بحران کے دور میں انقلاب کی خواہش

بیرسٹر حمید باشانی

اس وقت پوری دنیا میں معاشی ہلچل برپا ہے۔ اگرچہ اس کا سہرا صدر ٹرمپ کے سر باندھا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی اور جغرافیائی خدشات دور کرنے کیلئے امریکہ نے کافی عرصے سے محصولات اور تجارتی پابندیوں کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس وقت یہ پالیسیاں خاص طور پر کینیڈا‘ میکسیکو اور چین جیسے اہم تجارتی شراکت داروں پر مرکوز ہیں اور ان کے اثرات اور غیر ارادی نتائج کے بارے میں معاشی حلقوں میں بڑے پیمانے پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ ان پالیسیوں کا مقصد امریکی صنعتوں کی حفاظت اور تجارتی خسارے کو کم کرنا بتایا جا رہا ہے لیکن ان کے اثرات طویل مدتی ہو سکتے ہیں جو عالمی سپلائی چین سے لے کر سفارتی تعلقات تک ہر چیز کو متاثر کر سکتے ہیں۔

کینیڈا ریاستہائے متحدہ امریکہ کا قریب ترین تجارتی شراکت دار اور سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یہ امریکی تجارتی پالیسیوں کیلئے انتہائی حساس بھی ہے۔ کینیڈین اشیا جیسے ایلومینیم‘ سٹیل اور لکڑی پر محصولات سرحد کے دونوں جانب صنعتوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔ کینیڈا کے برآمد کنندگان کو امریکی مارکیٹ میں زیادہ لاگت اور کم مسابقت کا سامنا ہے جبکہ وہ امریکی کمپنیاں جو اِن درآمدات پر انحصار کرتی ہیں‘ جیسے تعمیراتی صنعت اور آٹوموبائل مینو فیکچررز‘ ان کو لاگت میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کینیڈین ایلومینیم اور سٹیل پر محصولات کا سبب امریکی قومی سلامتی کے خدشات کو قرار دے رہی ہے مگر کینیڈا انہیں انتقامی اقدامات کا باعث سمجھ سکتا ہے۔ اس سے ایک نتیجہ تو امریکی صارفین اور کاروباری اداروں کیلئے زیادہ قیمتوں کی صورت میں نکل سکتا ہے جس سے تحفظ پسند پالیسیوں کے نتائج کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزید برآں کینیڈا اپنی تجارتی شراکت داری کو متنوع بنانے‘ امریکہ پر انحصار کم کرنے اور یورپ اور ایشیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے امریکی برآمد کنندگان پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘ جو کینیڈا کی منڈیوں تک ترجیحی رسائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

میکسیکو امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر اور شمالی امریکہ کی سپلائی چین میں شراکت دارہے۔خاص طور پر امریکہ کی آٹو موٹیو انڈسٹری سرحد پار کی پیداوار پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے‘ جس کے پرزے اور اجزا‘ دونوں ممالک کے درمیان کسی حتمی پروڈکٹ میں ڈھلنے سے پہلے کئی بار منتقل ہوتے ہیں۔ میکسیکن اشیا مثلاً آٹوموبائل‘ سٹیل اور زرعی مصنوعات پر محصولات اس نازک توازن کو خطرے کا شکار کر سکتے ہیں۔ یہ محصولات امریکی کار سازوں کیلئے پیداواری لاگت اور صارفین کیلئے قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ میکسیکو کی زرعی برآمدات جیسے ٹماٹر اور ایووکاڈو پر محصولات سے امریکی درآمد کنندگان اور ان مصنوعات پر انحصار کرنے والے صارفین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ میکسیکو نے بھی ڈیری اور دیگر امریکی درآمدی اشیا پر جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیاہے‘ اس کے نتائج امریکی کسانوں کیلئے نقصان دہ ہوں گے جنہیں اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور غیر متوقع تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔

قانونی اور سفارتی سطح پر اس سے امریکہ‘ میکسیکو اور کینیڈا معاہدے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے جسے شمالی امریکہ کے تجارتی تعلقات کو جدید بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اگر میکسیکن مینوفیکچررز دوسری عالمی منڈیوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں یا امریکی درآمدات کا متبادل تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں تو دونوں ممالک کے مابین طویل مدتی اقتصادی تعلقات کمزور ہو سکتے ہیں۔ (تازہ خبر یہ ہے کہ میکسیکو اور کینیڈا کی جانب سے اقدامات کی یقین دہانی پر صدر ٹرمپ نے ان ممالک پر ٹیرف کا نفاذ عارضی طور پر ایک ماہ کے لیے روک دیا ہے)۔

دوسری جانب چین امریکی محصولات کا بنیادی ہدف رہا ہے۔ ماضی میں چین امریکہ تنازعہ میں ٹیرف میں اضافہ ایک بڑا عامل رہا ہے اور ابتدائی طور پر انٹلیکچوئل رائٹس کی چوری اور تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے عائد کردہ پابندیوں نے بڑے پیمانے پر معاشی اثرات مرتب کیے تھے۔ حالیہ محصولات کا ایک اہم نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ عالمی سپلائی چین میں خلل آ جائے۔ بہت سے امریکی کاروبار الیکٹرانکس‘ ٹیکسٹائل اور اشیائے صَرف کے لیے چینی مینوفیکچرنگ پر انحصار کرتے ہیں۔

زیادہ ٹیرف سے امریکی کمپنیوں کے اخراجات میں اضافہ ہونے کی صورت میں لامحالہ یہ اخراجات صارفین پر منتقل ہوں گے‘ اس سے امریکہ میں صارفین کی قوتِ خرید کم ہو گی اور گھریلو بجٹ متاثر ہو گا۔ چین نے جوابی کارروائی کے طور پر امریکی اشیا پر محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سویابین جیسی زرعی مصنوعات پر محصولات بڑھانے سے امریکی کسان برُی طرح متاثر ہوں گے‘ جو برآمدات کیلئے چینی مارکیٹ پر انحصار کرتے ہیں۔

اگرچہ امریکی حکومت سبسڈی کے ذریعے ان نقصانات کا ازالہ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے لیکن امریکی زراعت کی طویل مدتی عملداری غیر یقینی ہے۔ امریکی تجارتی رکاوٹوں کے جواب میں چین بیلٹ اینڈ روڈ جیسے منصوبوں کے ذریعے دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے اپنی تجارتی شراکت داری کو متنوع بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ یہ امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار کم کرنے کی کوششوں کو بھی تیز کر سکتا ہے‘ سیمی کنڈکٹر کی پیداوار اور متبادل سپلائی چین میں بھی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ یہ تبدیلیاں طویل مدت میں امریکہ کے معاشی اثر کو کم کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

تجارتی تنازعات کے اثرات معاشیات پر بھی پڑتے ہیں اور یہ سفارتی تعلقات کی تشکیلِ نو بھی کرتے ہیں۔ کینیڈا اور میکسیکو جیسے اتحادیوں پر امریکی محصولات سے تناؤ پیدا ہو گا جس سے شراکت داریوں پر دباؤ پڑے گا جو علاقائی سلامتی اور تعاون کے لیے اہم ہیں۔ البتہ صدر ٹرمپ کے ان اقدامات سے دنیا میں کوئی معاشی انقلاب برپا ہونے والا نہیں۔ امریکہ‘ کینیڈا‘ اور میکسیکو کے باہمی تعلقات اور تجارتی معاہدے ایک خاص دور کی یادگار ہیں۔ اُس دور میں گلوبلائزیشن کی سوچ غالب تھی اوریہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے اور قوم پرستی کا دور ختم ہو گیا ہے‘ اب دنیا کی خوشحالی کا دارومدار مل جل کر رہنے اور باہمی تجارت میں ہے مگر بعد میں حالات نے نیا رخ اختیار کر لیا‘ گلوبل ویلیج کے تصورات کمزور ہو گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے پاپولسٹ اور قوم پرست لوگ آگے آنا شروع ہو گئے جن کو قوم پرستی میں اپنی ریاست اور ملکوں کا فائدہ نظر آنے لگا۔

یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی اس کا ایک کھلا مظاہرہ تھا۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد شمالی امریکہ میں اس سوچ کا اظہار ہوا۔ یہ صورتحال اس حقیقت کی بھی عکاس ہے کہ سرمایہ داری نظام اور نیو لبرل ازم گہرے بحران کا شکار ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا۔ لیکن جو لوگ یہ امید رکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے اس بحران سے کوئی انقلاب جنم لے گا‘ میرے خیال میں ان کا تجزیہ درست نہیں۔ انقلاب محض سرمایہ دارانہ نظام کے بحران سے جنم نہیں لے سکتا‘ اس کے لیے انقلابی پارٹیوں اور دنیا بھر میں انقلاب کیلئے سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور ابھی تک ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ایک نظام کے مرنے یا ناکام ہونے سے نئے نظام کی تشکیل کے مابین ایک مخصوص وقفہ ضروری ہوتا ہے‘ اس وقفے کے دوران نئے نظام کے پرچارک سماج میں اپنی موجودگی ثابت کرتے ہیں۔ البتہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں پائے جانے والے تنازعات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ انقلاب برپا کرنا قدامت پسند قوتوں کی روایت نہیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے وہ انقلاب کے راستے کی رکاوٹ بنتے ہیں۔ ٹرمپ کی پارٹی کوئی استثنا نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *