پاکستان کے رواں مالی سال 2025-26 کے دفاعی بجٹ میں نمایاں اضافے سے ملک بھر میں تشویش کی لہر جاری ہے ۔۔۔ایک جانب معاشی دباؤ، بڑھتی مہنگائی اور ترقیاتی منصوبوں کی عدم تکمیل یا سست روی قوم کا مقدر بنی ہوئی ہے، وہیں دوسری جانب دفاعی اخراجات میں ہوشربا اضافہ عوام کے لیے ایک نیا امتحان بن کر سامنے آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ خطے کی بدلتی صورتحال اور حالیہ بھارتی فوجی حملہ اور جنگی سرگرمیوں کا براہ راست ردعمل ہے، جسے سرکاری سطح پر “ناگزیر دفاعی ضرورت” قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، گلی کوچوں میں یہ سوال شدت اختیار کر چکا ہے کہ کیا قومی سلامتی کے نام پر غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے پاکستانی عوام کی ترقی فلاح و بہبود کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے؟
موجودہ بجٹ کے اعداد و شمار پاکستان کی عوام کو حقیقت کا آئنہ دکھا رہے ہیں کہ انکے ساتھ معیشت کی تباہی کا طوفان کیا کرنے والا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارت یہ جان چکا ہے کہ پاکستان کی عوام کو فوج کی طاقت کے نیچے رکھا جائے فوج کے اس بیانئے کو مزید طاقتور کیا جائے “کہ پاک فوج ہی پاکستان کی بقا کی ضامن ہے ورنہ بھارت کب کا پاکستان کو ہڑپ کرچکا ہوتا”۔۔۔۔ بھارت جانتا ہے اس کے جنگی جارحانہ ایکشن سے فوج کے بیانئے کو تقویت ملے گی۔جرنیلی سیاست میں اضافہ ہوگا۔ بھارت کے جنگی عزائم روکنے کے لئے پاکستان اپنے بھوکے ننگے عوام کا پیٹ کاٹ کر دفاعی بجٹ میں اضافہ کریں گے جس سے پاکستان میں جمہوری سیاسی سماجی معاشی ڈھانچہ جو پہلی ہے کمزور ہے اسے مزید چوٹ لگے گی اور یوں ملک معاشی بحران عدم استحکام اور تباہی کی طرف چلا جائے۔ بھارت کو علم ہے کہ یہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے اسے دو پٹاخے تین چار ڈرون آئے دن چلانے پڑیں گے پاکستان میں بھارت کی طرف سے جنگی ماحول مستقل قائم رکھنا پڑے گا یوں فوج کو اپنا بجٹ بڑھانے کا جواز ملتا رہے گا اور فوج کی ریاست حکومت اور جمہوریت پر گرفت بھی مضبوط رہےگی جس پاکستانیعوام بھوک ننگ اور معاشی تباہی کی نذر ہوجائیں گی۔
عرب نیوز کی جانب سے جاری کردہ پاکستان کے وفاقی بجٹ 2025 ، کے 62 بلین ڈالر (تقریباً) کے بریک ڈاؤن کے مطابق، دفاعی بجٹ کل بجٹ کا 7.2 فیصد ہے، جو کہ ایک بڑی تشویش کی بات ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کا حصہ سب سے زیادہ 46.9 فیصد ہے، جو ملک کی مالی صورتحال کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔
ڈان بزنس کی رپورٹ کے مطابق، دفاعی بجٹ 2,550 بلین روپے تک پہنچ گیا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 20 فیصد سے زائد کا اضافہ ہے۔ یہ اضافہ اس وقت ہوا ہے جب ملک کا ایک بڑا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے صحت، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
ان اعداد و شمار سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ بجٹ میں حکومت کی ترجیحات کیا ہیں۔ کل بجٹ مختص میں سب سے بڑا حصہ بھاری سود پر اُٹھایا ہوا قرضہ کی رقم ہے جو کہ 8,207 بلین روپے ہے۔ دفاعی امور اور خدمات کے لیے 2,550 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں، پنشن کے لیے 1,955 بلین روپے، صوبوں اور دیگر کو گرانٹس اور ٹرانسفرز کے لیے 1,928 بلین روپے، اور سبسڈی کے لیے 1,186 بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ ترقیاتی اخراجات کے لیے صرف 1,287 بلین روپے مختص کیے گئے ہیں، جبکہ سول حکومت اور ہنگامی انتظام کے لیے 1,360 بلین روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں: دفاع اور قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ ترقیاتی اور سماجی شعبوں پر براہ راست پڑ رہا ہے۔ معاشی ماہرین متنبہ کر رہے ہیں کہ دفاع پر بڑھتا خرچ ترقیاتی شعبوں سے وسائل کھینچ لے گا، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا عفریت مزید منہ کھولے گا، بے روزگاری بڑھے گی، اور سماجی خدمات کا دائرہ مزید سکڑ جائے گا۔ایسے حالات میں عوام کی معاشی بگڑتی ہوئی حالت اور قومی سلامتی کا مفہوم ایک بار پھر سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ صورتحال ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے کہ کیا خطے میں پاک بھارت دشمنی کا سب سے گہرا اثر عام پاکستانی پر پڑا ہے کسان مزدور اور ملازم طبقے پر ہوا ہے جو آج بنیادی انسانی حقو روزی روٹی ادویات صحت تعلیم ترقی روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں کسی بھی حکومت کے پاس عوام کے لئے نہ کوئی بجٹ ہے نہ رقم ہے کہ وہ عوام کی ترقی اور معیشت کی گارنٹی دے سکیں۔ کیا ان سب حالات میں نوجوان نسل بے روزگار ہوکر جرائم کا ارتکاب نہیں کرے گی؟ کیا فوج کادفاعی بجٹ بڑھانے سے معاشی دباؤ کا براہراست شکار عوام نہیں ہیں جو درحقیقت بھارت کی جنگی مشقوں کی قیمت ادا کر رہی ہیں؟
سیدھا سا سوال ہے کہ جب اسکول، ہسپتال اور روزگار کے ترقیاتی منصوبے فوجی بجٹ کے سائے میں دم توڑتے دکھائی دیں، تو پھر سلامتی کا یہ تصور کس کی حفاظت کر رہا ہے؟
حکومت کی فوجی دفاعی ترجیحات پر عوامی مکالمہ اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ بحث اب صرف پالیسی سازوں کے دفاتر تک محدود نہیں رہنی چاہیے، بلکہ ہر چائے کی دکان، گھر اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہونی چاہیے جہاں صبح شام مزدور کسانمحنت کش پاکستانی اپنی روزمرہ کی مشکلات مصیبتوں کے حالات کی کہانی سناتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ ملک کو دفاع کی ضرورت ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اس دفاعی اخراجات نے آج عوام کو کہاں لاکھڑا کیا ہے ہم نے فوجی آمریتوں، جرنیلوں کی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازشوں کے سوا اور کیا حاصل کیا ہے؟ جو دفاعی اخراجات عوام اور ریاستکے بنیادی وجود کے تحفظ کو ہی خطرے میں ڈال دیں اور اسکے بدلے ملک میں فوجی آمریت کو تقویت ملے تو یہ ریاست عوام کی نہیں بلکہ فوجیوں جرنیلوں کی گیریژن سٹیٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں صحت اور تعلیم کا بجٹ دفاعی اخراجات سے کہیں کم ہو وہاں “عوامی ریاست” اور جمہوریت کا مفہوم کیا باقی رہ جاتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب قوم کو درکار ہے۔
♣