لیاقت علی ایڈووکیٹ
پاکستانی بائیں بازو کے بنیاد پرست عناصر کے خیال میں بائیں بازو کو تنظیمی اورسیاسی طور پرکم زور کرنےاورسماجی تبدیلی(بائیں بازو کے محاورے کے مطابق انقلاب)کی جدوجہدکوسبوتاژ کرنے میں این جی اوز نے بہت اہم کردارادا کیا ہے۔ان کے خیال میں اگر این جی اوز کا ظہور نہ ہوتا تو بایاں بازو آج جس تنظیمی زوال اور فکری انتشارکا شکار ہے وہ نہ ہوتا اوران کے نزدیک اس بات کا قوی امکان موجود تھا کہ ملکی سیاست میں بائیں بازو کا کردار بہت اہم رول اور نمایاں ہوتا۔لیفٹ سے وابستہ یہ عناصر این جی اوز کے ظہور کو سامراجی سازش اور این جی اوز کے مالکان کو اٹھتے بیٹھتے مطعون کرکے اپنے انقلابی ہونے کا اعلان کرتے اور ثبوت دیتے ہیں۔ نظریاتی پسماندگی اورفکری جمود کا شکار یہ افراد پاکستانی لیفٹ کی ناکامی اور کمزوری کا معروضی تجزیہ کرنے کی بجائے اس کا ملبہ این جی او ز پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ بائیں بازو کے یہ عناصر ان مذہبی دانشوروں کے بھائی بند ہیں جو اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ میں یہودی اور مسیحی سازشوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یہ افراد اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے لیفٹ کی سیاسی اور نظریاتی ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
کیا پاکستان میں بائیں بازو کی تنظیمی کمزور کا موجب این جی اوز ہیں یا اس کے محرکات کچھ اور ہیں؟ کیا این جی اوز کو بنیادی سماجی تبدیلی (انقلاب بہت بڑا لفظ ہے جس کا بوجھ اٹھانے سے راقم قاصر ہے)کی راہ میں این جی اوز حائل ہیں یا اس کی وجوہات ہمیں بدلتی ہوئی عالمی اور ملکی صورت احوال میں تلاش کرنے کی ضرورت ہےِ؟۔کیا لیفٹ صرف پاکستان ہی میں ناکام ہوا ہے یا دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے؟
یورپ اور امریکہ میں این جی اوز انیسویں صدی سے قائم ہیں لیکن اس کے باوجود مغرب میں سماجی تبدیلی کا عمل تو کبھی نہیں رکا اور نہ ہی سماجی اور سیاسی تحریکیں ان کی بدولت کمزور اور ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ وہاں کی عوام اپنے سیاسی،سماجی،معاشی اور جمہوری حقوق کے لئے ہمیشہ برسر پیکار رہی ہے اور انھیں اپنی اس جدوجہد میں قدم بقدم کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ وہاں جمہوری تحریکوں اور کمیونسٹ پارٹیوں نے اپنی ناکامیاں اور تنظیمی کمزوریوں کا ملبہ کبھی این جی اوز پر نہیں ڈالا بلکہ اپنے حالات، تنظیم اور موجود مواقعوں کا معروضی تجزیہ کرتے ہوئے اپنی مستقبل کی راہ عمل متعین کی ہے۔فکری طور پر متحرک اور نظریاتی طور پر ارتقا پذیر سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔ تنظیمی طور پر زندہ اور متحرک سیاسی جماعتیں اپنی ناکامیوں کا الزام مخالفین کو دینے کی بجائے اپنی کم زوریوں، ناکامیوں کا احاطہ اور موجود سیاسی و سماجی حالات کا جائزہ لے کر اپنی حکمت عملی وضع کرتی ہیں۔ یہ کام چونکہ مشکل ہے اس لئے ہمارے لیفٹسٹ دوست تنظیمی اور فکری ناکامی کا ذمہ دار این جی او کوز قرار دے کر اپنی نظریاتی بخشش کا سامان کرلیتے ہیں۔
پاکستان میں این جی اوز تو انگریز وں کی آمد کے ساتھ بالخصوص انیسویں صدی میں قائم ہوگئی تھیں۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج این جی او کے تحت ہی قائم کیا تھا۔ پنجاب بالخصوص لاہور کے عوام انجمن حمایت اسلام کی تعلیم کے شعبے میں خدمات سے بخوبی آگا ہ ہیں۔ انجمن این جی او ہی تھی۔ یہ اور ان جیسی بہت سی این جی اوز کی موجودگی کے باوجود کانگریس، مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی،ہندو مہاسبھا نہ صرف قائم ہوئیں بلکہ ان کی جدوجہد کی بدولت بہت اہم سیاسی اور سماجی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوئیں۔
قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلی این جی او جماعت اسلامی نے بنائی تھیں۔آج بھی جماعت اسلامی کی این جی اوز ہر شعبے میں موجود ہیں لیکن جماعت ان این جی اوز کو مطعون کرنے کی بجائے انھیں ساتھ لے کر چلتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے لیفٹسٹ ترقی پسند اور روشن خیال ایجنڈا رکھنے والے این جی اوزکو اپنی تحریک کامعاون بنانے کی بجائے انھیں مخالف گردانتے ہوئے مطعون کرکے خود سے دو ر ہٹاتے ہیں۔
دراصل ہمارا لیفٹ ماضی ایک سنہرادور کے فکری مغالطے کا شکار ہے۔ پاکستان میں لیفٹ کا سنہری دور کبھی نہیں تھا۔ پاکستانی لیفٹ ہمیشہ گروہ بندی اور تقسیم در تقسیم کا شکار رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کو پارٹیاں قرار دے خود فریبی اور خوش فہمی اس کا وطیرہ رہا ہے۔ لیفٹ کے پاس ہمیشہ کمٹڈ مخلص اور دیانت دار کارکنوں کی کھیپ موجود رہی ہے لیکن لیفٹ کی ژولیدہ فکری اور غلط سیاسی ترجیحات اور شخصیات کی خودد پسندی کارکنوں پر مشتمل اس سماجی سرمائے کو اپنی تنظیمی اور سیاسی ترقی کے لئے استعمال کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
لیفٹ کی عمومی تنظیمی اور نظریاتی ناکامی سے دل گرفتہ افراد کی طرف سے این جی اوز کو مورد الزام ٹھہرانا ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ہم سے زیادہ تعداد میں این جی اوز موجود ہیں لیکن وہاں کمیونسٹ پارٹیوں نے این جی اوز کو کبھی اپنی ناکامی یا تنظیمی کمزوری کا الزام نہیں دیا بلکہ وہ تو ہم خیال این جی اوز کو ساتھ لے کرچلتی اور ان کے پلیٹ فارم اپنے موقف کی ترویج کے لئے استعمال کرتی ہیں۔
پاکستانی لیفٹ کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ لیفٹ کی تنظیمی کمزوری اور نظریاتی شکست کی ذمہ دار این جی اوز نہیں ہیں۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں لیفٹ کو زوال کا سامنا ہے۔بھارت جہاں مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی کم و بیش چاردہائیوں تک برسر اقتدار رہی تھی اب وہ وہاں لوک سبھا کی ایک نشست حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔لیکن اس کے باوجود کمیونسٹ پارٹی نے اپنی شکست کا ذمہ دار این جی اوز کو نہیں ٹھہرایا کیونکہ وہ جانتی ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی فنامنا ہے جس کی ٹھوس مادی وجوہات ہیں۔
لیفٹ آج بھی پاکستان کی صورت حال میں ریلیونٹ ہوسکتا ہے اگر وہ اپنی نظریاتی ترجیحات کو بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق از سر نو ترتیب دے لے اور پاکستان کی معروضی سیاسی صورت حال سے اپنی جڑت کرلے۔اگر اس نے پرولتاری آمریت ہی کو اپنا سلوگن بنائے رکھنا ہے اور زمینی حقائق سے نظریں چراتے ہوئے انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل میں بنائی گئی سیاسی اور نظریاتی فارمولیشنز ہی کو اپنا مشعل راہ بنانا ہے تو ان کے ابھرنے اور پنپنےکے امکانات قطعاً نہیں ہیں۔ آج کے پاکستان میں لڑائی پرولتاری آمریت کی نہیں بلکہ پاکستان کو ایک سیکولر جمہوری ریاست بنانے، سماجی انصاف،پارلیمنٹ کو مضبوط اورفوج کو ریاستی اقتدار سے پیچھے ہٹانے کی ہے۔جمہوری حقوق کی جدوجہد سے جڑ کر ہی لیفٹ زندہ رہ سکتا ہے بصورت دیگر اس کے زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
♣