ولید بابر ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں محمد نوازشریف کو پانامہ کیس میں بر طرف کیے جانے پر میاں محمد نوازشریف صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے ہیں۔ پہلے مری پھر بذریعہ جی ٹی روڑ لاہور سفر اور اب حالیہ پریس کانفرنس میں میاں صاحب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ “مجھے کیوں نکالا“۔
میاں صاحب کے بقول انھیں ملک میں سیاسی استحکام، سول بالادستی اور جمہوری جدوجہد کی پاداش میں سزا دی گی ہے اور قیام پاکستان سے اب تک یعنی مولوی تمیز الدین سے لیکر نوازشریف تک سول بالادستی کا مطالبہ کرنے، ووٹ کے تقدس پامال نہ کرنے اور منتخب نمائندوں کے ذریعے گورنمنٹ چلانے پر قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
میاں صاحب کے متواتر سول بالادستی کے مطابے سے متاثر ہو کر ہم نے سوچا کے میاں صاحب کی پارٹی کی گورنمنٹ والے ایسے علاقوں کی طرف توجہ دلوائی جائے جو سب سے زیادہ سول بالادستی سے محروم ہیں اور جہاں سیاسی بالادستی قائم کرنے سے پورےملک میں بالادستی قائم ہو جائے گی۔
گلگت بلتستان 28 ہزار مربع میل رقبہ پرمشتمل تقریبا 20 لاکھ آبادی والا دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں سال میں دو بار 14 اگست اور یکم نومبر کو آزادی کا جشن منایا جاتا ہے۔گلگت بلتستان 1947 تک کشمیر کا تیسرا صوبہ تھا۔ 1947 سے لیکر آج تک گلگت بلتستان کا سیاسی انتظامی سفر مختلف مراحل سے اس سطح تک پہنچا ہے۔یکم نومبر کو بننے والی حکومت کو پاکستان نے 17 نومبر کو ختم کر کہ سردار عالم کو پہلا پولیٹکل ایجنٹ نامزدکرتے ہوئے تمام اختیارات اس کے سپرد کر دیے اور گلگت بلتستان فرنٹیئر کریمز ریگولیشن یعنی ایف سی آر قانون کے اطلاق سے تمام تر سیاسی وانتظامی اموار اسی کے تحت چلائے جانے لگے۔
یہ سلسلہ 1970 تک جاری رہا اور پھر گلگت ،بلتستان ، ہنزہ اور نگر(پرنسلی اسٹیٹس) کو ملا کر ایک انتظامی یونٹ گلگت بلتستان ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا تو پرنسلی اسٹیٹس کو ختم کر کے شمالی علاقہ جات ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے 18 ممبران برائے راست منتخب ہوتے تھے اور سربراہ ایک غیر مقامی کمشنر ہوتا تھا۔ ضیاء الحق نے مجلس شوری میں نمائندگی کا وعدہ تو کیا مگر دو ممبر بطور مبصر مجلس شوری میں شامل کیے اور یوں نوے(90) دنوں میں الیکشن کروانے سمیت کوئی عہد ایفا نہ کیا۔
سنہ 1988 میں بینظیر بھٹو نے شمالی علاقہ جات کونسل بنائی جسے اپنے دوسرے دور حکومت 1994 میں لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت قانون ساز کونسل میں تبدیل کیا گیا۔اسمبلی کا نمائندہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو جبکہ وزیراموار کشمیر و شمالی علاقہ جات(غیرمقامی) چیف ایگزیکٹیو مقرر کیا گیا۔کونسل کے زیر اختیار محدود امور تھے۔2009 میں پیپلزپارٹی حکومت نے ایک بارپھر گلگت بلتستان ایمپاور منٹ اینڈ سیلف گورنمنٹ آرڈر 2009 بذریعہ صدارتی حکم نامہ جاری کر کہ کونسل کو قانون ساز اسمبلی میں تبدیل کردیا ۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے اوپر ایک ادارہ گلگت بلتستان کونسل رکھا گیا ہے جسکے ممبران کی تعداد 15 ہے جن میں سے 6 ممبران گلگت اسمبلی سے منتخب ہوتے ہیں جبکہ باقی ممبران پاکستان کی اسمبلی سے منتخب ہوتے ہیں ۔سیاحت، کان کنی، پانی، توانائی سمیت تمام اہم اموار کونسل کے سپرد ہیں ۔گلگت بلتستان اسمبلی کی موجودہ نشستوں کی تعداد 33 ہے جسکا کل بجٹ 49 ارب جس میں سے 15 ارب ترقیاتی جبکہ 33 ارب غیر ترقیاتی بجٹ ہے۔فی کس ممبر اسمبلی ترقیاتی بجٹ 8 کروڑ سالانہ ہے۔ایک اندازے کےمطابق آئی جی پولیس، اڈیٹر جنرل،پوسٹ ماسٹر جنرل،چیف سکریٹری، سکریٹری ہیلتھ اور دیگر لینٹ آفسیران سمیت %65 سکریٹری نان لوکل (غیرمقامی) ہیں اس کے ساتھ تمام تر ریاستی اداروں بشمول عدلیہ میں غیر مقامی افراد کو تعینات کیا گیا ہے۔
گلگت بلتستان کے تمام سیاسی، انتظامی اور عدالتی امور کونسل کے ذریعے چلائے جاتے ہیں جو کہ غیر جمہوری ادارہ ہے۔ پاکستانی اسمبلی سے کونسل کے لیے منتخب ہونے والے ممبران کا گلگت بلتستان کے ساتھ کوئی واجبی تعلق بھی نہ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ گلگت بلتستان کے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے تمام اقدامات غیر قانونی ہوتے ہیں ۔گلگت بلتستان کا کوئی بھی بڑا ترقیاتی کام کونسل کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں یوں کونسل اپنے من پسند بندوں کو نواز کر خوب مال کماتے ہوئے گلگت بلتستان میں کرپشن، سفارش،رشوت اور دیگر سیاسی، سماجی اور انتظامی برائیوں کو پروان چڑھا رہی ہے۔
کونسل کے ساتھ ساتھ فوج کا گلگت بلتستان کے سیاسی وانتظامی امور پر سخت کنٹرول ہے۔ فوج کی مرضی و منشا کے بغیر کوئی ادارہ کام نہ کر سکتا ہے بلکہ اب فوج گلگت بلتستان کی حکومتیں بنانے بگاڑنے میں بنیادی ادارہ کی حثیت رکھتی ہے۔تمام تر سیاسی امور فوج کی مشاورت بلکہ ہدایت پر چلائے جاتےہیں اور وزیراعلیٰ اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ناموں کی منظوری تک فوج کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ۔صرف سیاسی وانتظامی امور ہی نہیں گلگت بلتستان کے معاشی اموار پر فوج کا مکمل کنٹرول ہے۔
شہر کی تمام اہم ، مہنگی اور خوبصورت اراضی پر فوج کا قبضہ ہے اور فوج زبردستی سرکاری اور پرائیویٹ قیمتی زمین ہڑپ کر جاتی ہے۔ترقیاتی منصوبہ جات یا تو براہ راست فوج کی نگرانی میں چل رہے ہیں یا اس میں بڑا حصہ ہوتا ہے۔اس سب کے علاوہ کمائی کا ایک بڑا ذریعہ سیاسی قیادت اور حکومت کی بلیک میلنگ ہے مثلا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی کی جھوٹی خبر سے اربوں روپے ہتھیا لیے جاتے ہیں ۔اس وقت گلگت بلتستان کے وسائل کی سب سے بڑا فائدہ فوج حاصل کر رہی ہے جبکہ گالیاں سیاسی قیادت کو کھانی پڑتی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی مداخلت اور فوجی بالادستی کی داستان کوئی نئی نہیں ہے۔ اس کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں جن پر کم توجہ دی گئی ہے۔کوئی بھی سیاسی نظام معیشت کا مرہون منت ہوتا ہے اور جس کا معیشت پر کنٹرول ہو گا سیاسی نظام بھی اسی کے تابع ہو گا۔پاکستان میں جاگیرداری کی سب سے بڑی نمائندہ قوت فوج ہے جبکہ دوسری طرف سرمایہ داری کی نمائندہ قوت بھی فوج ہی ہے اور ملک کےاکتہر (71 ) صنعتی یونٹ برائے راست فوج کی ملکیت ہیں۔
اب اگر سیاسی طور پر کنٹرول یا بالادستی چاہئے تو معاشی کنٹرول حاصل کرنا ہو گا اور معاشی کنٹرول کے لئے ضروری ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کی معاشی سرگرمیوں کو روکا بلکہ بند کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے اہم آغاز گلگت بلتستان اور کشمیر سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ گلگت بلتستان اور کشمیر میں دو تہائی اکثریت نواز لیگ کی ہے اور سیاسی نظام میں تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری کی بھی ضرورت نہیں ۔جب گلگت بلتستان میں غیر جمہوری قوتوں کا کنٹرول ختم ہو گا تو اس کا براہ راست اثر پاکستان کے اندرونی حالات پر پڑے گا اور غیر جمہوری قوتیں سیاسی قیادت کے زیرنگیں آجائیں گی۔
اس کے ساتھ میاں صاحب اور حکمران جماعت کو چائیے کہ گلگت بلتستان جو تاریخی طور پر 1947 تک ریاست جموں وکشمیر کا حصہ رہا ہے کو کشمیر کے ساتھ ملا کر ایک انتظامی یونٹ کا قیام عمل میں لایا جائے۔گلگت بلتستان اور کشمیر کے اوپر مسلط گلگت اور کشمیر کونسل کو ختم کرتے ہوئے غلامی کی دستاویزات ایکٹ 1974 اور آرڈر 2009 منسوخ کر کے مقامی افراد کو آئین ساز اسمبلی کے انتخاب کا موقع فراہم کیاجائے۔ گلگت مظفرآباد کے درمیان تاریخی راستوں کو کھول کر لوگوں کو آپس میں ملنے دیا جائے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں معطل کیا گیا اسٹیٹس سبجیکٹ رول بحال کرتے ہوئے فرقہ واریت کا مکمل خاتمہ کیا جائے جو کہ ترقیاتی کاموں میں تیزی سے ہی ممکن ہے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر کو اندرونی خودمختاری دیتے ہوئے پہلے مرحلے پر فوج کا کردار کم جبکہ بتدریج فوج کو واپس بلاتے ہوئے گلگت بلتستان اور کشمیر پر مشتمل حکومت کو بیرونی دنیا کے سامنے اپنا کیس خود پیش کرنے کا موقع فراہم کیا جائے جس کی زیادہ پذیرائی ہو گی۔ فوج کی واپسی پر انڈیا سے نو وار پیکٹ (امن معاہدہ)کرتے ہوئے فوج کا زیادہ بجٹ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کریں تو محض ایک سال میں لوگوں کی زندگیاں بدل جائیں گی۔ ترقیاتی کاموں میں اضافے، معاشی اموار پر کنٹرول، زیر قبضہ علاقوں کی آزادی، جنگ و جدل سے علیحدگی کے بغیر سول بالادستی کی خواہش محض ایک دیوانے کا خواب ہی ہو گا۔
♦