کوی شنکر
بھگوان آج کل تہہ خانے میں رہتا ہے۔ یہ کسی کو پتا نہیں کہ وہ خود تہہ خانے میں رہتا ہے یا کسی نے اسے وہاں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ نہیں جانتے ہونگے کہ بھگوان کون ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں بتاتا ہوں۔
بھگوان میرا دوست ہے۔ میرے جنم کے ساتھ ہی اس کا بھی جنم ہوا اس حساب سے وہ میرا ہم عمر ہے۔ ہم نے ایک لمبا عرصہ ساتھ گذارا ہے ۔ تاریخ کا طویل سفر ہم نے ساتھ طے کیا۔ جنگیں دیکھیں، خون کی ہولیاں دیکھیں، بھائی کو بھائی کے ہاتھوں مرتے دیکھا، باپ کے سامنے بیٹی کی عزت کو تار تار ہوتے دیکھا۔ ہم نےاجالوں کا سپنا دیکھا تھا، سچ کا ساتھ دینے کا سپنا دیکھا ، بھوک و افلاس کو ختم کرنے کا بھی سپنا دیکھا، دنیا کو جنت بنانے کا بھی ہم نے سپنا دیکھا تھا لیکن ہمارا کوئی سپنا حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ کیوں کہ بھگوان تہہ خانے میں چلا گیا اور میں اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے میں جت گیا۔
بھگوان کو آج میں نے برسوں بعد دیکھا تھا اورمیں اسے پہلی نظر میں پہچان گیا کہ یہ تو میرا دوست، اور ساتھی بھگوان ہے۔ لیکن آج مجھے وہ ضعیف لگ رہا تھا۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ وہ واقع بوڑھا ہو گیا تھا یا تہہ خانے میں اندھیرے کی وجہ سے وہ مجھے ایسا دکھا تھا۔
آج اچانک اس کو سامنے دیکھ کر میں حیران رہ گیا، میں نے اس سے پوچھا ‘ بھگوان تم کہاں ہو۔۔۔ تم کہاں گم ہو گئے تھے۔ ۔ ۔ تم یہاں تہہ خانے میں کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔۔’ میرے کسی بھی سوال کا اس نے جواب نہ دیا۔ میں نے اس سے پھر پوچھا ‘ بھگوان کیا تم نے مجھ کو نہیں پہچانا۔۔۔ میں تمہارہ دوست اور ساتھی منو ہوں’ بھگوان نے میری طرف دیکھے بغیر کہا ‘ تم یہاں کیسے آگئے۔ ’ میں نے اسے کہا کہ‘ باہر اچانک آندھی آئی تھی۔۔۔دنیا تباہ ہو رہا تھی ۔۔۔۔ میں پناہ گاہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ ۔ تو مجھے یہ تہہ خانہ نظر آیا اور میں اندر چلا آیا۔ ۔ ۔ اس کا دروازہ بھی آندھی کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔۔۔’
اس نے میری بات ان سنی کرتے ہوئے پھر مجھ سے پوچھا ’ آندھی میں تمہیں کوئی اور پناہ گاہ نہیں ملی جو یہاں آ گئے۔۔۔۔’ میں نے اسے جواب دیا‘ میرے پاس اس پناہ گاہ کے سوا اور کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں تھی۔’
اس نے مجھ سے کہا‘ تم ہمیشہ میرے پاس ایسی ہی حالت میں آئے ہو۔ ۔ ۔ پہلے تم جب میرے پاس آئے تھے تب تم نے کہا تھا کہ سیلاب آیا ہے۔ ۔۔ ۔ ؟’
میں حیران رہ گیا اس کا حافظہ دیکھ کے۔ ‘ میں نے اسے کہا کہ‘ ہاں ہاں تو کیا ہوا۔ ۔ دوست ہی دوست کے پاس جاتا ہے۔ ۔ ۔’ اس نے کہا‘ جب آندھی ختم ہو جائے گی اور تم یہاں سے اپنے گھر چلے جاؤ گے۔ ۔ میری طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھو گے۔ ’
مجھے بھگوان کی بات سن کر شرمندگی ہوئی لیکن میں نے اسے بھگوان پرظاہر نہیں ہونے دیا۔۔ اور اسے کہنے لگا ‘اب کہ ایسا نہیں ہوگا ۔’ بھگوان اب بھی میری طرف نہیں دیکھ رہا تھا اور میری بات سن کر ہنس دیا اور پھر کہنے لگا۔ ‘ اچھا۔ ۔ ۔ اس بار کیا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔’ ‘میں تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا ۔ ۔ ۔ تم کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ ’ میں نے کہا۔
بھگوان اب بھی میری طرف نہیں دیکھ رہا تھا ۔۔ ۔ ۔ ۔ہم اس کے بعد کافی دیر تک خاموش رہے، نہ وہ کچھ بولا نہ ہی میں نے کچھ کہا۔ اندھیرا کافی پھیل چکا تھا اس لئے ہم ایک دوسرے کو اب دیکھ بھی نہیں پا رہے تھے۔ ۔ میں نے پھر خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ‘۔ ۔ ۔ ۔ میں تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا۔ ۔ تم کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ ۔ ۔ ’
بھگوان نے کہا’ یہ بات تم نے پچھلی بار بھی کہی تھی۔ ۔ یاد ہے تم کو۔۔۔ ۔’ میں اس کی بات سن کر آگ بگولا ہو گیا ۔ ۔ ‘ اور کہنے لگا ‘ تم ہمیشہ ملنے پر پرانی باتیں کیوں یاد دلاتے ہو۔ ۔ ۔ میں کہہ رہا ہوں نا کہ میں تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا۔ ۔ ۔‘ میں نے اسے مزید کہا کہ ‘تم کو میری کہی بات یاد ہے کیا تم کو اپنی کہی یاد ہے کہ تم نے مجھے کیا کہا تھا۔ ۔ ‘ تم کہتے تھے کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔۔ پھر تم خود کیوں یہاں تہہ خانے نما غار میں آکر چھپ گئے ہو۔ ۔ ۔ میرے ساتھ کیوں نہیں؟
بھگوان میری بات سن کر چپ ہو گیا۔ اور میں جا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ میں جتنا وقت تہہ خانے میں رہا، بھگوان نے میری طرف نہیں دیکھا ۔ میں وہیں بیٹھا رہا، رات کی کالی چادر ہٹ گئی اور میں باہر کی صورتحال دیکھنے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھا اور دبے پاؤں غار سے باہر نکل آیا۔ باہر آندھی تھم چکی تھی تاہم چار سو تباہی پھیل چکی تھی۔ میرے سامنے حد نگاہ تک طویل نہ ختم ہونے والی سڑک تھی اور دور پہاڑوں کے پیچھے سے سورج طلوع ہورہا تھا اور میں سڑک پر اس جانب چل پڑا۔
♦