آمنہ اختر۔ سویڈن
آٹھ مارچ کا دن عورتوں کے حقوق کی آگاہی کا دن ہے جو کہ پوری دنیا میں منایا جاتا ہے ۔مگر افسوس کہ حقوق کی فراہمی ملکی بنیادوں پر ہے جس سے دن تو منا لیا مگر آدھی آبادی کے ہنر سے فائدہ اٹھانے اور ان کو انسان ماننے کے انسانی قوانین پر نظر ثانی نہیں ہوتی ۔
میں بات پاکستان کی کر رہی ہوں جہاں عورتوں کے حقوق اور قوانین ملکی ریت اور روایت میں ہی اٹکے ہوئے ہیں ۔یہ ریتیں ، روایات ،اور اخلاقی کلچر فضا میں ایسے معلق ہیں کہ نوجوان عورت کو اس کے دماغ سے سوچنے کی بات تو دور سانس بھی اس کی مرضی سے لینےنہیں دیتے۔
ان ریتوں کو زندہ رکھنےکے پیچھے سرمایہ دار بھی کچھ کم منافقانہ کردار ادا نہیں کر رھا ہے۔ بلکہ عورت کو ایک پوسٹر کے علاوہ کوئی بہتر مواقع پیدا نہیں کر سکا جس سے عورت بھی اپنے ہنر کو سامنے لا سکے ۔اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار مذہب کی پشت پناہی سے پروان چڑھ رہا ہے جس سے نہ صرف عورت متاثر ہو رہی ہے بلکہ شعور رکھنے والے مرد بھی ذہنی اور معاشی بوجھ سے جلد ہی چالیس یا پچاس سے اوپر زندہ نہ رہ پائیں گے ۔
معاشیات کی غیر منصفانہ تقسیم اور تعلیمی نصاب میں اخلاقیات کا کانٹا نکالنے کے لئے ابھی عوام میں آگاہی ہوئی ہی نہیں تھی کہ میڈیا نے ہر ایشو پر مولویوں کو بحث پر بٹھا رکھا ہے ۔ جس سے نہ صرف مذہب کے نام پر خوف اور ہراس کو برقرار رکھا جاتا ہے بلکہ قندیل بلوچ جیسی نوجوان عورتوں کو ان کی اپنی مرضی سے کمائی کرنے کے مواقع فراہم بھی نہیں کرتا ۔
اپنے پدری سماج کےبے حیا جنسی مردوں سے خواتین اور بچیوں کو شکار تو بنوا لیتے ہیں وہاں ان کی بحثیں بیمار ذہنی جنسی مریض کی نہ تو سزا تجویز کر سکے ہیں اور نہ ہی علاج۔جہاں عورت کو عزت کے نام پر موت کے گھاٹ تو اتارا جاتا ہے مگر ہنر مند عورت کےلئے ایسے مواقع بھی پیدا نہیں کر سکا جو اس کی نوکری اور خاندانی زندگی کو بہتر اور آسان بنا سکے ۔
پاکستان کے اندر بے شمار غیر ملکی تنظیمیں عورتوں کی بہبود فلاح کے لئے فنڈز فراہم کرتی ہیں اور ساتھ ہی انسانی حقوق کی ڈیمانڈ بھی ۔مگر وہ بھی اتنا موثر طریقے سے کام نہیں کر پا رہی کیونکہ ملکی آئین اور ثقافت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔جس سے عام عورت کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔
پاکستان زرعی ملک ہے مگر عورت کے لئے زراعت کے مواقع نہیں پہلے تو عورت کو بیاہ کے مرد کے گھر جانا ہے دوسرا اس کو جائیداد میں برابر کا حصہ نہیں ملتا جس سے عورتوں کی ایک تعداد جو زراعت میں دلچسپی رکھتی ہے وہ اس پدری سماج کے سرد رویے سے تنگ آ کر کوشش ہی نہیں کر رہی ۔حالانکہ جمہوری ملکوں میں عورت اور مرد اپنے والدین کی وراثت میں برابر کے حق دار ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کی پالیسیوں پر عمل بھی ہوتا ہے ۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی آئی تو ہے مگر اس سے خاطر خواہ فوائد نہیں لئے جارہے بلکہ اس کو بھی ثقافت اور ریتوں کو ڈراموں کے ذریعے محفوظ کیا جا رہا ہے ۔نوجواں لڑکیاں کو جو کام کرتی ہیں ان پر خاندانی مسائل کا بوجھ ویسے ہی ہے ۔وہ نوکری بھی کریں مگر ساتھ خاندان کے بزرگوں کا بوجھ بھی قبول کریں بزرگ جو کہ پاکستان کے شہری ہیں۔
ان کی سہولت کے لئے نہ تو حکومت کا کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ ہی مذہبی ادارے ایسے مرکز بنانے کے بارے سوچتے ہیں جن سے بزرگوں کو گھر کی عورتوں کی غیر موجودگی میں بہتر دیکھ بھال مل سکے اور ان کی صحت کا سامان پیدا کر سکیں ۔ساتھ ہی مردوں کی تعلیم بھی اس اصول پر کی نہیں جاتی کہ وہ بھی والدین ہیں اور بچوں کی نگہداشت اور پرورش کے لئے ان کی حاضری گھروں اور خانہ داری کے امور میں کس قدر ضروری ہے ۔جو کہ جمہوری ملکوں میں ابتدائی تعلیم کے ذریعے باور کروائی جاتی ہے ۔
خیر جہاں تک پاکستان کے ملکی بنیادوں اور ان کے قوانین کی بات ہے وہاں ہم عورتیں آٹھ مارچ کے دن کے توسط سے انسانی حقوق کی اور پوری دنیا پر ایک جیسے خواتین کے حقوق کی ڈیمانڈ کرتی ہیں ۔کیونکہ پاکستانی آئین کو ہماری عزت اور ہماری ترقی کے راستے می رکاوٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی عورتوں کو جہیز نہیں بلکے سائنسی تعلیم اور نوکری کے مناسب مواقع چاہیں جو ہمیں اور آنے والی لڑکیوں کے لئے محفوظ اور ترقی کی راہ ہموار کریں ۔ ہمیں شادی کر کے مرد کے گھر نہیں جانا بلکہ ایک نیا گھر چاہیے جو میرے اور میرے ساتھی کے مشترکہ پیسے سے بنا ہو جس میں ہم ایک دوسرے کا احترام اور خیال رکھ کر خوش رہیں اور معاشرے کی بہتری اور اپنے بچوں کے لئے بہتر راہیں ہموار کر سکیں ۔
♦