کوئی ایک سال پہلے امریکی کانگریس میں ٹک ٹاک پر پابندی کے حق میں دونوں پارٹیوں نے اتفاق کیا تھا۔ بائیڈن حکومت کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک امریکہ کے لیے سیکیورٹی خطرہ ہے ۔ ٹک ٹاک چینی کمپنی ہے اور اس کے استعمال کنندگان کا تمام ڈیٹا چین کے قبضے میں ہے اور وہ کسی بھی اسے امریکی حکومت کے خلاف بلیک میلنگ کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ مثلا ٹیلی فون اور نام کے ذریعے آپ امریکی شہریوں کے لیے بینکنگ، ہیلتھ اور دوسرے شعبوں کو ہیک کر سکتے ہیں۔۔۔ یاد رہے کہ چینی ہیکرز کئی دفعہ امریکی بنیکوں سمیت کئی اداروں کو ہیک کرنے کی کوششیں کرچکے ہیں۔کئی دفعہ وہ کامیاب ہوئے اور کئی دفعہ ناکام۔
بائیڈن گورنمنٹ کا کہنا تھا کہ اگر چینی کمپنی کو کوئی امریکی کمپنی خرید لے تو پھر ٹک ٹاک جاری رہ سکتا ہے۔ امریکہ کی سپریم کورٹ نے بھی اس پابندی کو برقرار رکھا ہے۔
لیکن اب فیصلہ صدر ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے۔ صدر ٹرمپ جو پہلے چینی کمپنیوں کے خلاف تھے اس دفعہ وہ تھوڑے نرم پڑ چکے ہیں جس کی وجہ بڑی بڑی ٹیک کمپنیاں ہیں جنھوں نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بھاری انوسٹمنٹ کی ہے تاکہ ان کا چین کے ساتھ کاروبار میں کوئی فرق نہ آنے پائے۔۔۔
ٹرمپ کے پچھلے دور میں ایپل کمپنی کے ٹم کوک واحد بزنس مین تھے جنھوں نے ٹرمپ کی مٹھی گرم رکھی جس کی وجہ سے، ٹرمپ کی چین کے خلاف کمپین کے باوجود ایپل کمپنی کے مفادات کو کوئی زک نہ پہنچی تھی۔ اس دفعہ ٹیک کمپنیوں نے ٹم کوک سے سیکھتے ہوئے ٹرمپ کو سیرئیس لیا ہے۔
سب سے اہم بزنس مین ایلان مسک ہےجس کے چین میں بہت زیادہ کاروباری مفادات ہیں ۔ وہ قطعاً یہ افورڈ نہیں کر سکتا کہ چین پر پابندیوں سے اس کا کاروبار بند ہو۔ دوسری طرف اس نے ٹرمپ کو بھارت سے کم تنخواہ پر ورکرز کو ایج ون ویزہ دینے پر قائل کیا ہے کیونکہ امریکہ میں موجود ٹیک ورکرز کو بھاری تنخواہ دینی پڑتی ہے۔۔۔۔
ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ٹک ٹاک کے مالک کو شرکت کی دعوت دی ہے اور وہ اس تقریب میں شرکت کررہے ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ امریکہ میں ٹک ٹاک بحال ہوجائے گا۔۔۔۔