ایچ خورشید کئی بار ان اختلافات کا اظہار آزاد کشمیر کا صدر بننے سے پہلے کر چکے تھے۔ ان کو آزاد کشمیر حکومت کی ہئیت ترکیبی، اس کے اختیارات اور قانونی حیثیت پر شدید اعتراض تھا۔ ان کے موقف کے سمجھنے کے لیے ان کے پس منظر پر ایک نظر ضروری ہے۔ ان کی سیاست، خیالات اور نظریات کا قائد اعظم محمد علی جناح سے بہت قریبی تعلق تھا۔ قائد اعظم سے ان کی ملاقات1944 میں سری نگر میں ہوئی۔ وہ اس وقت سری نگر میں اورینٹ پریس کے نمائندے کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس ملاقات میں قائد اعظم نے ان کو اپنے سٹاف میں شامل کیا، اور آگے چل کر وہ قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری بن گئے اور 1948تک اس حیثیت میں قائد اعظم کے ساتھ کام کیا۔ اس سے پہلے وہ کشمیر کی سیاست میں ایک متحرک طالب علم رہنما کے طور پر سرگرم رہے تھے، اور برصغیر کی تقسیم اور کشمیر کی سیاست پر قائد اعظم کی پالیسی اور نظریات سے اتفاق رکھتے تھے۔

قائد اعظم نے کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے دو بار ان کو کشمیر بھیجا۔ پہلی بار 1947کے موسم گرما میں، جب انہوں نے کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ اور دوسری بار اکتوبر میں ان کو دوبارہ کشمیر بھیجا گیا۔ کشمیر سے انہوں نے رپورٹ دی کے مہاراجہ ہر ی سنگھ کسی صورت الحاق پاکستان کے لیے تیار نہیں ہے، اور تجویز دی کے پاکستان قبائلیوں کے ذریعے کشمیر میں مسلح کاروائی کرے۔ اس دورے کے دوران ان کو سری نگر میں گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں  رہا کر دیا گیا۔ واپسی کے بعد وہ کسی نہ کسی شکل میں کشمیر کی سیاست کے ساتھ وابستہ رہے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد کشمیر کے پالیسی ساز حلقوں میں ان کی پذیرائی اور اثرو رسوخ ختم ہو گیا۔ اگلے دس سال انہوں نے روایتی کشمیر پالیسی سے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل آزاد کشمیر میں با اختیار حکومت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ آزاد کشمیر کا صدر بننے کے بعد انہوں نے اپنی جماعت تشکیل دی اور آزاد کشمیر حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس پس منظر میں مقتدرہ کے ساتھ ان کے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوئی اور آگے چل کر ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔ آزاد کشمیر حکومت سے فراغت کے بعد انہوں نے پاکستان کی سیاست میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا، اور ایوب خان کے خلاف انتخابی مہم میں فاطمہ جناح کی کھل کر حمایت کی۔ بعد میں وہ تا حیات کشمیر کی سیاست میں متحرک رہے۔ آزاد کشمیر میں جمہوری سلسلہ عمل کا جو آغاز ایوب دور میں ہوا تھا، وہ ابھی ادھورا ہے۔ اس طرح کے ایچ خورشید نے جن اصلاحات کی بات کی وہ آج بھی توجہ کی متقاضی ہیں۔

One Comment