مقبول بٹ، چے گویرا اور بھگت سنگھ

بیرسٹر باشانی

مقبول بٹ کے یوم شہادت کے حوالے سے کشمیری حلقوں میں مختلف تقریبات کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ان تقریبات سے پہلے، جیسا کہ عام رواج ہے، ان کی تعریف اور توصیف میں کچھ ایسی تحریریں اور تقاریر سامنے آ رہی ہیں۔ ان میں بٹ صاحب کو اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا ، جیسے ان کو پیش کیا جانا چاہیے،بلکہ کچھ لوگ ان کو اپنے ، نظریات اور خیالات کے آئینہ میں ڈھال کر اور ایک نیا روپ دے کر پیش کر رہے ہیں، یعنی وہ اپنے خیالات اور نظریات کو مقبول بٹ کی شخصیت، خیالات، اورجدو جہد کو ان کے ساتھ غلط طریقے سے منسوب کر کے پیش کر رہے ہیں۔خصوصاً وہ لوگ جو اپنی ریسرچ اور معلومات کے حصول کے لیے صرف گوگل پر انحصار کرتے ہیں ، اور اس سے آگے ان کے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ادھوری معلومات اکثر لاعلمی کی عکاس ہوتی ہیں اور گمراہ کن بھی، جو نئی نسل کے جاننے کے حق کو محدود کرتی ہے۔

مثال کے طور پر کچھ لوگ مقبول بٹ کو متحدہ بھارت کے مشہور انقلابی بھگت سنگھ سے ملا تے ہیں، جو کہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ جو لوگ تاریخ کی ہلکی پھلکی معلومات بھی رکھتے ہیں وہ اس بات کی تصدیق کریں گےکہ بھگت سنگھ اور مقبول بٹ کے نظریات ، جدو جہد میں کوئی مماثلت یا قدر مشترک نہیں ہے۔ بھگت سنگھ ایک مارکسی انقلابی تھا۔ اور متحدہ ہندوستان میں طلبہ اور نوجوانوں میں مارکسزم کا بہت بڑ اپر چارک تھا۔ اس نے لالہ لجپت رائے کے قتل کے خلاف مسلح بغاوت کی، جو ایک ہندوستانی قوم پرست اور انگریز دشن تھا۔ اس مسلح کاروائی میں غلطی سے ایک انگریز آفیسر مارا گیا، جس کی پاداش میں بھگت سنگھ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بھگت سنگھ نوآبادیاتی نظام کے خلاف تھا۔اس وقت انگریزی سامراج نے دنیا پر نو آبا دیاتی نظام مسلط کر کھا تھا، جس میں ہندوستان بھی شامل تھا۔

اس وقت دنیا بھر میں انگریزی سرکار اور نو آبادیاتی راج کے خلاف دنیا بھر میں تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان تحریکوں میں مارکسسٹ نظریات کے لوگ ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ایک نوجوان مارکس وادی کی حیثیت سے بھگت سنگھ ہندوستان کی سوشلسٹ تحریک میں آگے آگے تھا۔ وہ ہندو ستان کی آزادی کے بعد یہاں پر سوشلسٹ نظام کے قیام کا پر جوش حامی تھا، اور سرما یہ داری اور جاگیر داری کے سخت خلاف تھا، جو اس وقت مروج تھا۔ بھگت سنگھ بھارت کو ایک کثیر لا ثقافتی اور کثیر لامذہبی ملک مانتا تھا، اور اس کے خیال میں ایک متحدہ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے حامل لوگ اگٹے رہ سکتے تھے۔ بھگت سنگھ کی رائے میں ہندوستان میں ایک سکولر ریاست کا قیام لازم تھا ، جس میں سارے لوگ مل جل کر رہ سکتے تھے۔

ان خیالات اور نظریات کی وجہ سےبھگت سنگھ کوئی عظیم آدمی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، اور نہ ہی مقبول بٹ کو کمتر یا چھوٹا آدمی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بھگت سنگھ اور مقبول بت میں البتہ جو قدر مشترک تھی وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے قربانی دینے کا لا زوال جذبہ تھا۔ گوگل کو معلومات کا واحد ذریعہ سمجھ کر اس پر انحصار کرنے والے محققین کو ایک طرف رکھیے، یہاں کچھ ایسے جغادری بھی موجود ہیں، جو مقبول بٹ کوموہن داس کرم چند گاندھی سے بھی ملاتے ہیں۔ اگرچہ گاندھی اور مقبول بٹ کی جدوجہدو میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ گاندھی ایک قدامت پرست شخص تھے، جو مذہب کے روحانی پہلو سے بڑی حد تک متاثر تھے، مگر سیاسی نظریات کے حوالے سے وہ ایک سیکولر آدمی تھے، جو ریاست سے مذہبی رواداری کی توقع رکھتے تھے۔

عملی طور پر ہندوستان جیسے کثیر الثقافتی سماج میں وہ مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے حامی تھے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گاندھی عدم تشدد کے قائل تھے، جو ان کی سیاسی زندگی کی علامت بن گیا تھا۔ ظاہر ہے مقبول بٹ جیسے شخص کو جو ریاستی ظلم و جبر کے خلاف تشدد یا مسلح بغاوت پر یقین رکھتے تھے کو کسی طور پر بھی گاندھی جیسے شخص سے نہیں ملایا جا سکتا جو عدم تشدد کو سیاست کا ناگزیر حصہ تصور کرتا ہو۔ لیکن ظاہر ہے اس باب میں بھی گاندھی اور مقبول بٹ کا تقابل نا مناسب ہے، اس تقابل سے نہ تو گاندھی عظیم آدمی بن سکتا ہے، اور نہ مقبول بٹ کمتر، بلکہ یہ دو مختلف آدمی ہیں، جو دو مختلف خیالات اور نظریات رکھتے ہیں۔

ہر انسان کی شخصیت ایک مخصوص ماحول ہی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کے معروضی اور موضوعی حالات اس کے خیالات و نظریات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بھگت سنگھ اور گاندھی ایک مختلف ماحول کی پیداوار تھے۔ مقبول بٹ کا معروض مختلف تھا۔ کسی شخصیت کے خیالات اور نظریات کو اس کے معروض سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ جس دور میں مقبول بٹ سیاسی طور پرمتحرک ہوئے وہ دنیا میں مسلح بغاوتوں اور مسلح تحریکوں کا دور تھا۔ پس منظر میں چے گویرا، کاسترو، اور ماؤ جیسے لوگوں کی سوچ اور نظریات تھے۔ ان بڑی بڑی شخصیات کو نوجوان آڈئیلئزڈ کرتے تھے۔ مقبول بٹ ان میں سے ایک تھے۔ مقبول بٹ سوشل ازم جیسی اصطلاحوں سے گریزاں رہتے تھے، لیکن ان  کا جھکاؤ بڑی حد تک بائیں بازوں کی طرف تھا، اور یہ اس وقت کا ایک بڑا تقاضہ تھا۔ ان کے قریبی ساتھیوں نے بھی وقتاً فوقتاتسیلم کیا کہ وہ بائیں بازوں کی انقلابی سوچ سی بڑی حد تک متاثر تھے، جو اس وقت بڑی حد تک دنیا میں انقلاب، اور مسلح بغاوتوں کی امین تھی۔

سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ دنیا میں سامراجی مداخلت عام تھی۔ ایسے میں عالمی سیاست میں کسی شناخت کے بغیر کسی مسلح بغاوت کی کامیابی کے چانسسز بہت کم تھے۔ مقبول بٹ کا بائیں بازو کی طرف جھکاؤان کی نظریاتی وابستگی کے بجائے غالباً ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اسی طرح مقبول بٹ کو چے گویرا جیسی شخصیات سے ملانا بھی درست نہیں ہوگا۔ دونوں کے درمیان گوریلہ کاروائی یا مسلح بغاوت کے علاوہ کوئی قدر مشترک نہیں۔مقبول بٹ سے کشمیر میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اگرچہ راجوں مہاراجوں کے ادوار میں محدود پیمانے پر کچھ ایسے واقعات ضرور ہوئے ہیں، لیکن ان واقعات کو جدید سیاسی زبان میں مسلح جدوجہد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ کشمیر میں جدید تحریک یا جدو جہد کا آغاز مقبول بٹ سے ہی ہوتا ہے۔ اور اس بات کا اظہار خود مقبول بٹ نے بھی کیا تھا کہ اس سرگرمی کا مقصد اس سکوت اور جمود کو توڑنا ہے، جو کشمیر پر چھا رہا ہے۔

بات ہو رہی تھی مقبول بٹ کے نظریات اور خیالات کے تناطر میں تو اس حوالے سے ان کے ایک قریبی ساتھی کی رائے میں مقبول بٹ ایک اسلامی قوم پرست تھے۔ وہ کوئی مارکسسٹ یا سوشلسٹ نہیں تھے۔انہوں نے بھی اپنی تحریروں اور تقریروں میں کئی بھی طبقاتی جدوجہد یا سوشل ازم کی بات بہت ہی کم کی، البتہ وہ ایک ترقی پسند، اور روشن خیال قوم پرست تھے، جن کی جدوجہد کا نقطہ ماسکہ قومی آزادی کی تحریک تھی۔ اسی طرح مقبول بٹ سیاسی اور سماجی شٰعور کے حوالے سے رجعت پسند آدمی نہیں تھے۔ وہ سماج کا گہرا شعور اور علم رکھتے تھے۔ وہ انسانی حقوق، شہری آزادیوں، عورتوں کی آزادی، سماج میں ان کی شراکت داری کے قائل تھے۔ مقبول بٹ کے دور میں جس طرح کے خیالات اور نظریات ایک معقول، ترقی پسند اور روشن خیالی کے حامل سیاست دان کے لیے اختیار کرنا ضروری تھا، وہ ان کے قائل تھے۔ مقبول بٹ کو آج کے دور میں مروجہ مختلف قسم کی آئیڈیالوجی کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرنا درست عمل نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *