امریکہ اب فری ورلڈ کا حصہ نہیں رہا

امریکہ اب فری ورلڈ کا حصہ نہیں رہا۔اب اس کی پہچان دنیا کے آمرانہ حکومتوں، روس، چین اور شمالی کوریا کے ساتھ ہوگی۔ اور صدر ٹرمپ کی خواہش بھی یہی ہے۔وہ فری ورلڈ کا حصہ بننا بھی نہیں چاہتے۔

آج امریکہ میں یوکرائن کے صدر کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اسے امریکی ڈپلومیسی کا بدترین واقعہ کہا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کو جھوٹ بولنے اور بڑی بڑی چھوڑنے کی عادت ہے اور اگر کوئی انہیں ٹوکے تو وہ اگلے کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی ہفتے، فرانس کے صدر ماکروں نے بھی بڑی نرمی سے صدر ٹرمپ کو ٹوکا تھا جناب والا آپ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ یہی کچھ برطانیہ کے وزیر اعظم نے بھی کہا۔ اور یہ بھی امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ غیر ملکی صدور نے امریکی صدر کو ٹوکا کہ جناب آپ درست نہیں فرما رہے۔

صدر نے اپنے وہی جھوٹ یوکرائن کے صدر کے سامنے بھی دہرائے۔ زیلینسکی نے کہا جناب آپ بے شک میری مدد نہ کریں مگر جھوٹ تو نہ بولیں۔ اپ کے سارے اعدادوشمار جھوٹے ہیں جس پر صدر کا پارہ چڑھ گیا۔ صدر ٹرمپ اپنے آپ کو ڈیل میکر سمجھتے ہیں۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ میڈیااور مختلف اداروں سےگفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ میری زیلینسکی سے ڈیل ہوگئی ہے بس دستخط ہونا رہ گئے ہیں مگر زیلینسکی نے کولونئیلزم سٹائل کی ڈیل کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ پہلے یہ گارنٹی دی جائے کہ روس ہمارے قبضہ کردہ علاقے چھوڑے تو میں ڈیل کے لیے تیار ہوں۔ صدر نے کہا کہ پہلے ڈیل کریں پھر میں پوٹن کو منا لوں گا۔۔۔ زیلینسکی نے کہا کہ کرائمییا پر قبضے کے بعد پوٹن نے میونخ معاہدے میں گارنٹی دی تھی کہ وہ یوکرائن پر حملہ نہیں کرے مگر اس نے معاہدہ توڑا۔۔۔

کسی بھی ڈپلومیسی سے عاری صدر ٹرمپ نے جواب دیا کہ تم مجھے تاریخ پڑھانے آئے ہو یا ڈیل کرنے۔ اگر ڈیل نہیں کرنی تو چلے جاؤ۔

بنیادی بات یہ ہے کہ صدرٹرمپ کو پہلے دن سے ہی زیلینسکی پسند نہیں۔ اپنی پہلی ٹرم میں صدر ٹرمپ نے زیلیسنکی کو فون کرکے کہا تھا کہ تم مجھے بائیڈن کے بیٹے کی کرپشن کے جھوٹے ثبوت بنا کردو تاکہ میں بائیڈن (کیونکہ بائیڈن اس کے خلا ف الیکشن کا مضبوط امیدوار تھا) کو ذلیل کر سکوں ۔ اور اس کے بدلے میں میں تمھاری روکی ہوئی امداد کو بحال کردوں گا۔ تو زیلسنکی نے کہا کہ میرے پاس ایسے کوئی ثبوت نہیں۔ یہ بات وائٹ ہاؤس سے لیک ہوگئی اور صدر کے خلاف مواخذے کی کاروائی ہوئی ۔ جو صدر ٹرمپ کو بھولتی نہیں۔

زیلیسنکی کے وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد یورپ کے تمام ممالک، سوائے ہنگری کے، نے زیلیسنکی کے نقطہ نظر کی حمایت کی ہے۔

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ روس جارح ہے۔یوکرائن کے عوام اپنے ملک کا دفاع کررہے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کی عزت کرنی چاہیے جو اپنے ملک کا دفاع کررہے ہیں اور یورپ کا دفاع کررہے ہیں۔

پولینڈ کے وزیراعظم نے کہا کہ تم اپنےآپ کو تنہا نہ سمجھنا۔ یورپین کمیشن کے صدر نے کہا ہم یوکرائن کے عوام کی بہادری کے معترف ہیں۔مضبو ط رہو اور ڈٹے رہو۔ جرمنی کے چانسلر اولف شلز نے کہا یوکرائن کے عوام سے زیادہ کوئی امن نہیں چاہتا۔ جرمنی کے آنے والے نئے چانسلر نے کہا ہم یوکرائن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمیں جارح اور امن پسند کی تفریق کو ختم نہیں ہونے دیں گے۔ بیلجئم ، کروشیا، چیک ریپبلک ، آئرلینڈ، فن لینڈ، لٹویا، لیتھونیا۔ لکسمبرگ، نیدر لینڈ، پرتگال، سلووینیا، سپین اور سویڈن کے سربراہان نے یوکرائن کی حمایت میں بیان جاری کیا۔

یورپ اپنی نئی صف بندی کررہا ہے۔ یوکرائن کا دفاع یورپ کی سلامتی و تحفظ کا ضامن ہے۔ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید واضح ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *