افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان نے پاکستان کو ایسے ناقابل تردید شواہدمہیا کیے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کابل میں حالیہ حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان کی سرزمین پر ہوئی ہے۔کابل بم دھماکوں سےافغان عوام سخت غم و غصے کا شکار ہیں اور وہ حکومت کو مورود الزام ٹھہراتے ہیں جو ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ محمد معصوم ، جنہوں نے حالیہ حملوں کے بعد پاکستان کا اچانک دورہ کیا تھا،نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ حملوں کی منصوبہ سرحد پار کی گئی تھے۔
ہم نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان پر حملہ کرنے والوں کو ہمارے حوالے کیا جائے ۔ یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کے بعد کہی۔
افغان وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ہم نے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں حکومت پاکستان کو سوالات کی فہرست دی ہے اور کہاہے طالبان رہنماؤں کے خلاف کاروائی کرنے اور مبینہ ٹریننگ سنٹرز کو بندکرنے کا کہا گیا ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے حالیہ کابل حملوں میں چند حملہ آوروں کو زندہ گرفتار کیا گیا ہے اور ان سے حاصل شدہ معلومات حکومت پاکستان سے شئیر کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آوروں کی تربیت بلوچستان کے چمن کے علاقوں میں موجود مدرسوں میں کی گئی تھی۔
اس سے پہلے اقوام متحدہ میں افغان سفیر کا کہنا تھا کہ 20 جنوری کو کابل کے انٹرکانٹینٹل ہوٹل میں مارے گئے ایک حملہ آور کے والد نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے بچے کو چمن میں ایک مدرسے میں تربیت دی گئی تھی۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق پاکستانی حکام نے ان شواہد کی روشنی میں عملی اقدام اٹھانے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے کہا ہے کہ محمد معصوم کی دی گئی اطلاع کی تصدیق کی جارہی ہے۔
یادر ہے کہ پچھلے سال کے آغاز کے فوراً بعد کابل بم دھماکوں سے لرز اٹھا تھا جس میں چار سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ دار ی بھی طالبان نے قبول کی تھی اور افغان حکومت کے مطابق ان حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔
دوسری طرف امریکہ نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ امریکی فیلڈ کمانڈرز کو پاکستان کے اندردہشت گردوں کی مبینہ پناہ گاہیں ختم کرنے کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ واشنگٹن حکومت کی طرف سے اس طرح کا کوئی اعلان کیا گیا ہے۔امریکا طالبان کے خلاف ڈرون طیارے تو استعمال کرتا رہا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ واشنگٹن کے عسکری فیلڈ کمانڈروں کو پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے۔
پاکستان میں کئی حلقے اس اعلان کو واشنگٹن کی طرف سے دباؤ ڈالنے کا ایک نیا طریقہ قرار دے رہے ہیں لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اسلام آباد کو اس امریکی اعلان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے یہ مزاحمت اعلانِ جنگ کے مترادف ہو گی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’امریکا ایک عالمی طاقت ہے۔ اگر اس نے واقعی سرحد پار کی اور پاکستان میں داخل ہوا، تو پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو گا کہ وہ ایسی کسی در اندازی کو کیسے روکے۔ یہ ممکن ہے کہ امریکا ایسے اعلانات کو صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرے لیکن پھر بھی پاکستان کو ایسی باتو ں کو بہت سنجیدگی سے لینا ہو گا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر امان میمن نے کہا، ’’پاکستان کو بہت پہلے ہی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے تھا۔ اچھے اور برے طالبان کی تمیز ختم کرنا چاہیے تھی۔ طالبا ن آئے دن خطرناک حملے کر رہے ہیں۔ اگر ان کے حملوں میں کبھی کوئی بڑا امریکی عہدیدار ہلاک ہوگیا، تو پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ بھارت اور افغانستان امریکی غصے سے فائدہ اٹھا کر اسلام آباد کے خلاف زہر اگلیں گے، جس کے نتائج پاکستان کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اگر پاکستان کا افغان طالبان پر کوئی اثر و رسوخ ہے، تو اسلام آباد کو انہیں فوراﹰ مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے‘‘۔
DW/Dawn/News Desk
♦