ارض مقدس (شام فلسطین) کی مختصر تاریخ

زبیر حسین

سنہ۱۹۰۰ قبل مسیح میں ابراہیم علیہ السلام بابل سے ہجرت کرکے کنعان آ گئے۔ یہ وہی علاقہ ہے جسے اب فلسطین کہتے ہیں۔

سنہ۱۲۰۰ قبل مسیح میں اللہ کے حکم پر موسی علیہ السلام یہودیوں کو مصر سے نکال کر واپس کنعان لے آئے۔ خیال رہے کنعان میں قحط کی وجہ سے یعقوب کے بیٹے مصر چلے گئے تھے۔ قرآن اور اسلامی تاریخ میں یعقوب کے بیٹے یوسف اور اس کے بھائیوں کی داستان بھی پڑھ لیں۔

سنہ۱۰۰۰ قبل مسیح میں داؤد علیہ السلام نے یہودیوں کے بارہ قبیلوں کو متحد کرکے مملکت اسرائیل کی بنیاد رکھی۔ داؤد کے بیٹے سلیمان نے یروشلم میں ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔ سلیمان کی وفات کے بعد جانشینی کے تنازعے کی وجہ سے اسرائیل کی ریاست دو حصوں میں بٹ گئی۔ شمال میں اسرائیل جس میں شیکم اور سامریہ کے شہر اور جنوب میں یہوداہ جس میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی شامل تھے۔

سنہ۷۲۰ قبل مسیح میں آشوریوں نے اسرائیل فتح کر لیا۔

سنہ۵۸۶ قبل مسیح میں بخت نصر کی قیادت میں بابلیوں نے یہوداہ کو برباد کر دیا اور تمام یہودیوں کو قیدی بنا کر بابل لے گئے۔

سنہ۵۳۸ قبل مسیح میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل فتح کرکے جلاوطن یہودیوں کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے یہودیوں کا ٹمپل ہیکل سلیمانی بھی دوبارہ تعمیر کرا دیا۔ نیز اس نے یہوداہ کو ایرانی سلطنت میں خودمختار صوبے کی حیثیت دے دی۔

سنہ۳۳۲ قبل مسیح میں یہ علاقہ یونانیوں کے قبضے میں چلا گیا۔

سنہ۱۶۷ قبل مسیح میں یہودیوں نے پھر آزاد یہوداہ قائم کر لیا۔

سنہ۶۳ قبل مسیح میں رومنوں نے یہوداہ فتح کرکے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔

سنہ۴ قبل مسیح میں عیسی علیہ السلام پیداہوئے اور صرف ۳۳ سال کی عمر میں رومنوں نے انہیں مصلوب کر دیا۔ رومن سلطنت کے مشرقی حصے میں عیسی کے پیروکاروں نے اپنے چرچ بنا لئے۔

سنہ۷۰ عیسوی میں رومنوں نے یہودیوں کی بغاوت کچل دی اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا۔

سنہ۱۳۵ عیسوی میں یہودیوں نے پھر بغاوت کر دی لیکن ناکام رہے۔ رومنوں نے نہ صرف تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا بلکہ یہوداہ کا نام بدل کر سیریا فلسطین (شام فلسطین) رکھ دیا۔

سنہ۳۲۵ عیسوی میں رومی بادشاہ قسطنطنیہ نے عیسائیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو روک دیا اور سیریا فلسطین میں عیسائیت کے فروغ کے لئے اقدامات کئے۔

سنہ۵۷۰ عیسوی میں نبی پاک، حضر ت محمد دنیا میں تشریف لائے۔ آپ نے متحارب عرب قبیلوں کو متحد کرکے اور یہودیوں کو عرب شہروں سے نکال کر عظیم الشان عرب سلطنت کی بنیاد رکھ دی۔ آپ کی وفات (۶۳۲ عیسوی) کے بعد عربوں نے ایران اور مصر کے ساتھ شام فلسطین کا علاقہ بھی فتح کر لیا۔

سنہ۱۰۹۹ عیسوی میں یورپ سے آنے والے عیسائی جنگجوؤں (صلیبیوں) نے یروشلم پر قبضہ کرکے وہاں عیسائی حکومت قائم کر دی۔

سنہ۱۱۸۷ عیسوی میں مصر کے سلطان صلاح الدین نے صلیبیوں کو شکست دے کر فلسطین کا علاقہ عیسائیوں کے قبضے سے چھڑا لیا۔ اس کے بعد سوائے پندرہ سال کے مختصر وقفے کے پہلی جنگ عظیم تک فلسطین مسلمانوں کے کنٹرول میں رہا۔

سنہ۱۵۱۶ عیسوی میں عثمانی ترکوں نے شام، فلسطین، مصر، اور عرب علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔

سنہ۱۸۶۱ عیسوی میں فرانسیسیوں نے شام کے اندر ایک خودمختار ڈسٹرکٹ لبنان بنا کر عرب عیسائیوں کے حوالے کر دیا۔

سنہ۱۸۸۲ عیسوی میں انگریزوں نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ ۱۹۲۲ میں ختم ہوا۔

سنہ۱۹۱۷ عیسوی میں جنگ عظیم اول کے دوران برطانیہ نے فلسطین سمیت عرب علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اسی برس برطانیہ نے بالفور اعلامیہ جاری کیا جس کے تحت فلسطین کے اندر یہودیوں کے لئے الگ وطن قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ اس شرط کے ساتھ کہ غیر یہودیوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

سنہ۱۹۲۲ عیسوی میں جنگ عظیم اول میں عثمانی سلطنت کی شکست کے بعد لیگ آف نیشنز نے شام و لبنان پر فرانس اور فلسطین سمیت باقی عرب علاقوں پر برطانیہ کی عملداری تسلیم کر لی۔ خیال رہے عربوں نے عثمانی ترکوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ انگریزوں نے اس خدمت کے صلے میں عراق اور حجاز کا علاقہ ہاشمیوں کو دے دیا۔ نیز فلسطین کا کچھ حصہ الگ کرکے اسے ٹرانس اردن کا نام دے کر ہاشمیوں کے حوالے کر دیا۔ شام بھی بہت مختصر مدت تک ہاشمیوں کے کنٹرول میں رہا۔ نجد کے آل سعود نے ہاشمیوں سے حجاز چھین کر نجد میں ضم کر دیا اور ملک کا نام سعودی عرب رکھ دیا۔ انقلابیوں نے ۱۹۵۸ میں عراق میں ہاشمی بادشاہ کا اقتدار ختم کر دیا۔ اب صرف ٹرانس اردن (موجودہ اردن) پر ہاشمی حکمران ہیں۔

سنہ۱۹۳۶ عیسوی میں فلسطینی عربوں نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ یہودی تارکین وطن کی آمد اور فلسطین میں زمین خریدنے پر پابندی لگائے۔ برطانیہ نے جب پابندیاں لگانے کی کوشش کی تو فسادات پھوٹ پڑے۔

برطانیہ نے یہودیوں اور فلسطینی عربوں کے درمیان تنازعات حل کرنے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن پیل کمیشن کے نام سے قائم کیا۔ پیل کمیشن نے فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی۔

سنہ۱۹۳۹ عیسوی میں برطانیہ نے یہودی تارکین وطن کی فلسطین میں آمد اور زمین کی خرید و فرخت پر پابندیاں لگا دیں۔ یہودی جنگجوؤں نے ان پابندیوں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی۔

سنہ۱۹۴۷ عیسوی میں برطانیہ نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا۔ اقوام متحدہ نے قرارداد ۱۸۱ کے تحت فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہودیوں کو ۵۵ فی صد اور عربوں کو ۴۴ فی صد علاقہ ملنا تھا۔ اگر آپ نقشے پر نظر ڈالیں تو علم ہو جائے گا کہ یہودیوں کو ملنے والا بیشتر علاقہ بنجر اور بے آباد تھا۔ یروشلم اور بیت اللحم کے سوا فلسطین کے تمام اہم شہر عربوں کو مل رہے تھے۔

یروشلم اور بیت اللحم کا انتظام عالمی اداروں کے سپرد ہونا تھا۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی یہ قرارداد قبول اور عربوں نے مسترد کر دی۔

سنہ۱۹۴۸ عیسوی میں فلسطین پر برطانیہ کی عملداری ختم ہو گئی اور یہودیوں نے اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *