لیاقت علی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کسی نہ کسی طرح میڈیا میں رہنا پسند کرتےہیں۔ وہ بطور جج ایسے فیصلے کرتے ہیں جوقانون و آئین سے زیادہ ان کے ذاتی عقائد اور فہم دین کےعکاس ہوتے ہیں۔
جسٹس صدیقی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ عدلیہ بحالی تحریک میں پیش پیش تھے۔ وہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے منتخب صدر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ اور جماعت اسلامی کے کوٹہ پر قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکے تھے۔
سنہ 2007 میں وہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کی وکالت کیا کرتے تھے۔ جسٹس چوہدری دوستوں کے لئے بہت کشادہ اور فراخ دل رکھتے تھے۔ انھوں نے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ دل کھول کر اپنے عدلیہ بحالی تحریک کے ساتھیوں اور دوستوں کو نوازا۔
جسٹس صدیقی کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ جسٹس صدیقی کی جج شپ بھی جسٹس چوہدری کی فراخ دلی کی مرہون منت ہے
جسٹس صدیقی جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کے بھائی ہیں کو جسٹس افتخار کی ایما پر نومبر 2011 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا پنجاب کے کوٹے میں ایڈیشنل جج مقرر کیا گیاتھا۔ بعد ازاں انھیں مستقل جج مقرر کردیا گیا۔
جسٹس صدیقی اس دو رکنی بنچ کا حصہ تھے جس نے گورنر پنجاب سلمان تاثر کےقاتل ممتاز قادری کے مقدمہ سے دہشت گردی کی دفعات ختم کردی تھیں گو اس کی سزائے موت کا بحال رکھا تھا۔ قانونی ماہرین کا موقف تھا کہ دہشت گردی کی دفعات کو ختم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سپریم کورٹ سے ممتاز قادری اگر بری نہیں ہوتا تو کم از کم اس کی سزائے موت ضرور ختم ہوجائے۔ جسٹس صدیقی ایک بار پھر اس وقت میڈیا کا توجہ بنے جب انھوں نے اسلام آباد میں قائم کچی آبادیوں کو گرانے میں ناکامی پر سی۔ڈی۔اے کے حکام کو جیل بھیج دیا تھا۔
جب وہ جج بنے تو انھیں وزیر اعظم نوازشریف کے حکم پر اسلام آباد میں کے سیکٹر3 -6/ایف میں ایک گھر الاٹ کیا گیا۔ جج صاحب کو یہ گھر پسند نہ آیا اور جس پر انھیں ایک دوسرا گھر سیکٹر7/3-ایف میں الا ٹ کیا گیا لیکن جج صاحب کو یہ گھر بھی پسند نہ آیا اور وہ خوب سے خوب تر کی تلاش کرنے لگے۔
چنانچہ انھیں سیکٹر4-7/ایف میں مکان نمبراے– 2 الاٹ کیا گیا یہ گھر تو جج صاحب کو پسند تو آگیا لیکن اس کی تزئین و آرائش کے لئے ان کے سیکرٹری نے سی۔ڈی۔اے کو خط لکھا اور سی۔ڈی۔اے نے ان کے گھر کے مختلف حصوں پر ایک کروڑ بیس لاکھ خرچ کئے۔ جج صاحب کو کبوتر بازی کا شوق ہے لہذا کبوتروں کے لئے کھڈے اور پنجرے بھی بنائے گئے۔
گھر کی تزئین و آرائش کے حوالے سے جج صاحب کے خلاف سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں درخواست زیر سماعت ہے۔ یہ درخواست سی۔ڈی۔اے کے ایک ڈائیریکٹر محمد انور گوپانگ نےدائر کر رکھی ہے۔
جسٹس صدیقی کا شمارجسٹس افتخار چوہدری کی طرح ان ججوں میں کیا جاسکتا ہے کہ جو ذاتی گلوریفکیشن کی خاطر قانون و آئین کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے فیصلے دیتے ہیں جن سے وہ میڈیا میں ان رہیں انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے فیصلوں سے پاکستان کے بین الاقوامی امیج پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
♦
3 Comments