تری پورہ شمال مشرقی بھارت کی سات ریاستوں میں تیسری سب سے چھوٹی ریاست ہے۔ تری پورہ، ارونا چل، میزو رام، آسام، منی پور،ناگا لینڈ اور میگھالے شمال مشرقی بھارت کی ایسی ریاستیں ہیں جنھیں’ سات بہنیں‘ کہا جاتا ہے۔ تری پورہ کی سرحدیں بنگلہ دیش اور بھارتی ریاستوں میز و رام اور آسام سے ملتی ہیں اور اس کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا محض تین فی صد ہے اور لوک سبھا میں یہاں سے صرف دو ارکان منتخب ہوتے ہیں ۔
فروری 2018 میں تین ریاستوں تری پو رہ ، میزو رام اور میگھالے میں ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ ان تین ریاستوں میں تری پورہ اس لحاظ سے مختلف اور منفرد تھی کہ اس میں گذشتہ 25 سال سے کمیونسٹ پارٹی ( مارکسسٹ) کی قیادت میں قائم لیفٹ فرنٹ کی حکومت تھی۔
تری پورہ میں پہلی مرتبہ 1978میں لیفٹ فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی تھی جو 1988 تک قائم رہی تھی۔ بعد ازاں 1993 میں ایک بار پھر لیفٹ فرنٹ کی حکومت قائم ہوگئی جو فروری 2018 الیکشن کے انعقاد تک 25 سال تک قائم رہی۔ مانک سرکار پہلی مدت کے سوا گذشتہ بیس سالوں سے ریاستی وزیر اعلیٰ تھے۔
فروری انتخابات میں ہوئے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے لیفٹ فرنٹ کو بری طرح شکست سے دوچار کردیا ہے۔ 60 ارکان پر مشتمل ایوان میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی اتحادی جماعت کے ساتھ مل کر 43 نشستیں جیت لی ہیں جب کہ کمیونسٹ پارٹی (ایم) کو صرف `16نشستیں ملی ہیں۔تری پورہ میں 2013 میں ریاستی اسمبلی کے جو انتخابات ہوئے تھے اس میں بی۔جے۔پی کو صرف 2.1 فی صد ووٹ ملے تھے جب کہ اس الیکشن میں اسے چالیس فی صد ووٹ ملے ہیں۔ ووٹوں کی تعداد اتنا بڑا اضافہ بہت حیران کن ہے۔
تری پورہ بھارت کی ان تین ریاستوں( دوسری دو کیرالہ اور مغربی بنگال) میں شامل تھی جہاں کمیونسٹ پارٹی( ایم )بائیں بازو کی دوسری جماعتوں کے اشتراک سے گذشتہ کئی دہائیوں سے برسر اقتدار تھی لیکن گذشتہ دس سالوں سے بھارت میں کمیونسٹ سیاست کے زوال کی بدولت یہ ریاستیں یکے بعد دیگرے کمیونسٹوں کے ہاتھ سے نکلتی چلی جارہی ہیں۔
مغربی بنگال جہاں کمیونسٹ بہت مضبوط خیال کیے جاتے تھے اور 34 سال سے لیفٹ فرنٹ کی حکومت قائم تھی وہاں ممتا بینر جی کی سربراہی میں ترنمول کانگریس نے لیفٹ فرنٹ کو شکست دے کر حکومت اس سے چھین لی تھی۔ کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ مغربی بنگال کے عوام بہت جلد ترنمول کانگریس سے تنگ آ جائیں گے اور لیفٹ فرنٹ دوبارہ بر سر اقتدار آجائے گا لیکن یہ امید پوری نہ ہوئی اور 2016 میں ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں ایک دفعہ ممتا بینر جی جیت گئی اور لیفٹ فرنٹ ریاستی اقتدار سے مزیددور ہوگیا ۔
مغربی بنگال اور تری پورہ میں شکست کے بعد اب کیرالہ ہی ایک ریاست ہے جہاں کمیونسٹ بر سر اقتدار ہیں۔ کیرالہ میں بھی مخلوط حکومت ہے ۔ کیرالہ میں ایک دفعہ لیفٹ فرنٹ تو دوسری دفعہ کانگریس کی قیادت میں قائم محاذ الیکشن جیت جاتا ہے وہاں کبھی بھی کمیونسٹ طویل مدت کے لئے بر سر اقتدار نہیں رہے۔
سال 1996-2004 کے درمیانی سالوں میں لیفٹ اپنی مقبولیت کی بلندیوں پر تھا۔ لیفٹ کی بلندی پرواز کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی بنگال کے وزیر اعلی جیوتی باسو کو وزارت عظمی کی پیش کش ہوئی تھی لیکن سی۔پی۔آئی( ایم ) نے یہ پیشکش مسترد کردی اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے مرکز کی سطح پر اقتدار سے دور ہوگئی ۔
ایک وقت تھا جب بھارتی لوک سبھا میں کمیونسٹ ارکان کی تعداد 62 تھی لیکن 2009 میں یہ تعداد کم ہوکر 24 رہ گئی اور 2014 یہ تعداد مزید کم ہوکر 12 ہوگئی ۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے الیکشن میں یہ تعداد مزید کم ہوجائے گی ۔
بھارت جہاں کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ ایک صدی پر محیط ہے اور پارٹی مختلف اوقات میں نہ صرف ریاستی سطحوں پر بلکہ مرکز میں بھی حکومتیں تشکیل دینے اور گرانے میں اہم رول کی حامل رہی ہے کیوں اتنی زوال پذیر کی راہ گامزن ہے۔ کچھ تو وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ کمیونسٹ پارٹی سے زیادہ یہ اس آئیڈیالوجی کا بحران ہے جس پر کمیونسٹ پارٹی ابھی تک عمل پیرا ہونے کا دعوی کرتی ہے ۔
یہ کمیونسٹ نظریہ ہے جو ان کے نزدیک تیزی سے بدلتی سماجی اور معاشی صورت حال میں غیر متعلق ہوچکا ہے۔ اب یہ نظریہ نوجوان نسل کو متاثر نہیں کرتا اور وہ اس نظریہ کے نام پر متحرک نہیں ہوتے۔ بھارت کا سماج سماجی ترقی کے جس پیٹرن پر گامزن ہے اس کے تحت بھارت کی نوجوا ن نسل اپنا تعلق یورپ اور امریکہ سے جوڑتی ہے نہ کہ کمیونزم اور کمیونسٹ پارٹی سے۔
کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ کمیونسٹ پارٹی اور لیفٹ فرنٹ میں شامل بائیں بازو کی دوسری جماعتوں میں نوجوان قیادت کا بری طرح فقدان ہے۔ تمام قیادت پچاس سے زائد کی ہے۔کمیونسٹ پارٹی (ایم) میں نظریاتی فرقہ پرستی ، شخصی چپقلش بہت زیادہ ہے۔ پارٹی کی مغربی بنگال کی شاخ اور کیرالہ کی پارٹی باہم دست و گریبان ہیں۔کیرالہ کی شاخ کی قیادت سی پی ایم کے سابق جنرل سیکرٹری پرکاش کرت کر رہے ہیں جب کہ مغربی بنگال کی قیادت موجودہ پارٹی جنرل سیکرٹری سیتا رام یشچری کے ہاتھ میں ہے۔یہ دونوں شخصیات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں پیش پیش رہتی ہیں۔
زوال کے اسباب معروضی ہیں یا موضوعی قرائن سے لگتا ہے کہ بھارت میں کمیونسٹ سیاست کا مستقبل خوش آئند نہیں ہے۔
♦