بیرسٹر حمید باشانی
برصغیر میں بے شمار باغی شاعر پیدا ہوئے ۔ان بڑے شاعروں میں ایک بڑا نام جوش ملیح آبادی کا بھی ہے۔ جوش وہ باغی شاعر تھے،جس نے اردو شاعری کی نئی تعریف متعین کی۔
اسی طرح اردو شاعری نے بہت سے قابل ذکر شاعروں کا عروج دیکھا ہے، جن میں سے ہر ایک نے اپنے وسیع ادبی منظر نامے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان میں سے جوش ملیح آبادی ایک انقلابی قوت کے طور پر الگ کھڑے ہیں، ایک آتشی نشان جس نے اردو شاعری کے تانے بانے کو نئی شکل دی۔ ان کی شاعری تحمل کے دور میں ایک گرجدار گرج، جمود کے خلاف بغاوت اور بیداری کی پکار تھی۔ اس کا نام بے خوف اظہار، فلسفیانہ گہرائی، اور لسانی فضیلت کا مترادف بن گیا۔
شبیر حسن خان کے نام سے 1898 میں ملیح آباد، موجودہ اتر پردیش، ہندوستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں پیدا ہوئے، جوش ملیح آبادی جدید اردو شاعری کی سب سے طاقتور آواز بن کر ابھرے۔ وہ محض شاعر نہیں تھے۔ وہ ایک نظریاتی آدمی تھے جس نے شاعری کو روشن خیالی، انقلاب اور ترقی کا ذریعہ سمجھا۔ ان کے اشعار جوش و خروش سے لبریز تھے جس نے جبر کو للکارا، آزادی کا جشن منایا اور فرد اور قوم دونوں کی بیداری کا مطالبہ کیا۔
جوش نے اردو شاعری میں ایک نیا اسلوب متعارف کرایا جو کہ بے باک، بے لگام اور پرجوش تھا۔ ان کا لہجہ شاندار تھا، ان کے الفاظ کا انتخاب شاندار اور اس کے موضوعات اکثر آگ لگانے والے تھے۔ اپنے پیشروؤں کے برعکس، جنہوں نے بنیادی طور پر محبت اور تصوف کے موضوعات پر توجہ مرکوز کی، جوش نے اپنی شاعری میں ایک نیا رحجان داخل کیا۔ انہوں نے قوم پرستی، سماجی انصاف، سائنسی ترقی، اور فکری بغاوت کے موضوعات کا انتخاب کیا۔
ان کا کام ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران دل کی گہرائیوں سے گونج اٹھا، اور ان کی شاعری مزاحمت کے ترانے بن گئی۔ “حصولِ آزادی“اور “شکوہِ اقبال” جیسی نظمیں ان کے شعلہ بیان جذبے اور آزادی اور انصاف کے لیے انتھک وابستگی کی عکاسی کرتی ہیں۔
جوش کی لسانی صلاحیت اردو شاعری بے مثال ہے۔ وہ اپنے پیچیدہ لیکن دلکش استعاروں، پیچیدہ لفظوں اور شاندار انداز کے لیے جانے جاتے تھے۔ غالب کی سادگی یا اقبال کی تصوف کے برعکس جوش کی شاعری بیان بازی کا ایک دھماکہ تھی، جہاں زبان ہی آگ لگتی تھی۔ فارسی اور عربی الفاظ پر ان کی مہارت نے ان کی شاعری کو گہرائی اور شدت سے مالا مال کر رکھا تھا۔
اپنی اسلوبیاتی اختراعات کے علاوہ جوش نے اردو شاعری کے موضوعات کو جدید بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ فرسودہ روایات پر سوال اٹھانے، اندھے اعتقاد پر استدلال کی وکالت کرنے اور علم اور سائنس کے ذریعے انسانی ترقی کا جشن منا نے کے قائل تھے۔
تلوار کی طرح تیز قلم سے جوش تنازعہ کو ہوا دینے کے عادی تھے۔ ان کی صاف گوئی کی وجہ سے وہ اکثر نوآبادیاتی ہندوستان اور بعد میں پاکستان دونوں میں حکام کے ساتھ تنازعات کا باعث بنتے تھے، جہاں انہوں نےہجرت کی تھی۔ تاہم ان کی شاعری سچائی، آزادی اور انصاف کے حصول میں اٹل رہی۔
ان کی سوانح عمری، “یادوں کی بارات،” اردو نثر کی سب سے مشہور تخلیقات میں سے ایک ہے، جو ان کی زندگی، جدوجہد اور نظریے کے بارے میں گہری بصیرت پیش کرتی ہے۔ یہ ادبی ذہانت کا خزانہ ہے اور ان کی غیر متزلزل شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جوش ملیح آبادی کا انتقال 1982 میں ہوا لیکن اردو شاعری پر ان کا اثر ابھی تک کم نہیں ہوا۔ ان کی خدمات شاعروں، دانشوروں اور اردو ادب سے محبت کرنے والوں کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کو انقلابی جوش و جذبے سے دوچار کرکے اس کی نئی تعریف کی، اسے نہ صرف جمالیاتی لذت کا ذریعہ بنایا بلکہ سماجی تبدیلی کا ایک راستہ بھی۔
ایک ایسے دور میں جہاں مزاحمت کی آوازیں اکثر دب جاتی ہیں، جوش کی شاعری انحراف اور روشن خیالی کی روشنی کا کام کرتی ہے۔ ان کا کلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شاعری صرف خوبصورتی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ سچائی، ہمت اور ترقی کے انتھک جستجو کے بارے میں ہے۔ اردو شاعری اپنی تمام شان و شوکت کے ساتھ جوش ملیح آبادی کی شعلہ بیان روح کی ہمیشہ مقروض رہے گی، وہ شاعر جس نے خواب دیکھنے، بولنے اور بغاوت کرنے کی ہمت کی۔
جوش 1956 میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے – بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ساتھ ان کی دوستی تھی، ان کے بھارت میں ہی رہنے کے اصرار کے باوجودجوش نے ہجرت کی۔ اس وقت عام طور پر ہندوستان میں شاعروں اور اردو زبان کے مستقبل کے بارے میں یہ خیال تھا کہ ہندو اکثریت اردو کے بجائے ہندی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ ہجرت کے بعد جوش کراچی میں سکونت اختیار کر گئے اور انجمن ترقی اردو کے لیے کام کرتے رہے۔
جوش 22 فروری 1982 کو اسلام آباد میں اپنی وفات تک پاکستان میں ہی رہے۔ مصطفی زیدی، فیض احمد فیض اور سید فخر الدین بلی جوش اور سجاد حیدر خروش کے قریبی ساتھی اور دوست تھے۔ فیض احمد فیض اپنی بیماری کے دوران اسلام آباد تشریف لائے اور سید فخرالدین بلے پوری طرح جوش اور سجاد حیدر خروش کے ساتھ ملتے رہے۔ فیض، اتفاق سے 22 فروری 1982 کو ایک طویل جلاوطنی کے بعد پاکستان آئے تھے۔
پروفیسر احتشام حسین پہلی نامور شخصیت تھے جنہوں نے ان کی رضامندی سے جوش کی سوانح حیات پر کام شروع کیا۔ وہ اپنے کام کے ابتدائی مراحل میں تھے کہ اچانک جوش پاکستان ہجرت کر گئے۔ یہ واضح ہے کہ اسکالر احتشام نے اپنا جذبہ کھو دیا اور کبھی کام مکمل نہیں کیا۔ پروفیسر محمد حسن، جو احتشام کے نسب کے ایک ممتاز اسکالر ہیں، نے پھر 1987 میں جوش پر تقریباً 100 صفحات کا ایک مقالہ لکھا، جس کا ، کیلگری سے شائع ہونے کا اعلان کیا گیا۔ ہلال نقوی، نامور شاعر اور محقق نے تقریباً اپنی پوری زندگی جوش کے کام کو جمع کرنے اور شائع کرنے میں وقف کر دی۔
جوش کے مداحوں کی فہرست اتنی طویل اور تقریباً ایک صدی پر محیط ہے، لیکن ان میں سب سے نمایاں کردار ادا کرنے والوں اور مصنفین میں، پروفیسر احتشام حسین، رئیس امروہوی، مصطفی زیدی، صہبا لکھنوی، پروفیسر قمر رئیس، علی سردار، پروفیسر محمد علی، ممتاز حسین، ممتاز علی شاہ، ممتاز احمد، پروفیسر احتشام حسین وغیرہ شامل ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ دہلی انڈیا میں بھی جوش پر کافی کام ہوا۔ پروفیسر سحر انصاری، راحت سعید، جون ایلیا، محمد علی صدیقی، پروفیسر حسن عابد، جعفر احمد، پروین شاکر، اقبال حیدر، شائستہ رضوی نے بھی جوش پر کام کیا۔
مزید یہ کہ جوش کے نواسے فرخ جمال ملیح آبادی، جوش ملیح آبادی کی پوتی تبسم اخلاق نے بھی اپنی شاعری کی میراث سنبھالی ہے۔فنکار فہیم حامد علی جوش کی منفرد اور عصری پیشکش پر کام کر تے رہے ہیں
جوش لٹریری سوسائٹی آف کینیڈا فروری 1983 میں کیلگری قائم ہوئی تھی۔ کینیڈا میں اقبال حیدر، ارشد واسطی، شائستہ رضوی، ناہید کاظمی، نگہت حیدر، حسن ظہیر، عقیل اطہر، علیم غزنوی، عبدالقوی ضیاء اور دیگر مل کر جوش پر کام کرتے رہے ہیں۔۔
جے ایل ایس سی نے فروری 1986 میں کیلگری میں اپنی پہلی ادبی کانفرنس جوش – دی پوئٹ آف دی سنچری کے عنوان سے بلائی جس میں ممتاز اسکالر نے اپنے مضامین پیش کیے ۔ جوش پر کافی کام ہوا، کئی گراں قدر تصانیف سامنے آئی لیکن شعر و ادب کی تاریخ میں جوش کو ابھی تک وہ مقام نہیں مل سکا جس کے و ہ حقدار تھے۔ جوش کی شاعری کو ہر طبقے میں پسند کیا جاتا ہے۔ ایک لبرل اور روشن خیال شاعر کے طور پر ان کی عام آدمی تک اپنے کلام کی وجہ سے رسائی ایک شاندار کارنامہ ہے۔
♠