شہاب کی روحانیت کیا تھی

بیرسٹر حمید

یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنے روحانی پہلو کو ہمیشہ چھپا کر رکھا۔ دوران ملازمت تو خاص طور سے اسے پوشیدہ اور لو پروفائل رکھا۔ اس کے دو تین انتہائی قریبی دوستوں مفتی، اشفاق احمد وغیرہ کے سوا شائد ہی کسی کو علم ہو ۔اس کے قریبی دوستوں میں احمد بشیر جیسا مارکسسٹ اور ابن انشا، جمیل الدین عالی وغیرہ بھی شامل تھے جو تصوف میں دلچسبی رکھتے تھے۔

 سوشل میڈیا پر ایک الزام شہاب کے خلاف یہ بھی لگا کہ اس نے بطور سیکرٹری مس جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی ۔ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور بے بنیاد ہے۔ قدرت اللہ شہاب مادر ملت اور ایوب خان کے صدارتی الیکشن سے دو سال پہلے ہالینڈ میں سفیر بن کر جا چکا تھا۔ ایوب کی صدارتی مہم میں شہاب پاکستان آیا ہی نہیں۔ جنگ ستمبر 1965میں بھی شہاب ہالینڈ میں تعینات تھا۔ شہاب جب ڈپٹی کمشنر تھا، تب محترمہ فاطمہ جناح وہاں گئیں تو شہاب نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا ، اس کی تصاویر اخبارات میں چھپیں۔

ایوب دور کے تین ماہ بعد ہی رائٹرز گلڈ قائم ہوا، اس میں اپنے وقت کے تقریباً تمام بڑے ادیب شامل تھے، بابائے اردو مولوی عبدالحق پہلے اجلاس میں شریک تھے، شاہد احمد دہلوی، ڈاکٹر جمیل جالبی، سید وقار عظیم، شوکت صدیقی، غلام عباس، اشفاق احمد، احمد راہی، شیخ ایاز، امیر حمزہ شنواری،ناصر کاظمی، منیر نیازی بلکہ قرتہ العین حیدر بھی شامل تھیں، بعد میں قرۃ العین حیدر بھارت چلی گئی تھیں۔ گلڈ میں رائیٹ اور لیفٹ کی نامور شخصیات تھیں، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی سے لے کر حفیظ جالندھری اور نسیم حجازی تک۔

گلڈ کے بارے میں تب یہ شک تھا کہ ایوب خان کے لئے ادیبوں کوپھانسے کا جال ہے۔آج ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماسوائے اکا دکا ادیب کے کسی نے ایوب خان کے لئے اس طرح کام نہیں کیا۔

گلڈ پر امریکی مفادات کا اسیر ہونے کا الزام لگا، حالانکہ لیفٹ کے کئی ممتاز لوگ اس میں شامل تھے اور خود شہاب چینیوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتا تھا، امریکی اسی وجہ سے شہاب سے نالاں تھے۔

 جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے تین برس تک شہاب کی پنشن بند رکھی اور شہاب کو نہایت مشکل حالات میں گزارا کرنا پڑا۔ فوجی حکومت نے شہاب کو انگلینڈ سے اغوا کرانے کی کوششیں بھی کیں۔ شہاب کے حالات اس قدر خراب تھے کہ انہیں کئی بار دن میں ایک مرتبہ کھانا کھانا پڑتا۔ خراب مالی حالات اور ناکافی خوراک کی وجہ سے ان کی بیوی بیمار ہوگئیں، ان کے گردے خراب ہوگئے، شہاب کے پاس علاج کے پیسے بھی نہیں تھے۔ بروقت مناسب علاج نہ ہونے سے عفت شہاب بیالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔

ملازمت چھوڑنے کے بعد شہاب کو کئی مواقع ملے مگر انہوں نے لوپروفائل انداز میں خاموشی سے زندگی گزار دی۔ وہ چاہتے تو بھٹو اور پھر ضیا دور میں منصب حاصل کر سکتے تھے۔ جنرل ضیا نے شہاب کو تعلیم کے حوالے سے ذمہ داری سونپنے کا اعلان بھی کیا، شہاب نے معذرت کر لی۔ اگر مذہبی ٹچ والی بات ہوتی تو اس سے اصل فائدہ جنرل ضیا دور میں اٹھایا جا سکتا تھا، مگر شہاب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

 قدرت اللہ شہاب چی گویرا تھا نہ اس نے ایسا دعویٰ کیا۔ شہاب نے کبھی انقلابی ہونے کا اعلان کیا اور نہ ہی سماج سدھار تحریک چلائی نہ ہی سیاست میں حصہ لیا۔ اس کا تو کوئی دعویٰ ہی نہیں ۔ وہ ایک سول سرونٹ تھا، ایک اچھا ، دیانت دار سول سرونٹ۔ بس یہی اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو کہا۔ کبھی روحانیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔

 دوران ملازمت توخیر یہ مسئلہ کھی نہیں اٹھا، ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد بھی شہاب نے ڈاکٹر طاہر مسعود کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی روحانیت سے انکار کیا اور کہا کہ یہ ممتاز مفتی کی محبت اور فسانہ طرازی ہے۔ شہاب نامہ کا آخری باب جو تصوف پر ہے، وہ سب سے آخر میں لکھا گیا اور شہاب صاحب کی زندگی میں یہ مواد شائع نہیں ہوا تھا۔ شہاب صاحب کی روحانیت کے حوالے سے اقرار ان کی وفات کے بعد ہی سامنے آیا تو اس سے فائدہ اٹھانے والا الزام ہی ختم ہوجاتا ہے۔

کتاب کا ایک باب بملاکماری کی روح کے حوالے سے ہے، اس میں ایک آسیب زدہ مکان میں رات گزارنے کا احوال بیان کیا گیا جس میں شہاب کے بقول کسی روح نے اسے تنگ کیا، اس کی دلچسپ روداد بیان کی۔ شہاب کے بقول گرامو فون یکایک بجنا شروع ہوجاتا۔

شہاب نے تجربے کے طور پر کلمہ شریف کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر گراموفون پر لکھ دیا تو آواز رک گئی۔ جب کلمہ کا اردو ترجمہ لکھ کر رکھا تو آواز نہ رکی، ایسا صرف عربی میں کلمہ لکھنے سے ہوا کہ بجتا گرامو فون بند ہوگیا۔

کچھ لوگوں کا اس باب پر اعتراض ہے کہ یہ ناقابل فہم اور غیر سائنسی بات ہے۔ ان لوگوں کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، مگر ہم لوگوں نے جنوں، بھوتوں کے اس سے زیادہ واقعات سن رکھے، بے شمار لوگوں کو ذاتی تجربہ بھی شاہد ہوئے ہوں۔ یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں جس پرہزار صفحات سے زیادہ ضخیم شہاب نامہ ہی کو رد کر دیاجائے۔ آپ اس باب کو نظرانداز کر کے آگے چل پڑیں۔

شہاب نامہ پر سب سے زیادہ تنقید اس کے آخری باب ”چھوٹا منہ بڑی بات “پر ہوتی ہے۔ شہاب نے اس میں اپنے روحانی تجربات، احوال بیان کئے ۔ شہاب کے بقول ایک پراسرار نادیدہ سلسلہ سے اس کی روحانی رہنمائی ہوئی، شہاب نے اسے نائنٹی کا نام دیا کہ یہ بزرگ اس کی پراسرار طریقوں سے رہنمائی کرتے ہیں۔

یہ ایک ایسی بات ہے جو اگر بیان نہ کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتی کہ تصوف کے فریم ورک سے باہر کے لوگوں کے لئے ایسی چیزوں کو سمجھنا مشکل ہے۔ تصوف سے تعلق رکھنے والے البتہ ان باتوں پر نہیں چونکتے کیونکہ اس میں اہم نکتہ یہ ذریعہ نہیں، اس کی تعلیمات ہوتی ہیں۔

اس باب میں ویسے قدرت اللہ شہاب نے تصوف کی جو تعریف بیان کی ، وہ درست اور ہر قسم کے بدعات اور رسومات وغیرہ سے دور ہے۔ شہاب کرشمہ، کرامات کے بجائے شریعت کے تابع تصوف کی تلقین کرتا ہے ، اس کے بقول اصل مقصد ہی شریعت کی پابندی کرنا ہے اور تصوف صرف کیپسٹی بلڈنگ کرتا ہے۔

شہاب نے آخر میں چند دعائیں بیان کی ہیں، مگر مجموعی طور پر شہاب وظائف واوراد کی حوصلہ شکنی کرتا اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری محنت کرنے اور پھر رب سے دعا کی تلقین کرتا ہے۔ یہ آخری باب روحانیت سے دلچسپی رکھنے والوں کے بہت مفید اور معلومات افزا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شہاب نامہ نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ اس کے آخری باب سے ہزاروں لوگ روحانیت  کی طرف مائل ہوئے ۔  ان سب باتوں سے ہٹ کرشہاب نامہ  غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان کے دور کو سمجھنے عمدہ تاریخ ہے۔

شہاب نامہ میں بہت کچھ ایسا ہےجو کتاب کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتا ہے۔ شہاب نامہ کی یہی غیر معمولی مقبولیت اور پزیرائی ہی نے شائد حاسدین کا ایسا طبقہ پیدا کیا، جس کے دل میں شہاب کے مرنے کے چالیس سال بعد بھی ٹھنڈک نہیں پڑی۔ زاتی نطریات اور خیالات سے ہٹ کر شہاب نامہ اور اس کا روحانیت والا باب جب تک پڑھا جا تا رہے گا، ایک خاص مکتب فکر ہمیشہ شہاب کو ملامت کا نشانہ بناتا رہے گا۔ اس مکتبہ فکر کے لوگوں کا ایک خاص عقیدہ اور نظریہ ہے، جو ان کو اس سوچ کا حق دیتا ہے۔ کتاب کی مکرر اشاعت مصنف کے مصنف کے روحانی پہلو کو اجاگر کر رہی ہوگی، جو ایک کامیاب مصنف کا خواب ہو تا ہے۔ کشمیر کے خوبصورت اور سر سبز پہاڑوں کے سائے میں بیٹھ   کرایک پر اسرار موحول میں حکمرانی کے امور سے لیکر روحانیت جیسے نازک معاملات پر غور و فکر بلا شبہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ پاکستان میں سرکاری ملازمتوں کے دوران یا بعد ازاں کتابیں لکھنے کا عام رواج ہے۔ اس طرح کے مصنفین کی ایک طویل فہرست ہے۔ کچھ نے مارشل لا کے دوران طبع آزمائی کی ہے۔ کچھ ایسی کوششیں خود مارشل لا والوں کی بھی ہیں، جن میں سے اہم تارِیخی کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *