ذوالفقار علی زلفی
اسلام آباد میں لبیک یارسول اللہ کے دھرنے کے حوالے سے جب پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر نوید باجوہ نے فرمایا کہ “ہم اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرسکتے” تو اس پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا ـ اس بیان پر مختلف پہلوؤں سے بحث کی گئی البتہ اکثریتی رجحان کے مطابق اپنے لوگ سے مراد پنجابی اور غیروں سے مراد دیگر ہیں ـ اس اکثریتی رجحان نے بلوچستان، سندھ ، پختونخواہ اور فاٹا میں جاری فوجی آپریشنز کی جانب توجہ دلا کر پنجاب کو اپنے لوگ قرار دیا ـ
پاکستانی فوج کی سیاسی، اقتصادی اور افرادی قوت کا مرکز چونکہ پنجاب ہے اس لئے بظاہر یہ اکثریتی رائے درست نظر آتی ہے لیکن اگر فوج کی پالیسیوں، فیصلوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عمل و ردعمل کا عمیق مشاہدہ کیا جائے تو معاملہ اس عمومی رجحان کے برعکس نظر آتا ہے ـ “اپنے لوگ” عسکری اسٹبلشمنٹ کے پیوستہ مادی مفادات سے پیدا ہوتے ہیں اور مفادات کی تبدیلی سے مرجاتے ہیں ـ
بلوچ کو غیریت کی شکایت نسبتاً زیادہ ہے ـ اگر من حیث القوم بلوچ اور عسکری اسٹبلشمنٹ کے تعلقات کو دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ تعلقات مخاصمانہ ہیں لیکن اس سے یہ سمجھ لینا تمام بلوچ فوج کے نزدیک “اپنے لوگ” نہیں ہیں درست نہ ہوگا ـ
اس وقت عسکری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مشترکہ مفادات کی لڑی میں پروئے ہوئے متعدد بلوچ سردار نجی مسلح لشکر پالے ہوئے ہیں ـ یہ نجی آرمی بلوچ آزادی پسندوں کے اغوا و قتل کے علاوہ متعدد مزموم کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں حتی کہ ڈرگ اسمگلنگ ، بدامنی میں بھی ان کا حصہ بقدرِ جثہ ثابت ہے جس کی نشاندہی سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ متعدد فورمز پر کرچکے ہیں ـ
دلچسپ بات یہ ہے خود ڈاکٹر مالک بلوچ پر بھی بعض سیاسی حلقے تشدد میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں ـ ان پرائیوٹ لشکروں کے اراکین و مالکین کے نقل و حرکت پر نہ کوئی پابندی عائد ہے اور نہ ہی تاحال جاری فوجی آپریشنز کے دوران ان کی نکسیر پھوٹی ـ اسی طرح بلوچستان میں سرگرم فرقہ وارانہ تنظیموں کو بھی عسکری اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے گوکہ عوامی سطح پر اس کا کبھی اقرار نہیں کیا جاتا ـ یہ سب فوجی لاڈلے واضح بلوچ شناخت رکھتے ہیں یعنی وہ بلوچ جو “اپنے لوگوں” میں شمار ہوتے ہیں ـ
کراچی کے اردو اسپیکنگ موجودہ رینجرز آپریشن اور ماضی کے پولیس آپریشن کو سامنے رکھ کر اردو بولنے والی آبادی کو “اپنے لوگوں” کی فہرست سے باہر گردانتے ہیں ـ یہاں بھی دیکھا گیا ہے صورتحال اس کے برعکس ہے, پرویز مشرف کے دور کا سیاہ ترین دن 12 مئی اس خیال کی مادی نفی کے لئے کافی ہے ـ
اس دن وکلا تحریک کے درجنوں ہمدرد جن میں پنجابی بھی شامل تھے کراچی کی سڑکوں پر چن چن کر مارے گئے اور اس قتل و غارت گری کے پیچھے اس وقت کی عسکری اسٹبلشمنٹ کے “اپنے لوگ” تھے ـ مہاجر شناخت کی حامل سیاسی جماعت نے نہ صرف پراکسی کا کردار نبھایا بلکہ اس سے کافی معاشی و سیاسی فائدے بھی سمیٹے ـ
پنجابیوں کو عموماً دائمی “اپنے لوگوں” میں گنا جاتا ہے ـ فوجی قوت کا سرچشمہ ہونے کے باعث اس خیال کو وسیع پیمانے پر قبول بھی کیا جاتا ہے ـ پاکستانی فوج کے ادارہ جاتی مفادات کے جائزے اس خیال کو مکمل طور پر جھٹلاتے ہیں ـ اس کی سب سے بڑی مثال اوکاڑہ کے وہ کسان ہیں جو عرصہ دراز سے پنجابی ہونے کے باوجود بدترین فوجی تشدد و استحصال کا شکار ہیں ـ ان کے علاوہ گزشتہ سال پنجابی بلاگرز کا اغوا ، وکلا تحریک کے دوران پنجابی وکلا پر بے رحم تشدد اور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ وغیرہ بھی اس عمومی تاثر کو رد کرتے ہیں ـ
پاکستان میں پنجاب کی حاکمیت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں لیکن یہ دراصل وہ پنجاب ہے جو پنجابی معاشرے میں بالادست حیثیت رکھتا ہے ـ اس بالادست پنجابی طبقے کے مفادات فوج کے ساتھ مشترک ہیں جبکہ فوج کی ہیئت ترکیبی میں بھی پنجابی بالادستی ثابت ہے ـ بالادست پنجابی طبقے کو پنجابی شہری مڈل کلاس کی بھی حمایت حاصل ہے کیونکہ شہری مڈل کلاس طبقے کی شدید خواہش ہے کہ وہ بھی کسی نہ کسی طرح حکمران کلب کا حصہ بن سکے ـ
مڈل کلاس موقع پرست شہری پنجابی کو بساں اوقات اس کا بھرپور ثمر بھی ملتا ہے دوسری جانب سندھی، بلوچ، سرائیکی اور کسی حد تک مہاجر و پختون مڈل کلاس کے لئے مواقع انتہائی کم ہیں ـ نتیجتاً وہ پنجابی کے خلاف ایک محاذ کھول لیتے ہیں جس کی زد میں وہ محنت کش پنجابی بھی آجاتا ہے جو بیچارہ “اپنوں” کے ہاتھوں زندہ درگور ہے ـ
فوج کے “اپنے لوگ” کوئی مخصوص زبان نہیں بولتے اس لئے زبان یا قومی تعلق کے ذریعے انہیں شناخت کرنا ممکن نہیں ـ فوج کے اپنے لوگوں کو مشترکہ مفادات کی روشنی میں تلاش کیا جاسکتا ہے اور اسی معیار کو سامنے رکھ کر تلاش کیا جانا چاہیے ـ
♦