زبیر حسین
ایک غریب کسان کا بیٹا اور ہائی سکول گریجویٹ ہیری ٹرومین دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا سربراہ کیسے بنا؟ ہیری ایس ٹرومین 8 مئی 1884 کو لامر، میزوری میں ایک غریب کاشتکار اور مویشیوں کے تاجر جان اینڈرسن ٹرومین کے گھر پیدا ہوا۔ جان ٹرومین اپنی لاپرواہی کی وجہ سے دیوالیہ ہو گیا۔ خوش قسمتی سے ہیری کی ماں کو وراثت میں کچھ زمین مل گئی۔ انہوں اس زمین پر کاشتکاری شروع کر دی۔ لیکن غربت کی وجہ سے ہیری کالج نہ جا سکا۔ وہ حساب کتاب میں ماہر تھا۔ اس لئے ہائی سکول کے بعد اسے بینک میں ملازمت مل گئی۔ باپ کا مطالبہ تھا کہ بیٹا کاشتکاری میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ ہیری کو کھیتوں میں کام کرنا پسند نہیں تھا۔ لیکن باپ کے اصرار پر ہیری بنک کی جاب چھوڑ کر کسان بن گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ علاقے کا بہترین کاشتکار بن گیا۔
اسے کتابوں کے مطالعے سے علم ہو گیا تھا کہ اچھی پیداوار کے لئے ایک فصل کے بعد دوسری کون سی فصل کاشت کرنی ہے۔ کھیتوں میں ہل چلاتے وقت بھی وہ کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے زندگی میں سب سے زیادہ کتابیں ہل چلاتے ہوئے پڑھیں۔ ہیری کے بقول دس سالہ کاشتکاری کے دوران انہیں کوئی نفع نہیں ملا۔ جو بھی کماتے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا۔ یوں خاندان غریب ہی رہا۔ باپ کے انتقال (1914) کے بعد ماں، بہن، اور بھائی کی کفالت کا بوجھ ہیری کے کندھوں پر آن پڑا۔ اس نے فارم کی دیکھ بھال کے لئے ایک مزارعہ رکھ لیا اور خود فوج میں بھرتی ہو گیا۔
فوج میں بھرتی ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ کاشتکاری کی زندگی سے بھاگنا چاہتا تھا۔ اس نے پہلی جنگ عظیم میں آرٹلری آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مقام حیرت ہے کہ موٹے عدسوں کی عینک استعمال کرنے والا انتہائی شرمیلا لڑکا جسے کھیل کود میں کوئی دلچسپی نہ تھی کیسے فوج میں نہ صرف بھرتی ہو گیا بلکہ اپنی شاندار کارکردگی سے بہترین سپاہی اور کمانڈر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کر لیا۔ وہ جنگی سازوسامان کو صاف ستھرا اور ہر وقت تیار رکھتا تھا۔ اس نے بدمعاش آئرش ریکروٹوں کو فرسٹ ریٹ فوجیوں میں تبدیل کر دیا۔ ہیری کے آنے سے پہلے یہ ریکروٹ اپنے چار کیپٹن بھگا چکے تھے۔ ہیری نے کمان سنبھالتے ہی انہیں سیدھا کر دیا۔
جنگ کے بعد ہیری نے کچھ عرصہ مردوں کے کپڑوں کی دکان چلائی۔ پھر کئی اور کاروبار کئے لیکن ہر کاروبار ناکام رہا۔ آخرکار ہیری نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ اس زمانے میں سیاست میں قدم رکھنے کے لئے کسی سیاسی گروپ کا حصہ ہونا ضروری تھا۔ میزوری میں اس وقت دو سیاسی گروپ تھے۔ یہ بات ایک معمہ ہے کہ ہیری نے بدنام زمانہ پینڈرگاسٹ گروپ کا انتخاب کیوں کیا۔ پینڈرگاسٹ انتہائی بدعنوان اور شیطانی گروپ تھا۔ قصہ مختصر پینڈرگاسٹ کی بدعنوانیوں اور پر تشدد سیاست نے ہیری کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ سر درد، معدے کی خرابی، اور کئی دیگر عوارض نے اس کا برا حال کر دیا۔ اس نے فرضی نام سے پک وِک ہوٹل میں پناہ ڈھونڈ لی۔
وہاں صحت یاب ہونے کے دوران اس نے پینڈرگاسٹ میں ہونے والی بدعنوانیوں پر لکھنا شروع کر دیا۔ اس کے یہ خفیہ میمو بعد میں پک وِک پیپرزکے نام سے مشہور ہوئے۔ ان پیپرز میں وہ کئی بار خود سے سوال کرتا ہے۔ “کیا میں اخلاقی احمق ہوں؟” جیکسن کاؤنٹی کا جج (1922–1934) بننے کے بعد ہیری نے اپنے اختیارات ہی نہیں بلکہ سرکاری پیسہ بھی پوری ایمانداری اور دیانتداری سے استعمال کیا۔ اس نے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے کچے راستوں کو پختہ سڑکوں میں بدل دیا تاکہ کسان اپنی پیداور آسانی سے منڈیوں میں لے جا سکیں۔ شہر میں دو خوبصورت ہال بھی بنا دئیے۔ ہیری کا دعوی ہے کہ اس نے ایک پیسے کا بھی غبن نہیں کیا۔ اس وجہ سے وہ ساری زندگی غریب ہی رہا۔
ٹام پینڈرگاسٹ ہیری کی دیانتداری سے نالاں تھا کیونکہ اس سے اس کی بالائی آمدنی کم ہو گئی تھی۔ اس نے ہیری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے سینیٹ کا انتخاب لڑنے کی ترغیب دی۔ ہیری کو ججی کا منصب پسند تھا۔ لیکن پینڈرگاسٹ کے مجبور کرنے پر وہ 1935 میں میزوری سے ڈیموکریٹک کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہو گئے۔ ٹرومین کافی جدوجہد کے بعد امریکی سینیٹ میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انہوں نے ٹرومین کمیٹی کی قیادت کی۔ اس کمیٹی نےفوجی اخراجات میں فضول خرچی اور بدعنوانیوں کی تحقیقات کرکے اربوں ڈالر کی بچت کی۔ یوں ٹرومین کو قومی پہچان مل گئی۔
فرینکلن روزویلٹ چوتھی بار صدارت کا انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔ نائب صدارت کے لئے جمی برنس اور البن بارکلے کے نام زیر غور تھے۔ روزویلٹ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ آخرکار نیویارک کا طاقتور سیاستدان ایڈ فلن واشنگٹن آیا اور اس نے ہیری ٹرومین کا نام تجویز کیا۔ روزویلٹ کے مشیروں نے اسے بتایا کہ ہم کئی بار ٹرومین سے پوچھ چکے ہیں۔ لیکن وہ نائب صدر بننے کے لئے تیار نہیں۔ ایڈ فلن کے اصرار پر انہوں نے ٹرومین سے رابطہ کیا۔ ٹرمین کا جواب یہ تھا کہ جب تک روزویلٹ خود پیشکش نہیں کرے گا وہ قبول نہیں کر سکتا کیونکہ روزویلٹ اسے پسند نہیں کرتا۔ یہ حقیقت تھی کہ روزویلٹ ٹرومین کو پینڈرگاسٹ کا بدمعاش سمجھتا تھا۔ نیز اسے یہ اعتراض بھی تھا کہ ٹرومین کی تعلیم صرف ہائی سکول تک ہے۔
ادھر وائٹ ہاؤس کی انتظامیہ میں اشرافیہ کے تعلیمی اداروں مثلا” ہارورڈ ، پرنسٹون، برکلے، اور سٹین فورڈ کے گریجویٹ موجود ہیں۔ اب روزویلٹ کے لئے ٹرومین کو کال کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں تھا۔ کال کرنے کے بعد روزویلٹ کے منہ سے ایک موٹی گالی نکل گئی۔ وہ جب غصے میں ہوتا تھا تو بازاری زبان استعمال کر لیتا تھا لیکن صرف مردوں کے سامنے۔ عورتوں کی موجودگی میں وہ اپنی زبان قابو میں رکھتا تھا۔ فرینکلن ڈی روزویلٹ اور ٹرومین الیکشن جیت گئے۔ چند ماہ بعد 12 اپریل ۱۹۴۵ کو روزویلٹ کا انتقال ہو گیا اور ہیری ٹرومین ریاستہائے متحدہ امریکہ کا تینتیسواں صدر بن گیا۔
ٹرومین کے اپنے دور صدارت (1945-1953) میں بہت سے قومی اورعالمی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ (1945): ٹرومین نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اور دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا۔
اقوام متحدہ کا قیام (1945): ٹرومین نے عالمی امن کے فروغ کے لئے اقوام متحدہ کے قیام کی حمایت کی۔
ٹرومین نظریہ (1947): کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ٹرومین نظریہ پیش کیا۔ یونان اور ترکی کو کمیونزم کی یلغار سے بچانے کے لئے امداد دی۔
مارشل پلان (1948): مارشل پلان کے ذریعے جنگ زدہ یورپ کی تعمیر نو میں مدد کی اور امریکی اتحاد کو مضبوط کیا۔ برلن ایئر لفٹ (1948–1949): سوویت یونین کی ناکہ بندی کے دوران مغربی برلن کے شہریوں کو فضا سے ضروریات زندگی پہنچانے کا انتظام کیا۔
اسرائیل کا قیام (1948): ٹرومین اسرائیل کی نئی ریاست کو تسلیم کرنے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔ خیال رہے روزویلٹ اور ان کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عربوں سے خوشگوار تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ اسرائیل کے حامی عیسائی مبلغین نے ٹرومین کو قائل کر لیا کہ اسرائیل کا قیام بائبل کی پیش گوئی کے عین مطابق ہے۔ لہذا خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا فرض ہے۔
فیئر ڈیل (1949): کانگریس کی مخالفت کے باوجود فئیر ڈیل کے ذریعے شہریوں کو ان کی بنیادی ضروریات مثلا” خوراک، رہائش، اور صحت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اصلاحات کیں۔
کوریائی جنگ (1950-1953): جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے حملوں سے بچانے کے لئے اس جنگ کے دوران امریکی افواج کی قیادت کی۔ یہ کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کی پالیسی کا حصہ تھا۔
ایگزیکٹو آرڈر 9981: ٹرومین نے اس آرڈر کے ذریعے امریکہ کی مسلح افواج میں نسلی علیحدگی کا باضابطہ طور پر خاتمہ کر دیا۔
وائٹ ہاؤس سے رخصتی (1953) کے بعد ٹرومین میزوری چلے گئے جہاں انہوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں اور ٹرومین لائبریری قائم کی۔ ان کا انتقال 26 دسمبر 1972 کو 88 سال کی عمر میں ہوا۔
ٹرومین کو ایک فیصلہ ساز رہنما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ابتدائی غیر مقبولیت کے باوجود انہوں نے بہت سے جرات مندانہ فیصلے کئے۔ ان کے ان فیصلوں کی بدولت دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا، کمیونزم کی یلغار رکی، اور امریکہ جدید دنیا کا رہنما بن گیا۔ خارجہ پالیسی، شہری حقوق، اور معیشت کی بحالی میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
ہیری ٹرومین کی ازدواجی زندگی کی کہانی بھی بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ چھ سال کی عمر میں اسے اپنی کلاس کی ایک سنہرے بالوں والی خوبصورت لڑکی ایلزبتھ والیس سے عشق ہو گیا۔ وہ کلاس میں اس سے آگے بیٹھتی تھی۔ اس نے عہد کر لیا کہ وہ ایلزبتھ کے سوا کسی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔ آخرکار 35 سال کی عمر میں ٹرومین 34 سالہ ایلزبتھ سے شادی کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ ایلزبتھ کے چاہنے والے بیشمار دولت مند نوجوان موجود تھے۔ لیکن اس نے شادی کی ہر پیشکش ٹھکرا دی۔ کیوں؟
جب ایلزبتھ ابھی نوجوان تھی تو اس کے باپ ڈیوڈ والیس نے خودکشی کر لی۔ اس زمانے میں خودکشی کو نہ صرف بہت برا سمجھا جاتا بلکہ یہ خاندان کی شہرت پر بدنما داغ بن جاتا۔ لوگ خودکشی کرنے والے کو پاگل سمجھتے۔ نیز انہیں یقین تھا کہ پاگل پن کا یہ جین اولاد میں منتقل ہو جاتا تھا۔ اس شرمندگی سے بچنے کے لئے ایلزبتھ کی ماں بچوں کو لے کر میزوری سے ریاست کولاراڈو چلی گئی۔ باپ کے غم کی وجہ سے ایلزبتھ کافی عرصہ ڈپریشن کا شکار رہی۔ اس وجہ سے بھی وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ جونہی خاوند کو اس کے باپ کی خودکشی کا علم ہوا وہ اسے طلاق دے دے گا۔ ہیری نے کسی نہ کسی طرح اسے شادی کرنے پر آمادہ کر لیا۔ نیز اس نے ایلزبتھ کو یقین دلایا کہ وہ اپنی زندگی میں اس کے باپ کی خودکشی کی کہانی پریس میں آنے نہیں دے گا۔ ٹرومین نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
ٹرومین کے صدر بن جانے کے باوجود امریکی پریس اس کہانی سے بے خبر رہا۔ ٹرومین اور ایلزبتھ نے یہ کہانی اپنی اکلوتی بیٹی مارگریٹ سے بھی چھپائی۔ ہیری ٹرومین ایک خاندانی آدمی تھے۔ وہ نہ صرف اپنی بیوی اور بیٹی سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی مصروفیات کے باوجود اپنے وسیع خاندان کے ساتھ مضبوط تعلقات بنائے رکھے۔ وہ اکثر اپنے میزوری میں اپنے آبائی شہر “آزادی” آتے جاتے رہتے تھے۔
♠