امریکہ کی ڈائری


شعیب عادل

ترکی کے صدر طیب اردعان کا ایک قول ہے کہ جمہوریت وہ ٹرین ہے جب آپ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائے تو آپ اتر جائیں۔۔۔کچھ یہی صورتحال اب امریکہ میں بھی نظر آتی ہے۔ امریکی پریس میں یہ بھی بحث ہورہی ہے کہ کیسے جرمنی کا چانسلر ہٹلر جو کہ الیکشن جیت کر آیا تھا اس نے کیسے پارلیمنٹ کو معطل کرکے اپنی ڈکٹیٹر شپ کو مضبوط کیا اور اس کے اردگر د ویسے ہی بڑے کاروباری افراد تھے جیسے ایلان مسک اینڈ کمپنی ہیں۔

صدر ٹرمپ بنیادی طور پرروسی صدر پوٹن، چینی صدر شی جن پنگ، اور شمالی کوریا کے صدر کم جنگ ان، جیسے ڈکٹیٹروں سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔کیونکہ ان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون ہوتا ہے ۔ ٹرمپ بھی یہی کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ایک جمہوری ملک میں عدلیہ،کانگریس (پارلیمنٹ) اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی دوسرے ڈکیٹٹرز کی طرح تاحیات صدر رہنا چاہتے ہیں اور انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ میں تیسری ٹرم کے لیے بھی الیکشن لڑیں گے۔ خیر یہ خواہش تو شاید پوری نہ ہو کیونکہ قانون سازی پارلیمنٹ نے کرنی ہے۔ لیکن کہنے میں اور کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ پہلے بھی انھوں نے الیکشن کے نتائج کو پوری طاقت سے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ابھی بھی یہی کہتے ہیں کہ میں 2020 کا الیکشن نہیں ہارا تھا۔

صدرٹرمپ کی کچھ بچگانہ خواہشیں بھی ہیں۔

مثلا انھوں نے اپنے حکم نامے کے ذریعے خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرکے خلیج امریکہ رکھ دیا ہے۔ حالانکہ یہ کام ایک انٹرنیشنل اتھارٹی کرتی ہے۔ گوگل کمپنی نے صدر ٹرمپ کے غصے سے بچنے کے لیے، بلکہ چاپلوسی کے لیے، اپنے نقشے میں خلیج امریکہ کر دیا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ سے باہر اگر کوئی گوگل سے سرچ کرے تو وہ خلیج میکسکو ہی ہوگی۔ معروف نیوز ایجنسی،ایسوسی ایٹیڈ پریس یعنی” اے پی” جو کہ امریکہ کی سب سے بڑی نان پرافٹ نیوز ایجنسی ہے نے اپنی ویب سائٹ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی اور صدر ٹرمپ نے غصے میں آکر” اے پی” کے صحافیوں کی وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں شرکت پر پابندی لگا دی ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں امریکہ کا نیشنل کلچرل ادارہ کینیڈی سنٹر کے نام سے ہے جو 1958 میں عمل میں آیا تھا جس میں ہر سال امریکہ سمیت مختلف ممالک سے کلچرل وفود، ڈانس، ڈرامہ ، پینٹنگز وغیرہ کے لیے آتے ہیں۔ٹرمپ کی کینیڈی سنٹر کے ساتھ کچھ تلخ یادیں ہیں ۔ اپنی پہلی مدت میں، ٹرمپ نے کینیڈی سینٹر آنرز کی تقریب کو اس وقت چھوڑ دیا جب کچھ اعزازی افراد نے وائٹ ہاؤس میں استقبالیہ کے لیے ان سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔صدر ٹرمپ نے شرکت تو نہ کی مگر یہ بات ان کے دل میں رہ گئی۔انھوں نے آتے ہی کینیڈی سنٹر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ہٹادیا اور اپنے قریبی یعنی وفادار لوگوں کو بورڈ کا ممبر بنا کر ٹیلی فون پر ان سے ووٹ لے اپنے آپ کو اس سنٹر کا صدر منتخب کروا لیا۔ان کا کہنا ہے کہ کینیڈی سنٹر میں سوشلسٹ ملکوں کا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ فنکاروں کی مختلف تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک ٹرمپ صدر ہیں وہ اس سنٹر میں پرفارم نہیں کریں گے۔

صدر ٹرمپ پانامہ کینال کو بھی واپس لینا چاہتے ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ اسے چین کنٹرول کررہا ہے۔صدر صاحب جو فرمادیں اس پر ان سے کوئی بحث نہیں کر سکتا۔امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پانامہ کینال ہانگ کانگ کی کمپنی آپریٹ کررہی ہے جس کے پاس کوئی فوجی طاقت نہیں کہ وہ امریکہ کے جہازوں کو روک سکے ۔ اصل بات یہ ہے کہ چین پانامہ کینال کے رستے لاطینی امریکہ کے ممالک میں سرمایہ کاری کررہا ہے ۔ اسی طرح چین افریقی ممالک میں بھی اپنی انوسٹمنٹ کررہا ہے ۔ اگر امریکہ نے واقعی چین کو فارغ کرنا ہے تو اپنی ٹرمز پر ان ممالک میں سرمایہ کاری کرے۔

صدر ٹرمپ گرین لینڈ کو بھی خریدنا چاہتے ہیں۔ وجہ وہی ہے کہ چین اس علاقے میں اپنا اثرورسوخ نہ بڑھا لے۔ اپنی پچھلے ٹرم میں بھی انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا مگر پھر وہ دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔ امریکہ ایک بڑی معاشی و فوجی طاقت ہے ۔ دنیا میں اس کا رعب و دبدبہ اس کے اتحادی ملکوںکو ساتھ لے کر چلنے سے ہوتا ہے۔ جبکہ ٹرمپ اپنے تمام اتحادیوں کو ناراض کررہےہیں صرف اس لیے کہ وہ میرے پاس چل کر نہیں آتے اور میری پالیسیوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اگر صدر ٹرمپ بھی صدر جوبائیڈن کی طرح اپنے یورپی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے تو پھر چائنہ وہاں قدم بھی نہیں جما سکتا۔ صدر بائیڈن نے اپنے تمام یورپین اور دوسرے اتحادیوں سے درخواست کی تھی کہ چین کا ٹیلی کام نیٹ ورک”ہواوے”کو نہ خریدا جائے کیونکہ اس سسٹم سے اپ کی نیشنل سیکیورٹی کو خطرہ ہوسکتا ہے اور چین کسی بھی وقت اس کو جام کرکے آپ کو بلیک میل کر سکتا ہے جس پر تمام اتحادیوں نے اس سسٹم کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

اسی طرح صدر ٹرمپ اپنے یورپی اتحادیوں کو اکیلا چھوڑ کر صدر پوٹن سے بات کررہے ہیں ۔ اور پاکستانی دوست خوش ہیں کہ روس یہ جنگ جیت گیا ہے۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ صدر ٹرمپ اس معاملے کو زیادہ خراب کرر ہے ہیں۔ پوٹن کی بدمعاشی کی وجہ سے یورپی ممالک اب اپنے دفاعی اخراجات بڑھا رہے ہیں۔ مشترکہ کرنسی کی طرح ایک مشترکہ فوج کی تجویز بھی زیر غور ہیں۔۔ آنے والے دنوں میں صورتحال واضح ہوگی کہ حالات کس رخ جاتے ہیں۔

صدر ٹرمپ ، عمران خان کی طرح ایک روایتی سیاست دان نہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک پراپرٹی ڈیلر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان سے بڑا کوئی ڈیل ماسٹر نہیں ہے اور اندرون ملک اور بیرون ملک سیاست کو اسی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اگر کوئی پراپرٹی ڈیلر سال میں تین چار بڑی ڈیلز کرلے تو پھر وہ کسی کو اس لائق ہی نہیں سمجھتا کہ اس سے مشورہ بھی کرے۔

اسی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد ان کے وعدوں پر یقین کرتی ہے اور انھیں ووٹ دیتی ہے۔ اگروہ کہیں کہ کووڈ فراڈ ہے تو پھر کووڈ فراڈ ہے۔ اگر کہیں کہ ملیریا کی دوائی سے یہ وائرس ختم ہوجائے گا تو ملک کیا دنیا سے یہ دوا ناپید ہوجاتی ہے۔ ایک بار ٹرمپ نے کہا کہ ڈٹر جنٹ پینے سے وائرس مر جاتا ہے تو چند چاہنے والوں نے ڈٹرجنٹ بھی پی لیاتھا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *