علی احمد جان
نومبر 1987کے غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات میں کراچی سے ایم کیو ایم کی جیت سب سے بڑی خبر تھی کیونکہ اس سے پہلے ایم کیو ایم کا نام صرف شہر کی دیواروں، کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی دیوراوں پر ہی لکھا ہوا تھا۔ ایم کیو ایم صرف اس وقت خبروں میں آتی تھی جب شہر میں ہنگامہ ہو یا اور کرفیو لگے۔ شہر میں یہ ہنگامے یہاں صوبہ سرحد اور بلوچستان سے آئے پشتونوں اور اردو بولنے والے مہاجروں کے بیچ میں ہوتے تھے جو بہت زیادہ پرتشدد ہوا کرتے تھے۔
کراچی پڑھے لکھے متوسط طبقے کا شہر ہے جہاں کی اکثریت دائیں بازو کی سیاست سے وابستہ تھی۔یہاں سے پروفیسر غفور، شاہ احمد نورانی ، محمد حسن محنتی اور سید منور حسن جیسے لوگ دائیں بازو کی سیاست میں ملک بھر میں جانے مانے نام تھے۔ 1987سے قبل جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ بلدیہ اعظمیٰ کے میئر عبدالستار افغانی کافی زیادہ مقبول تھے۔ ضیا ٔلحق کے مارشل لاء کے آخری سالوں میں بے نظیر بھٹو جب واپس ٓگئی تو کراچی شہر میں اس کا فقید المثال استقبال ہوا اور شہر کے محلوں اور گلیوں سے بے نظیر بھٹو زندہ باد اور جئے بھٹو کے نعرے گونجتے تھے۔ ان حالات میں کسی امیدوار کے لئے پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی کی حمایت اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔
صرف سال قبل ہی نشتر پارک میں ایک جلسے سے اپنی عوامی سیاست کا آغاز کرنے والی ایم کیو ایم کے بارے میں تاثر یہ تھا یہ منچلے نوجوانوں کا جمگٹھا ہے جو دنگے تو کر سکتے ہیں لیکن انتخابات نہیں جیت سکتے۔دوسال قبل ایک طالبہ بشریٰ زیدی کی ایک ٹریفک حادثے میں ہلاکت کے واقعے پر شہر میں پھوٹنے والے فسادات کے ساتھ کراچی میں ایم کیو ایم کی اصل سیاست کا آغاز ہوا تھا جب الطاف حسین نے اردو بولنے والوں سے کہا کہ وہ اسلحہ خریدیں۔
اس کے بعد سہراب گوٹھ، علی گڑھ کالونی اور حیدر آباد پکا قلعہ کے واقعات پرمہاجر آبادی کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ آئے دن شہر میں کرفیو لگتا اور کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتا جس کی وجہ سے کاروبار اور صنعتوں کا شہر سے انخلاء بھی شروع ہوگیا۔ ابتدائی دنوں میں شہر میں بد امنی کی وجہ سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو کاروباری طبقے اور سفید پوش علاقوں میں پزیرائی نہ مل سکی تھی مگر اردو بولنے والے متوسط اور غریب طبقے میں ان کو بے پناہ حمایت حاصل تھی۔
سنہ 1987 کے بلدیاتی انتخابات ایم کیو ایم کے لئے یکطرفہ ثابت ہوئے۔ الطاف حسین نے ان انتخابات میں نوجوانوں کو کھڑا کیا تھا جو واضح اکثریت میں جیت چکے تھے۔ الطاف حسین نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے مئیر کے لئے ایک نوجوان ڈاکٹر فاروق ستار کا انتخاب کیا جو شہر کی کاروباری میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ جس دن نو منتخب کونسلر حلف لینے آئے تو کراچی کے بندر روڑ پر ایم کیو ایم کا پہلا بھر پور شو تھا۔ شہر بھر سے ان کے حمایت یافتہ جیتے امیدوار اپنے حامیوں کے ساتھ جلوس کی شکل میں جئے مہاجر اور جئے الطاف حسین کے نعروں کے ساتھ کراچی مٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ہال پہنچے تو یہاں سے الطاف حسین کی انتخابی سیاست کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد سیاسی ، سماجی اور کاروباری حلقوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ الطاف حسین اپنے جارحانہ انداز سیاست چھوڑ کر اب سنجیدہ سیاست کا آغاز کریں گے۔عزیز آباد کے ایک سو بیس گز کے مکان میں رہنے والے الطاف حسین کی ڈیفنس اور کلفٹن کی کوٹھیوں میں آؤ بھگت ہونے لگی جہاں بیگم سلمیٰ احمد جیسی کاروباری اور سماجی شخصیات نے ان کی دعوتیں کیں اور شہر کے روساء اور امراء سے ان کا تعارف ہوا۔ الطاف حسین نے شہر کے امیر طبقے کے ساتھ اپنے میل جول کو آنے والے وقتوں میں اپنی سیاسی جدو جہد کے لئے استعمال کیا جس کی وجہ سے اس کی جماعت میں اب مالی وسائل کی فراہمی میں کوئی کمی نہ آئی۔
بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد اگلے سال 1988 کے عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم نےسندھ کے شہری علاقوں سے حسب توقع کامیابی حاصل کی۔ وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تو بے نظیر بھٹو نے ایم کیو ایم کو اقتدار میں شریک کر لیا۔ صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اتحاد میں دراڑیں پڑ گئیں۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران سندھ میں مہاجروں اور سندھیوں کے مابین فسادات ہوئے جس میں بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی ہوئی۔ کراچی شہر میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مغویوں کا تبادلہ، بوری بند لاشیں اور تشدد کی دیگر بد ترین مثالیں اس زمانے کے اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ایم کیو ایم نےپیپلز پارٹی کے خلاف اب کی بار نواز شریف کےزیر قیادت ننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کی حمایت کی ۔ 1990کے انتخابات میں بھی ایم کیو ایم تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی اور نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوگئی۔ اب شہر میں اغوا برائے تاوان ، ڈکیتیوں اور بھتہ خوری کا رواج عام ہوگیا تھا اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے تھے۔1992میں ایم کیو ایم کے خلاف فوجی اپریشن ہوا جس سے پہلے ہی الطاف حسین علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تھے جو اس کے بعد واپس نہ آئے۔ اس اپریشن کو اس کے بعد پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں بھی جاری رکھا گیا ۔
سنہ 1999 میں جب مشرف نے نواز شریف کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو ابتدائی دنوں میں وہ ایم کیو ایم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اس کو بھی اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے ان کی حمایت حاصل کرنا پڑی ۔ مشرف کی حکومت میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد ایم کیو ایم کی سیاست کے دوسرے دور کا آغاز ہو گیا۔ایم کیو ایم ایک بار پھر کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں حکمران جماعت کے علاوہ، وفاق اور سندھ کے صوبے میں بھی شریک اقتدار رہی۔ ایم کیو ایم مشرف کے دور میں سندھ کے شہری علاقوں سے نکل کر پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پہنچ گئی ۔مگرسیاسی کامیابیوں کا یہ سفر بھی انتہائی مختصر ثابت ہو ا جب ایک دفعہ پھر نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں اس کے خلاف رینجرز نے اپریشن شروع کیا۔
ایم کیو ایم کے سیاسی سفر نے ملک بالخصوص کراچی کی سیاست میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ کراچی سے مذہبی تفرقہ بازی کسی حد تک ختم ہوگئی مگر لسانی تقسیم کی دراڑ گہرائی کی انتہا تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کا کوئی شہر کوئی قصبہ مشکل سے ہی ملے گا جہاں کراچی کی لسانی سیاست کا اثر نہ پڑا ہو اورکراچی سے کسی کی لاش نہ آئی ہو۔ کراچی اور حیدر آباد میں کوئی گھرانہ مشکل سے ملے گا جو لسانی تعصب کا شکار نہ ہوا ہو ۔
پاکستان جس خطے میں قائم ہوا وہاں کے مقامی لوگ تعلیم اور دیگر سماجی و معاشی شعبوں میں اتنی زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھے۔ 1947 میں جب مشرقی ہندوستان سے پڑھے لکھے لوگ ہجرت کرکے آگئے تو ان کے لئے یہاں بہتر مواقع موجود تھے۔ پاکستان میں کاروبار، ہنر، افسر شاہی، تعلیم اور فنون لطیفہ سمیت ہر شعبے میں اردو بولنے والے نمایاں رہے۔ ہجرت کرکے آنے والوں کی ایک کثیر تعداد کراچی میں آباد ہوئی جہاں سے ہجرت کرنے والوں کے لئے الگ پہچان کے ساتھ ایم کیو ایم کی سیاست کی ابتدا ہوئی۔ کراچی کا عروس البلاد اپنے ثقافتی تنوع ، وسیع القلبی اور علم و ہنر کی بدولت ملک بھر کے لوگوں کی امیدوں کا مرکز تھا مگر آ ج اس سیاست کے چار دہائیوں کے بعد یہ شہر بے مثال اب دنیا کے غیر محفوظ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔
پاکستان اپنے وجود میں آنے کے ستر سال بعد تمام تر مشکلات کے باوجود آج زیادہ تعلیم یافتہ اورہنر مند ہے جس کی چالیس فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کا سیاست پر نکتہ نظر بہت مختلف ہے ۔ نئی نسل پرانے سیاسی نظریات کے بجائے قابل عمل باتوں کے ساتھ بہتر نظام، شفافیت، میرٹ اور بہتر روزگار کے مواقع پر یقین رکھتی ہے ۔
اگرایم کیو ایم نے ایک شفاف اور ایماندار طرز سیاست کے ساتھ کراچی شہر کو دوبارہ پاکستان کے لئے امیدوں کا مرکز اور ہ عرس البلاد بنا دیا تو پورے ملک کےنوجوان ان کی بات سننے کو تیار ہونگے ۔ تعجب نہیں اگر پشاور والے ڈیرہ اسمٰعیل خان کے سکونتی اور لاہور کے رہائشی ، پشتو زبان سے نابلد عمران خان، ذات کے بلوچ اور سندھ کے رہائشی آصف علی زرداری، کشمیری النسل لاہور کے سکونتی نواز شریف کے سر پر تاج رکھ سکتے ہیں تو کراچی کے مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار کے سر پر کیوں نہیں ۔
♦