بیرسٹر حمید باشانی
عالمی سفارت کاری میں پاکستان نئے تعلقات چاہتا ہے۔ اگرچہ اس کام کا آغاز ایسے ممالک سے ہونا چاہیے، جن سے پاکستان کے تعلقات خراب ہیں۔ بے شک یہ ایک مشکل کام ہے۔ لیکن کیے بغیر جارہ کوئی نہیں۔ افغانستان اور بھارت سمیت جہاں جہاں سفارتِی سطع پر تلخلیاں یا تناو ہے، اسے کم کرنا ناگزیر ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے۔ پڑوسی اور روایتی طور پر دشمن تصور کیے جانے والے ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لائے بغیر سفارتی میدان میں کسی بڑی کیا میابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اگرچہ سفارتی حلقوں کی رائے مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بہت کوشش ہو چکی ہیں ۔ برف پگلنے کے امکانات کم ہی ہیں۔
ابھی حال ہی میں عالمی سفارت کاری میں ایک اہم پیش رفت میں بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کےپاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ اس دورہ میں اعلیٰ سطحی پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں شامل تھیں۔ یہ دورہ بیلاروس کے جنوبی ایشیا میں اپنے قدموں کے نشان کو وسعت دینے کے ارادے کا مظہر تھا۔اور خطے میں سٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم ملک کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دیتا تھا۔
یہ دورہ پولیٹیکل الائنسز میں تبدیلی کا اظہار بھی تھا۔ تاریخی طور پر، بیلاروس روس اور مشرقی یورپ کے ساتھ زیادہ قریب سے منسلک رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں، اس نے تیزی سے اپنے خارجہ تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان، جنوبی ایشیائی خطے میں اپنی مضبوط اقتصادی اور تزویراتی اہمیت کے ساتھ، طویل عرصے سے علاقائی معاملات میں ایک اہم کھلاڑی رہا ہے۔ بیلاروس کی اس خطے میں نسبتاً چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی معیشت ہے۔ یہ پاکستان کو تجارت، سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں تعاون کے لیے ایک اہم پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے۔ پاکستان اپنی طرف سے مشرقی یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے کا خواہاں ہے۔ اور یہ دورہ بیلاروس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور سفارتی تعاون کو وسیع کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ملک مشینری، بھاری صنعتوں اور زرعی آلات جیسے شعبوں میں ترقی یافتہ صنعتوں والا ملک ہے۔
ظاہر ہے اس دورے کا مقصد اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کے ساتھ اس طرح کا کوئی بوجھ بھی نہیں آتا، جو عموما اس طرح کے چھوٹے ممالک کے ساتھ ہوتا ہے۔ روس کے ساتھ اس کے تعلقات کی ایک خاص سطح ہے۔ لیکن یہ تعلقات مواقعوں اور امکانات کا دروازہ بھی کھولتے ہیں۔بیلاروس کے دورہ پاکستان کا ایک اہم محور اقتصادی تعاون کا فروغ تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت حالیہ برسوں میں بہت معمولی رہی ہے، لیکن لوکاشینکو کے دورے کے ساتھ، دونوں فریقوں نے اس فرق کو دور کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ تعاون کے امکانات زراعت، دفاع، توانائی اور اعلی ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں پر محیط ہیں۔
بیلا روس اپنی مضبوط صنعتی بنیاد کے لیے جانا جاتا ہے۔ خاص طور پر مشینری، آٹوموٹو اور زرعی آلات میں، جن کی پاکستان جیسی ترقی پذیر مارکیٹوں میں بہت زیادہ ضرورت ہے۔ دونوں ممالک نے مشترکہ منصوبوں اور تکنیکی تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ پاکستان اپنے بڑھتے ہوئے صنعتی شعبے کے ساتھ اپنی مشینری اور ٹیکنالوجی کے ذرائع کو متنوع بنانے کا خواہاں ہے۔ یہاں صنعتی ترقی نا صرف ایک مسئلہ ہے، بلکہ ایک سنگیں مسئلہ رہا ہے۔ اور بیلاروس اس سلسلے میں ایک قابل قدر شراکت دار بن کر ابھر سکتا ہے۔ یہ زرعی اور صنعتی ٹیکنالوجی منتقل کر سکتا ہے، جو اسے بڑے پیمانے پر سابق سوویت یونین سے ورثہ ملی ہے۔
مزید برآں، دونوں ممالک زرعی شعبے میں تعاون کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں، بیلاروس زرعی مشینری اور جدید کاشتکاری کی تکنیکوں میں مہارت کی پیشکش کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے خاص طور پر قابل قدر شراکت داری ہو سکتی ہے، ایک ایسا ملک جہاں زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
دفاع اور سلامتی میں تعاون دورے کا ایک اور اہم پہلو تھا۔ دفاعی اور سیکیورٹی تعاون اس دور کا سب سے اہم ترین مقصد ہوتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے امریکہ جیسے ممالک کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں، وہ اپنی دفاعی شراکت داری کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیلاروس اپنی بہتر دفاعی صنعت کے ساتھ پاکستان کو فوجی ہارڈویئر اور مہارت کی فراہمی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔اگرچہ اس قسم کا تعاون وزارت خارجہ کی خواہش سے زیادہ کچھ نہ ہو، لیکن دونوں ممالک نے مشترکہ دفاعی تربیت، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور انسداد دہشت گردی تعاون کے امکانات کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک پیچیدہ میدان ہے، اور راستے میں کئی کانٹے بچھے ہیں۔
مگردفاعی تعلقات کا گہرا ہونا صرف فوجی تجارت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس خطے میں اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط بنانے کے بارے میں بھی ہے جو جغرافیائی طور پر حساس ہے۔ بہت سے عالمی مسائل پر بیلاروس کا غیر جانبدارانہ مؤقف اسے پاکستان کے لیے ایک پرکشش پارٹنر بناتا ہے، جو اتار چڑھاؤ والے اتحادوں اور علاقائی حرکیات کو بدلتے ہوئے زیادہ جغرافیائی سیاسی توازن کا خواہاں ہے۔
سفارت کاری اور جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کے تناظر میں، لوکاشینکو کے دورہ پاکستان نے تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں سفارت کاری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ روس کے ساتھ اپنی سیاسی صف بندی اور اندرونی اختلاف کو سنبھالنے کی وجہ سے مغرب سے بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا کرنے والا بیلاروس اپنے بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے،جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر، بیلاروس کو ایک اہم اسٹریٹجک اہمیت کے حامل خطے میں داخلے کی پیشکش کرتا ہے۔
پاکستان کے لیے، نئے سفارتی تعلقات کو فروغ دینا بھی اتنا ہی اہم ہے، خاص طور پر جیسا کہ یہ جنوبی ایشیا میں ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظر نامے سے ظآہر ہے۔ بیلاروس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا پاکستان کو تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے نئی راہیں فراہم کر سکتا ہے، جبکہ ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں ایک متنوع سفارتی پورٹ فولیو بھی پیش کر سکتا ہے۔ اب اس دورے کا مستقبل کیا ہے ؟
مستقبل میں تعاون کے امکانات کیا ہیں، خصوصاً جب عالمی طاقتیں اس دورے کے مضمرات اور مقاصد کا جائزہ لیں گی، اور اپنے اپنے نتائج اخذ کریں گی۔
اگرچہ بیلاروسی دورہ پاکستان نے یقینی طور پر قریبی شراکت داری کی بنیاد رکھی ہے، تاہم مستقبل میں تعاون کی مکمل حد تک پیشین گوئی کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔ دونوں ممالک کو اس دورے سے پیدا ہونے والی مثبت سیاسی خواہش کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی– جیسے تجارتی معاہدوں، مشترکہ منصوبوں اور عوام سے عوام کے تبادلے جیسے اقدامات شامل ہیں۔۔
یہ اقدامات دیکھنے کے لیے کلیدی شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست فضائی روابط سمیت کئی دوسرے اقدامات شامل ہے، جس سے تجارت اور سیاحت میں سہولت ہو سکتی ہے، نیز مشینری مینوفیکچرنگ، آئی ٹی اور فارماسیوٹیکل جیسے شعبوں میں کاروباری اور صنعتی معاہدوں پر دستخط بھی شامل ہیں۔ مزید برآں، تعلیمی تبادلے اور تکنیکی تربیت اس میدان میں تعاون ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ملکوں اور قوموں کے لیے کلچرل سطح پر تعاون سب سے اہم ترین ہتھیار رہا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے ، جس میں تعاون قوموں اور ریاستوں کو ان کے باہمی تعلقات میں ایک خاص سطح پر لے جاتا ہے، بلکہ اس کے بغیر تعلقات میں فروغ ادھورا سا رہ جاتا ہے، اور اس میں وہ بالیدگی نہیں آتی، جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ یہ مسلہ رہاہے کہ متصادم نظاموں اور ثقافتوں والے ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام کا خواہشمند رہا ہے۔ اس طرح کے تعلقات میں گرمجوشی کم ہوتی ہے، اور تعلقات ایک خاص سطح سے آگے نہیں جاتے۔
♠