روبَرتو بولانیو 28 اپریل 1953 میں سان تیاگو چلّی میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوا۔ والد ٹرک ڈرائیور اور ماں ایک سکول ٹیچر تھیں۔ 1999 میں اس کے ناول ”وحشی سراغ رساں“ کو رومولو گیلی گوس ایوارڈ ملا تھا۔ اپنے وطن میں قیام صرف پندرہ برس ہی رہا۔بعد میں اپنے خاندان کے ساتھ میکسکو چلے آئے۔اور 1977 میں ہمیشہ کے لئے سپین میں آگئے تھے۔ اپنے ادبی سفر میں کافکا،بوخیز، ھولیو کارتازار سے متاثر تھے۔ جگر کی خرابی کی وجہ سے 15 جولائی 2003 میں وفات پا گئے۔جگر کی پیوندکاری کی ویٹنگ لسٹ پر رہے مگر ٹرانسپلانٹ نصیب نہ ہوا۔ جانے سے قبل اپنا ناول 2666 مکمل کر گئے تھے جو اُن کی وفات کے بعد چھپا تھا۔ افسانوں کا مجموعہ ”دی سیکرٹ آف ایول“ موت کے بعد ان کی کمپیوٹر فائلز سے ملا تھا۔ پچاس برس کی مختصر عمر میں شدید بیماری سے لڑتے ہوئے بھی اپنا آخری ناول مکمل کر چکے تھے۔ اس مجموعے کی کہانیاں ان کے ناولوں کے کرداروں پر مشتمل ہیں۔
اس میں خوفناک منجمند کر دینے والے چمکیلے تجسس سے بھر پور افسانے شامل ہیں۔ یہ مجموعہ پاتال کے کنارے چلتے کرداروں سے آباد ہے۔جن کے گرنے کا ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے مگر اسے انجام تک نہیں لایا جاتا اور نہ ہی متصور کیا جاتا ہے۔ کہانی کسی ناگہانی حادثے یا واردات کے اعتراف سے پہلے ہی رُک جاتی ہے۔ جو دروازے کے پار کسی تاریک گلی یا پارکنگ لااٹ میں ٹہلتی یا بھٹکتی رہتی ہے۔ جدید لاطینی ادب میں ان کا ناول 2666 ایک اہم ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔
روبرتو بولانیو، وہ مصنف ہے جس کا کام اکثر تشدد، سیاسی جبر، اور لاطینی امریکہ کے مایوسی کے موضوعات سے جڑا ہوتا ہے۔ روبَرتو نے چلی کی ہنگامہ خیز تاریخ، خاص طور پر پنوشے آمریت کے تحت اپنی تحریروں میں جبری گمشدگیوں، اغوا اور قتل کی المناک حقیقتوں کو بیان کیا۔ ان موضوعات کے بارے میں ان کی ادبی تحقیق، خاص طور پر بائی نائٹ ان چلی (2000) اور ڈسٹنٹ سٹار (1996) جیسے ناولوں میں، سیاسی اختلاف کی انسانی قیمت اور طاقت کی بدعنوانی کا ایک گہرا اور پریشان کن جائزہ فراہم کرتا ہے۔ “چلی بائی نائٹ” میں، بولانیو ریاست کی بربریت میں ملوث معاشرے کے اندرونی کاموں کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں۔
یہ ناول ایک پادری کا پیچھا کرتا ہے جو چلی کی سیاست کی سازشوں میں گہرا الجھا ہوا ہے، خاص طور پر فوجی بغاوت کے دوران جس نے پنوشے کی حکومت قائم کی تھی۔بولانیو اُن دانشوروں، پادریوں، اور دیگر بااثر شخصیات پر کڑی تنقید کرتا ہے جو سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
ذیل میں اس کی کہانی ( بدی کا راز مصنف روبرتو بولانیو ) کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ انگریزی سے ترجمہ: خالد محمود
♣
یہ کہانی بہت سادہ ہے،اگرچہ یہ بہت پیچیدہ ہو سکتی تھی۔ یہ نامکمل بھی ہے،کیونکہ اس طرح کی کہانیوں کا اختتام نہیں ہوتا ہے۔ اس وقت پیرس میں رات ہے،اور ایک شمالی امریکہ کا صحافی سو رہا ہے۔ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے،اور کوئی ناقابل شناخت انگریزی لہجے میں کہتا ہے،یہ کال جَو۔اے کیلسو کے لئے ہے۔ ”میں بول رہا ہوں“ صحافی کہتا ہے اور پھر وہ اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا ہے۔ صبح کے چار بجے ہیں؛ اس نے صرف تین گھنٹے نیند لی تھی اور وہ تھکا ہوا تھا۔ لائن کے دوسرے سرے پر آواز کہتی ہے مجھے آپ سے ملنا ہے کچھ معلومات دینی ہیں۔ صحافی پوچھتا ہے کہ یہ کس کے متعلق ہے؟اس طرح کی کالزمیں عموماً ایسا ہوتا ہے کہ آواز کچھ نہیں بتاتی۔ صحافی کم از کم کچھ اشارہ مانگتا ہے۔ کیلسو سے کہیں بہتر ایک بے عیب انگریزی آواز، رُوبرو ملاقات کی ترجیح کا اظہار کرتی ہے۔ آواز فوراً کہتی ہے، وقت بہت کم ہے۔ کیلسو پوچھتا ہے، کہاں؟ آواز دریائے سین پر پلوں میں سے ایک پل کا بتاتی ہے۔مزید کہتی ہے: تم بیس منٹ میں پیدل وہاں پہنچ سکتے ہو۔
صحافی جو اس طرح کی سینکڑوں ملاقاتیں کر چکا تھا کہتا ہے کہ وہ آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ جائے گا۔کپڑے پہن کر،وہ سوچتا ہے کہ رات ضائع کرنے کا یہ احمقانہ طریقہ ہے،پھر بھی حیرت کے ایک خفیف جھٹکے سے وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اب نیندمیں نہیں ہے، اس کال ، پیشین گوئی کے برخلاف،نے اسے مکمل بیدار کر دیا ہے۔مقررہ وقت کے پانچ منٹ بعد جب وہ پل پر پہنچتا ہے تو اسے کاروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔کچھ دیر کے لئے وہ ایک سرے پر انتظار میں ساکن کھڑا رہتا ہے۔ پھر وہ پل کے پار جاتا ہے جو ابھی تک ویران ہے،اور دوسرے پر چند منٹ انتظار کے بعد واپس پل سے گزرتا ہے،وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے ترک کرے اور گھر جا کے سو جائے۔
واپس گھر جاتے ہوئے وہ سوچتا ہے کہ وہ آواز کے متعلق سوچتا ہے: یہ یقیناً شمالی امریکہ کا لہجہ نہیں تھا اور شاید یہ برطانوی بھی نہ تھا،اگرچہ وہ یقین سے اس بارے اب کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ جنوبی افریقن یا آسٹریلین ہو سکتا تھا،یا پھر ڈچ،یا کوئی شمالی یورپین جس نے سکول میں زبان سیکھی اور مختلف انگریزی بولے جانے ممالک میں مشق سے پختگی حاصل کر لی تھی۔ جیسے ہی وہ گلی پار کرتا ہے،پیچھے سے وہ آواز سنتا ہے: مسٹر کیلسو۔ اسے فوراًاحساس ہو گیا کہ یہ وہی آدمی ہے جس نے پل پر ملنے کا اہتمام کیا تھا۔ کیلسو رکنے لگا تھا،لیکن آواز اسے چلتے رہنے کی ہدایت دیتی ہے۔جب وہ اگلے کونے پر پہنچتا ہے تو پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہے کہ کوئی بھی اس کا پیچھا نہیں کر رہا ہے۔ ایک لمحے کے لئے وہ پیچھے جانے کو سوچتا ہے مگر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے رستے چلتے رہنا زیادہ بہتر ہے۔
اچانک وہ آدمی بغلی گلی سے نمودار ہوا اور اسے سلام کیا۔کیلسو اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔آدمی اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے، میں ”ساچا پنسکی“ ہوں۔کیلسو جواباً اس سے ہاتھ ملاتا ہے اور اپنا تعارف کرواتا ہے۔پنسکی اس کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے اور پوچھتا ہے، ”کیا وہ وہسکی پسند کرے گا؟“تھوڑی سی وہسکی! وہ حقیقت میں یہی کہہ پاتا ہے۔ وہ کیلسو سے پوچھتا ہے کیا اسے بھوک لگی ہے۔وہ صحافی کو یقین دلاتا ہے کہ اسے ایک بار کا پتہ ہے جہاں پر گرما گرم تازہ کروساں مل سکتے ہیں۔ کیلسو اس کے چہرے کی طرف دیکھتا ہے۔اگرچہ پنسکی نے ہیٹ پہنا ہوا ہے مگر اس کا چہرہ سپاٹ سفید ہے جیسے وہ برسوں سے قید میں تھا۔ مگر کہاں قید کیا گیا تھا؟کیلسو حیران ہوتا ہے۔ کسی جیل میں یا ذہنی مریضوں کی بحالی کے کسی ادارے میں۔
بہرحال یہاں سے جانے میں اُسے کوئی جلدی نہ تھی اور کیلسو کے لئے گرم گرم کروساں کیا بری ہے۔ اس جگہ کا نام” چزپین” ہے اس حقیقت کے باوجود کہ یہ اسی محلے میں تھی(اگرچہ ایک بغلی تنگ گلی کے اندر تھی) اُس نے پہلی مرتبہ اس کے اندر قدم رکھا تھا اور شاید پہلی مرتبہ ہی اسے دیکھا تھا۔ زیادہ تر وہ مونٹ پارناسی کے اُن ریستورانوں اور کافی شاپس پر جاتا تھا جو اپنی مشکوک اسطورہ کی وجہ سے مشہور ہیں؛ وہ جگہ جہاں سکاٹ فٹزجیرلڈ نے کبھی کھانا کھایا تھا، وہ جگہ جہاں بیکٹ اور جوائس بیٹھ کر آئرش وہسکی پیا کرتے تھے،اور یا وہ شراب خانے جو ھیمنگوے، جان دوس پاسوز، ٹرومین کیپوٹ اور ٹینیسی ویلیمزکی پسندیدہ تھے۔ پنسکی نے چَز پین کے کروساں کے بارے ٹھیک کہا تھا ،وہ اچھی تھیں اور تازہ پکائی گئی تھیں اور کافی ذرا بھی بری نہیں تھی۔ اس وجہ سے کیلسو سوچتا ہے۔۔ اور یہ ایک سرد خیال تھا، کہ شاید یہ آدمی مقامی یا پڑوسی ہے۔
جیسے ہی وہ اس امکان پر غور کرتا ہے کیلسو پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔وہ ایک دم بے حوصلہ،دیوانہ اور تماشائی بن جاتا ہے جسے مُڑ کے دیکھنے والا کوئی نہیں ہے، اس صورتِ حال سے خلاصی پانا مشکل ہو گا۔ آخر کار وہ کہتا ہے ٹھیک ہے میں سُن رہا ہوں۔ ایک زرد آدمی جو کافی کی چسکیاں لے رہا مگر کچھ کھا نہیں رہا،اس کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے۔ اُس کی مسکراہٹ میں ایک شدید غم،اور تھکاوٹ بھی ہے۔ جیسے یہی وہ طریقہ تھا جس سے وہ اپنے آپ کو اپنی تھکاوٹ،خستگی اور کم خوابی کے اظہار کی اجازت دے سکا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ مسکرانا چھوڑ دیتا ہے اس کے چہرے کے خط وخال اپنی برفانی کیفیت بحال کر لیتے ہیں۔
♣