طیب شاہ مندوخیل
ہٹلر نے کہا تھا کہ ” اگر آپ جنگ پیدا نہیں کرسکتے تو کم از کم یہ پروپیگنڈہ جاری رکھیں کہ جنگ کا خطرہ ہے، لوگوں کو کبھی حالتِ سکون میں نہ رہنے دو،کیونکہ جب وہ امن میں ہوتے ہیں تو آپ غیر اہم ہوجاتے ہیں۔آپ کا جواز ختم ہوجاتا ہے۔خطرے میں ہی لوگوں کو آپ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔اس لیے خطرات پیدا کریں ۔اگر حقیقی خطرہ موجود نہیں تو خطرے کی فضاء پیدا کریں“۔
آپ ہٹلر کی بات سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن ایک بات سے آپ ضرور اتفاق کریں گے کہ شروع دن سے ہی ریاستی سطح پر ایک ایسے بیانیے اور پروپیگنڈے کی تشہیر کی گئی جس میں ہم نے ریاست اور اسلام کو کبھی بھی خطرے سے باہر نہیں دیکھا۔ غرض پیدائش سے اب تک اسلام اور اسلام کا قلعہ بیرونی یا اندرونی خطروں کی زد میں رہا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ اس زور وشور سے کیا گیا کہ عام عوام کو کبھی بھی چین کی نیند نصیب نہ ہوسکی۔
عوام اپنے بنیادی مسائل بھلا کر ملک اور اسلام خطرات سے نکالنے کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر فوج کے اسلحہ خانے اور سیاستدانوں کی تجوریاں بھرتے رہے۔لیکن آج تک نہ ملک خطرات سے باہر آیا اور نہ ہی اسلام کے قلعے میں اسلام ابھی تک پوری طرح محفوظ ہوسکا۔
سیاسی و فوجی اشرافیہ نے اپنی اہمیت اور اپنے وجود کو جواز بخشنے کے لیے اسلام اور ملک کے لیے خطروں کا جو بیانیہ تشکیل دیاتھا‛ بدقسمتی سے اس ریاستی بیانئے کا سب سے زیادہ نقصان پشتونوں نے اُٹھایا ۔
سادہ لوح پشتونوں کو کبھی ریاست کے سرحدوں کو محفوظ بنانے اور کشمیر سے اپنی شہہ رگ چھڑانے کے لیے ہاتھوں میں بندوق تھما کر جہادِ کشمیر میں لڑایا گیا تو کبھی اسلام کی حفاظت کے نام پر روس کے
خلاف جہاد کے لیے تیار کیا گیا۔ بدلے میں پشتونوں کو کیا ملا؟ بس بہادری کا تمغہ۔
کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد یحییٰ خان نے کہا تھا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا۔
نائن الیون کے بعد پرائی جنگ پشتون علاقوں میں لڑی جارہی تھی اور اصحابِ اقتدار پاکستان بچانے کی خوشخبریاں سنا تے رہے۔ باقی پاکستان بچا کر پشتون سرزمین کو لہو لہان کیا گیا۔ پاکستان اور اسلام کی خاطر لڑنے والے پشتون اس بار خود ایک خوفناک جنگ کے دلدل میں پھنس گئے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں کچلنے والی چیونٹیوں کی مانند ‛ پشتون خود طالبان اور فوج کی خوفناک لڑائی درمیان پِس کر رہ گئے۔
ایک طرف طالبان کے ہاتھوں مارکھا کر لاشیں چننے لگے ۔مشران قتل ہونے لگے۔ ۔ گھروں سے جنازے نکلنے لگے۔ مسجد اور حجرے خودکش دھماکوں کی نذر ہوگئے۔ دوسری طرف پشتون مختلف فوجی آپریشنوں میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوکر در بدر ہونے پر مجبور ہوئے۔ بمباری میں کولیٹرل ڈیمیج کا شکار ہونے لگے۔گھر اور بازار تباہ ہونے لگے۔
آپریشنوں کے بعد جو لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹے تو وہاں اُن کے بچے زمین میں دفن بارودی سرنگوں کا شکار ہونے لگے۔ جبکہ سیٹلڈ ایریاز میں رہنے والوں پر راؤانوار جیسے قاتل مسلط ہوکر اُن پر زمین تنگ کرنے لگے۔
غرض ہمیشہ ‘اسلام‛ اور ‘اسلام کے قلعے‛ کی حفاظت کے لیے لڑنے والے پشتون اس بار خود عدم تحفظ کا شکار ہوگئے۔
ایسے کھٹن وقت میں ریاست سے پشتونوں کے تحفظ کی ضمانت مانگنے کے لیے منظورپشتین کی صورت میں ایک ‘میرِکارواں‘اٹھا ہے جس نے ”پشتون تحفظ موومنٹ” تشکیل دی تاکہ پشتونوں کی سرزمین پر ایک بار پھر امن کی روٹھی ہوئی فاختہ کو منا کر پشتونوں کے سرزمین کو امن لوٹا سکے۔
میرِ کارواں ‘منظور پشتین‛ کی صدا پر دلوں کے ہزارہا قافلے اُس کے نقشِ قدم پر منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ یہ اُس کی سادہ اور خلوص سے بھری باتیں ہیں‛اُسکے اخلاص کی گرمی ہے‛اُسکا آہنی عزم اور استقامت ہے کہ لر وبر کے تمام پشتون اُس کے کارواں کا حصہ بن رہے ہیں۔ اسی لیے ہر خاص وعام پشتون کی زبان پر اُسکے تذکرے گردش کر رہے ہیں۔ کیونکہ منظور پشتین چراغ ہاتھ میں لے کر پشتونوں کے لیے امن ڈھونڈنے نکلے ہیں۔ وہ کبھی اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے دھرنا دیتے ہیں تو کبھی شیرانی‛ ژوب اور کوئٹہ میں پڑاؤ ڈالنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ منظور کا
اگلا پڑاو 9 تاریخ کو شیرانی اور ژوب کے بعد 11 تاریخ کو کوئٹہ میں ہے جہاں وہ تحریک کے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
منظور پشتین کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی بناوٹ کے بغیر سادہ اور عام زبان میں اپنے دل کا درد کا بیان کرتے ہیں۔ مجمع کے سامنے جب وہ اپنا سینہ چیر کر اپنا درد اور اپنے لوگوں آہیں وسسکیاں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تو مجمع پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ جو درد اور آہیں بیان کرتا ہے وہ تمام مظلوم پشتونوں کا اپنا درد اور اپنی آہیں ہوتی ہیں۔
اسلام آباد میں جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سامنے علاقے میں ہونے والی تباہی اور ظلم کی داستان بیان کی تو بقول اُن کے وزیراعظم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ لیکن افسوس کہ وزیر اعظم آنسو تو بہا سکتا ہے لیکن منظور پشتین کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتا۔
منظور پشتین کے ظلم کی داستان سن کر ریاستی ادارے شرم سے ڈوبنے اور منظور پشتین کے جائز اور انسانی حقوق کے مطالبات پوری کرنے کے بجائے‛ دوربین لےکر اس پر امن تحریک کے پیچھے بیرونی سازش ڈھونڈ نے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف اداروں کے پے رول پر لال ٹوپی والے ڈرامے اور نام نہاد محبِ وطن زید حامد نے تو پشتون تحفظ موؤمنٹ کے پیچھے ‘را‛ اور ‘این ڈی ایس‛ کا ہاتھ ڈھونڈ بھی لیا ہے اور اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے اس کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کررہا ہے۔یہ تحریک ریاستی اداروں کے اعصاب پر بھوت بن کر سوار ہوئی ہے ۔یہ ادارے اس بھوت کو بیرونی سازش قرار دے کر خود کو دھوکہ دینے اور حقیقت سے آنکھیں چرانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
ریاستی ادارے دوربین و خوردبین لے کر بیرونی سازش ڈھونڈنے اور بیرونی ہاتھ کے ساتھ خطرات کا پروپیگنڈہ کرنے کے بجائے پشتون تحفظ موؤمنٹ کے مطالبات پورے کرنے پر توجہ دے۔ کیونکہ ظلم کے خلاف اگر آگے منظور پشتون کھڑا ہے تو اُس کے پیچھے پوری پشتون قوم کھڑی ہے۔ اب پوری قوم کو ‘را‛ اور ‘این ڈی ایس‛ کا ایجنٹ تو نہیں کہہ سکتے۔۔؟
♦