شعیب عادل
پاکستانیوں اور لیفٹسٹ حضرات کا عمومی تاثر یہ ہے کہ کہ دنیا بھر میں جنگوں کا فائدہ امریکہ کو ہوتا ہے کیونکہ ان کا اسلحہ بکتا رہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدر ٹرمپ جنگ مخالف ہیں اور ان کے پہلے دور صدارت میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ لیکن بائیڈن کے دور میں دو جنگیں شروع ہوئیں ایک یوکرائن اور روس کی اور دوسری حماس اور اسرائیل کی۔ اور یہ جنگیں اس لیے شروع ہوئیں کہ امریکہ کی ہتھیاروں کی انڈسٹری پھلتی پھولتی رہے۔
ضمنی طور پر عرض ہے کہ جہاں تک ہتھیاروں کی انڈسٹری کے پھلنے پھولنے کا ذکر ہے تو دنیا میں مغربی ممالک کے علاوہ چین، روس، شمالی کوریا، انڈیا اور ایران حتیٰ کہ پاکستان جیسے غریب ملک کی انڈسٹری بھی پھلتی پھولتی ہے جس کا ذکر نہیں ہوتا۔ چین اور شمالی کوریا جدید ترین ہتھیار بنا رہے ہیں لیکن تنقید امریکہ پر ہوتی ہے۔
کوئی اکتوبر اور نومبر 2021 کی بات ہے جب امریکہ نےدنیا کو آگاہ کیا کہ روسی فوجیں یوکرائن کی سرحدکے قریب اکٹھی ہورہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ روس یوکرائن پر قبضہ کرنے کے لیے اس پر حملہ کردے۔ کیونکہ روس نے 2013 میں بھی یوکرائن پر حملہ کرکے اس کے ایک علاقے کرائمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوری طور پر دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں نے ردعمل دیا اور روسی صدر پوٹن سے گفتگو کی۔ پوٹن نے پہلے تو انکار کیا پھر کہا کہ وہ معمول کی مشقیں کررہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
برطانیہ کے وزیراعظم، بورس، فرانس کے ماکروں ، جرمنی کی چانسلر مارکل، کینیڈا کے ٹروڈو اور سب سے بڑھ کر امریکی صدر بائیڈن نے روسی صدر پوتن کو مذاکرت کی دعوت دی ۔ ان تمام رہنماؤں نے پوٹن سے کئی بار بات کی اور مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیا۔ پوٹن چونکہ ایک مطلق العنان حکمران ہے جو پچھلے 25 سالوں سے کامیابی سے حکومت چلا رہا ہے اور اپنے ہر مخالف کو مرواتا چلا آ رہاہے ۔وہ اپنی طاقت کے زعم میں کسی کو خاطر میں نہیں لا تا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ یورپ خا ص کر جرمنی کو گیس کی سپلائی کررہا ہے اور اگر اس نے سپلائی بند کردی تو یورپ بیٹھ جائے گا۔اسے یہ بھی زعم تھا کہ 2013 میں اس نے یوکرائن کے علاقے کرائمیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا تھا لہذا اب بھی یہ چند دن کا کھیل ہوگا۔
تمام عالمی رہنماؤں کی درخواست کے باوجود پوٹن نے یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ لیکن اس کی توقعات کے برعکس یوکرائن کے عوام اپنے دفاع کے لیے کھڑے ہوگئے۔ یوکرائن کے صدر جو کہ ٹی وی کے مزاحیہ اداکار رہ چکے ہیں کے متعلق کہا جارہا تھا کہ وہ ملک سے بھاگ جائیں گے ۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ یوکرائن کے صدر نے کسی یورپی ملک جا کر پناہ لینے کی بجائے اپنے ملک کے دفاع کو ترجیح دی۔ یوکرائن کا مقابلہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے تھا۔ اسی جذبے کی بنیاد پر یورپ اور امریکہ نے یوکرائن کو فوجی اور مالی امداد دینی شروع کی۔ یاد رہے کہ امریکہ نے افغانستان کو بھی مالی و فوجی امداد دی تھی لیکن وقت آنے پر افغان آرمی لڑنے کی بجائے بھاگ گئی تھی۔
اگر روس میں جمہوریت ہوتی تو شاید روس کبھی بھی یوکرائن پر حملہ نہ کرتا ۔جمہوری حکومتیں اپنے تنازعات جنگ کے ذریعے نہیں مذاکرات کے ذریعے حل کرتی ہیں۔
یوکرائن کی جنگ سے متعلق ایک اور سازشی تھیوری چلائی گئی ہے کہ روس نے یوکرائن پر اس لیے حملہ کیا کہ وہ نیٹو میں شامل ہونے جارہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا تھا؟ اس کے لیے جنگ ضروری تھی۔ اور تین سال جنگ کرنے کے بعد کیا یوکرائن نیٹو میں شامل ہو گیا ہے؟ اس جنگ سے روس کو کیا حاصل ہوا؟۔ اپنے ہزاروں فوجی مروا دیے۔ اب شمالی کوریا کے کرائے کے فوجی لڑنے کے لیے آئے ہیں اور ان کی ہلاکتیں بھی ہورہی ہیں۔ روس اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ اس کی فوجیں شام کے باغیوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں اور فرار کی راہ اختیار کی ۔ مشرق وسطیٰ میں جو اس کی تاریخی اہمیت کی موجودگی تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔ پھر کوئی یہ بات کرنے کو تیار نہیں صدر پوٹن نے کئی دفعہ سابقہ سوویت یونین کو بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کئی دفعہ کیا ہے۔
اب آتے ہیں اسرائیل کی طرف۔ کیا بائیڈن نے حماس کو اکسایا تھا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرے؟
صدر ٹرمپ نے مشر ق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ابراہام معاہدہ کروایا تھا۔ عرب ممالک کے اسرائیل سے دوستی اور تجارتی تعلقات قائم ہونے جارہے تھے کہ ایران جو اس خطے میں اپنی سیاست کے لیے دہشت گردوں کو سپورٹ کرتا تھا اس نے دیکھا کہ اگر عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کر لیتے ہیں تو اس کی خطے میں اہمیت نہ ہونے کے برابر ہوگی اور اس نے حماس کے ذریعے اسرائیل پر حملہ کروایا ا ور پھر نتیجتاً اسرائیل نے حماس یا غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں تاریخ کی بدترین تباہی ہوئی ہے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حماس کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے اپنی لڑائی کے لیے عوام کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ حماس کے جنگجو سکولوں، ہسپتالوں اور اپارٹمنٹ بلڈنگز سے راکٹ برساتے ہیں۔ اسرائیل کی جوابی کاروائی بھی اسی جگہ ہوتی ہے اور نتیجتاً معصوم عوام اس کا نشانہ بنتے ہیں۔حتیٰ کہ حماس کے جنگجوؤں نے ایمبولینسوں سے بھی فائرنگ کی ۔کسی بھی ملک نے حماس کی مذمت نہیں کی کہ وہ معصوم عوام کو ڈھال کیوں بنا رہاہے۔
حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے جس نے غزہ کے عوام کو یرغمال بنارکھا ہے۔ غزہ کے کسی شہری میں جرات نہیں کہ وہ غزہ پر قابض حماس کی پالیسیوں سے اختلاف کرے۔ اگر کوئی ایسی جرات کرتا ہے تو پھر اس کی لاش ملتی ہے جس پر “غدار” کی پرچی لگی ہوتی ہے۔ ایران کا سپانسرڈ لبنان میں مقیم دوسرا دہشت گروپ حزب اللہ بھی وقتاً فوقتا راکٹ برساتا رہا ۔ ایران نے بھی اسرائیل پر میزائل برسائے۔ حماس کے بعد حزب اللہ کی باری آئی اور خدشہ ہے کہ اسرائیل ایک دفعہ ایران سے بھی اپنا قضیہ نمٹا کر رہے گا۔