آکسفورڈ کا چانسلر اور ماضی کا بوجھ

بیرسٹر حمید باشانی

پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی چانسلر بننے کی خواہش پر عالمی میڈیا میں بات ہو رہی ہے۔ اخبارات میں کالم چھپ رہے ہیں۔برطانوی اخبارات اس موضوع پراظہار خیال کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں دائیں اور بائیں بازوں کے لکھاری کھل کر لکھ رہے ہیں دی گارڈین ، تازہ ترین کالم میں اس موضوع کو زیر بحث لایا ہے۔ سابق وزیر اعظم کی اس عہدے پر دلچسپی کے بعد یہ عہدہ زیر بحث ہے، وگرنہ عام حالات میں ماضی کے تجربات کی روشنی میں چانسلر کا انتخاب بڑی خاموشی سے ہوتا رہا ہے۔ اس عہدے کو لے کر اس وقت جو تنازعہ کھڑا ہو رہا ہے، اس کی وجہ سابق وزیر اعظم کے وہ خیالات ہیں، جن کا اظہار انہوں نے مختلف معا ملات پر کیا ہے۔

برسوں پہلے جب عمران خان نے ان مسائل پراظہار خیال کیا تھا تو شاید ان کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ مستقبل میں یہ خیالات ان کے لیے مسئلہ بھی بن سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد نے اس وقت بھی عمران خان کے خیالات پر تنقید کی تھی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ ختم نہیں ہوا، بلکہ اس کی شدت اور بوجھ میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بن لادن کے حوالے سے جس لہجے میں بات کی تھی، اس کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بڑی سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔ اس کے بعد افغانستان سے امریکی انخلا پر ان کا رد عمل اور طالبان کو مبارکباد دینے کو عمل کو مشرق و مغرب میں شک اور تنقیدی نظر سے دیکھا گیا تھا۔

لیکن بیشتر مغربی میڈیا اور خصوصاً برطانوی اخبارات کے لیے وہ خیالات بڑے سنجیدہ تھے، جن کا اظہار عمران نے افغانستان کے اندر اس وقت پائی جانے والی انسانی حقوق کی صورت حال پر کیا تھا۔ اس سے پہلے دنیا میں اس بات پر یک گونہ اتفاق پایا جاتا تھا کہ مختلف ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مقامی یا اندرانی معاملہ قرار دے کر اس کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں خواتین کے بنیادی حقوق، تشدد اور ماروائے عدالت قتل جیسے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی صورت حال افغان خواتین کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے حوالے سے بھی تھی۔ ان تمام موضوعات پر عالمی برادری کا ایک طرح کا اجتماعی موقف موجود تھا۔

لیکن سابق وزیر اعظم نے جس انداز میں اس اجماع کو چیلنج کیا، وہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور جمہوریت پسندوں کے لیے ایک پریشان کن عمل تھا۔ صرف اسی پر ہی بس نہیں بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر خواتین کے لباس اور طرز زندگی کو ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے ساتھ جوڑنے کی جو کوشش کی وہ کئی انسان دوست حلقوں کے لیے نا قابل قبول تھی۔ اس سلسلہ عمل میں سابق وزیر اعظم نے اپنا ایک الگ ہی امیج پیش کیا، اور پھر چند برسوں میں سب کچھ بھول کر آکسفور کا چانسلر بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ حالاں کہ سابق وزیر اعظم، جس صورت حال کا شکار ہیں، اس میں اس طرح کے علامتی عہدے ان کے دکھوں کا مداوا نہیں ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر ایک باوقار اور بڑی حد تک رسمی کردار ہے ۔ اکڈیمیا اور برطانوی سماج میں اس کی گہری تاریخی جڑیں ہیں۔ چانسلر کی یونیورسٹی کے اندر ایک طرح کی علامتی موجودگی کے باوجود اس کی کئی اہم ذمہ داریاں ہیں۔۔ چانسلر کایہ عہدہ 13ویں صدی کا ہے۔ اس طرح یہ دنیا کے قدیم ترین یونیورسٹی دفاتر میں سے ایک ہے۔ یہ کردار یونیورسٹی کے ایک نمائندے کی ضرورت سے تخلیق ہوا تھا ۔ ابتدائی طور پر، چانسلر امن و امان سے متعلق معا ملات سے لیکر یونیورسٹی کے مفادات کے تحفظ کے ذمہ دار تھے۔چانسلر کے انتخاب کا طریقہ کار سیدھا سادا ہے۔ یہ انتخاب یونیورسٹی کے کانووکیشن کے اراکین کے ذریعے کیا جاتا ہے، یہ ادارہ  ان تمام سابق طلباء پر مشتمل ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔

چانسلر کا انتخاب اس وقت ہوتا ہے جب عہدہ خالی ہو جاتا ہے، عام طور پر ایسا جانے والے کی موت یا استعفیٰ پر ہوتا ہے۔گویا یہ عہدہ اکثر تا حیات سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی شخص کو چانسلر کے طور پر منتخب کیا جا سکتا ہے، اور امیدوار کے لیے یونیورسٹی کا سابق طالب علم یا ماہر تعلیم ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے تاہم، عملی طور پر، یہ عہدہ تاریخی طور پر نمایاں اثر و رسوخ رکھنے والے ممتاز افراد کے لیے ہی ہے، عام طور پر برطانوی اشرافیہ، سیاست، یا قومی اہمیت کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس عہدے پر آتے ہیں۔ اس کردار کے لیے اکثر سابق وزرائے اعظم، سینئر سیاستدان، شاہی خاندان کے افراد اور قابل ذکر ماہرین تعلیم کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے۔

اگرچہ چانسلر کا کردار بڑی حد تک رسمی ہے، لیکن اس میں علامتی اہمیت اور کئی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ عام طور پر چانسلر یونیورسٹی کی بڑی تقاریب کی صدارت کرتے ہیں، ڈگریوں کی تقسیم کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں، جہاں وہ رسمی طور پر گریجویٹس کو ڈگریاں پیش کرتے ہیں۔ ڈگریوں کی تقسیم کے علا وہ وہ دیگر اہم تقریبات میں بھی شرکت کرتا ہے، جیسے سالانہ تقریب، جہاں اعزازی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔

چانسلر بیرونی صلاحیتوں کی ایک رینج میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی نمائندگی کرتا ہے، اس کے پروفائل کو بڑھاتا ہے اور دوسرے تعلیمی اداروں، حکومتوں اور عالمی تنظیموں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتا ہے چانسلر قومی اور بین الاقو امی سطح پر عوامی اور سرکاری تقریبات میں یونیورسٹی کے لیے ایک شخصیت کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔چانسلر اپنے تجربے اور نیٹ ورکس کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹریٹجک معاملات پر مشورہ دے سکتا ہے۔ یونیورسٹی کی سمت اور ترجیحات پر چانسلر کا ایک اہم اثر ہو سکتا ہے، حالانکہ وہ عام طور پر معمول کے انتظامی کاموں میں مشغول نہیں ہوتے ہیں۔یونیورسٹی کی روایات کے تحفظ اور اس کی دیرینہ اقدار اور رسوم و رواج کو برقرار رکھنے کو یقینی بنانے میں چانسلر کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ وہ یونیورسٹی کے قوانین اور ضوابط کو برقرار رکھنے میں بھی شامل ہو سکتے ہیں، خاص طور پر گورننس کے معاملات میں۔

چانسلر کو اکثر یونیورسٹی کمیونٹی میں ایک اخلاقی اور اخلاقی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو بحران یا بحث کے وقت رہنمائی اور مدد فراہم کرتا ہے۔ ان کی موجودگی استحکام اور تسلسل کا ذریعہ بن سکتی ہے، خاص طور پر یونیورسٹی کی انتظامیہ میں عبوری ادوار کے دوران چانسلر کی موجودگی اہم سمجھی جاتی ہے۔ اپنی پوری تاریخ میں، آکسفورڈ یونیورسٹی کے کئی ممتاز چانسلر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ قابل ذکر ہیں:۔

 ولیم گلیڈسٹون (1869-1898): ایک سابق برطانوی وزیر اعظم، جو تعلیمی اصلاحات کے ایک مضبوط وکیل تھے۔ اس کے علاوہ ہیرالڈ میکملن (1960-1986): ایک اور سابق برطانوی وزیر اعظم، جنہوں نے اعلیٰ تعلیم میں نمایاں تبدیلی کے دوران بطور چانسلر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ لارڈ پیٹن آف بارنس ہانگ کانگ کے سابق گورنر اور ایک ممتاز برطانوی قدامت پسند سیاست دان، جو اپنے بین الاقو امی نقطہ نظر اور یونیورسٹی کی عالمی مصروفیت کے لیے مضبوط حمایت کے لیے جانا جاتا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر ایک ایسا کردار ہے جو روایت میں جڑا ہوا ہے، جس کی نمایاں علامتی اور رسمی اہمیت ہے۔ اگرچہ اس عہدے میں یونیورسٹی کے روزمرہ کا انتظام اس طرح شامل نہیں ہے، چانسلر یونیورسٹی کی نمائندگی کرنے ہیں ، اس کی روایات کے تحفظ اور اس کو اخلاقی قیادت فراہم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چانسلر کا انتخاب ایک اہم واقعہ ہے جو اس وقت یونیورسٹی کی اقدار اور ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *