پاکستان کی ویزہ پالیسی فرقہ واریت پرمبنی نہیں؟

طارق احمد مرزا

سقوط ڈھاکہ شیعہ سازش تھی:۔
۔’’شیعہ ہمیشہ سے ہی عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں۔ ایک طرف شیعہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے حملہ آورہلاکوخان کے سہولت کارتھے،۔
چنانچہ مشہور شیعہ عالم نصیرالدین طوسی بنفس نفیس گھوڑے پہ سوار ہوکر ہلاکو خان کے ہم رکاب رہا اور منگولوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے کے عمل کی نگرانی کرتا رہا۔
جبکہ موجودہ دور میں ان کا ایک ناقابل فراموش جرم ایک شیعہ(جنرل) یحییٰ خان کامسلمانوں کی سرزمین مشرقی پاکستان کو ہندوؤ ں کے حوالے کردینا تھا تا کہ وہ ان سے جیسا چاہیں سلوک کر یں۔
اس بیہیمانہ جرم کے نتیجے میں کٹاپھٹا بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا‘‘۔

قارئین کرام مندرجہ بالا ملخص اقتبا س ڈاکٹراحمد الافغانی کی کتاب ’’سراب فی ایران‘‘(ایران میں سراب) سے لیاگیا ہے جس کا 78 صفحات پر مبنی انگریزی میں ترجمہ بلال فلپس نے کیا ہے ۔بلال فلپس نے اس شیعہ مخالف فرقہ پرستانہ، منافرانہ اوراشتعال انگیزمواد پر مبنی کتاب کا ترجمہ کرنا کیوں ضروری سمجھااس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’
مسلمان علماء کی طرف سے شیعہ لٹریچر کا جواب نہ دیئے جاسکنے کی وجہ سے دنیا میں شیعہ ہوجانے والے مسلمانو ں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد سے شیعہ ازم کا خطرہ ایک عالمی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔لہٰذہ مسلمانوں کی طرف سے شیعیت کی رد میں تحریک چلانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔دنیا کے ہر کونے اور ہر زبان میں شیعہ ازم کے خلاف جدوجہدکرنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ اس ترجمہ کو جھوٹ کو ننگا کرنے اور اسلام کی حقیقی سچائی کو برتر ثابت کرنے کی سعی کا ایک مخلصانہ حصہ سمجھ کر قبول فرمائے‘‘۔ 
Translator’s Foreward
The Mirage in Iran by Dr .Ahmed Al-Afghanee Translated and Edited by Abu Ameenah Bilaal Philips.
Tawheed Publications. 1985
صفحہ 62 پہ بحیثیت ایڈیٹر ومترجم فٹ نوٹ میں لکھتے ہیں کہ جس طرح لیبیا کے کرنل قذافی کا انقلاب اسلامی نہیں بلکہ مارکسسٹ انقلاب تھا اسی طرح ایرانی انقلاب اسلامی نہیں بلکہ شیعہ انقلاب تھا اسے اسلامی ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا۔

فرقہ پرستانہ ویزہ پالیسی؟ :۔
قارئین کرام پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے تو پاکستانی شیعہ اورپاکستانی سنی علماء میں سے بعض پر سارا سال اور بعض پر محرم الحرام،یوم عاشور و چہلم حضرت امام حسین اور اسی طرح یوم شہادت حضرت علی ،یوم شہادت حضرت عمر فاروق کے حوالے سے بالخصوص پابندی عائد کردی جاتی ہے کہ وہ ان ایام میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں بھی داخل نہ ہوں لیکن دوسری طرف اس کاامیگریشن ڈیپارٹمنٹ ’’سراب فی ایران‘‘ جیسی کتاب کے شیعہ مخالف متعصب مترجم کو،جو ایک غیر ملکی سلفی سنی عالم ہیں اور شیعوں کو کھلم کھلا اسلام سے منحرف اور روگرداں گروہ قرار دیتے ہیں، پاکستا ن میں داخل ہونے کا ویزہ جاری کرتی رہتی ہے چنانچہ وہ ایک سے زائد بارپاکستان تشریف لا چکے ہیں۔
ان کا حالیہ دورہ فروری 2018 میں تھا ۔ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے لاہور کی ایک یونیورسٹی میں طالبعلموں سے خطاب فرمایا۔
https://dailytimes.com.pk/194872/banned-countries-bilal-philips-lectures-pakistani-university/

ابو امینہ بلال فلپس کون ہیں؟:۔
ابو امینہ بلال فلپس جمیکا نژادنومسلم ہیں جن کا پیدائشی نا م ڈینس بریڈلی فلپس تھا۔ عالمی سطح پر آپ ایک متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ کینیڈا کی شہریت رکھتے ہیں لیکن طویل عرصہ سے قطر میں رہائش پذیر ہیں جہاں سے آپ ایک آن لائن اسلامک یونیورسٹی چلا رہے ہیں جس کے آپ’’ چانسلر‘‘ہیں ۔آپ ایک اسلامک ٹی وی چینل پر بھی باقاعدگی سے پروگرام نشر کرتے ہیں۔اخبارات کے مطابق آپ پر امریکہ میں داخلہ پر پابندی عائد ہے جس کا ایک طویل پس منظر بیان کیا جاتا ہے۔بعض حلقے آپ کو نائن الیون کا غیر سزایافتہ شریک جرم بتاتے ہیں اور یہ بھی کہ موصوف کو امریکہ بدر کر دیا گیا تھا جس کے بعد آپ قطر شفٹ ہوگئے۔
بلال فلپس صاحب نے اپنے اوپر عائد ان تمام الزامات اوراطلاعات کو من گھڑت اوربے بنیاد قرار دیا ہے اوربار بار کہا ہے کہ یہ محض اسلام مخالف (اسلامو فوبیا) لابی کا پھیلایا ہوجھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے !
جیسا کہ پہلے بیان ہوا بلال فلپس عالمی طور پر ایک متنازعہ شخصیت ہیں جنہیں پاکستان اپنا ویزہ بہ آسانی عطا کر دیتاہے و رنہ عموماً وہ جس معروف ملک میں بھی داخل ہوئے ہیں یا داخل ہونے کی کوشش کی ہے وہاں ایک داستاں ضرور چھوڑ آئے ہیں ۔ان میں سے کچھ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔

فلپائن:۔
سنہ 2014 میں بلال فلپس جنوبی فلپائن میں داخل ہوئے لیکن امیگریشن اور پولیس ڈیپارٹمنٹ نے آپ کو ملک کے لئے ایک سیکیورٹی رسک اور ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔بلال فلپس نے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دینے پر آمادگی ظاہر کرکے خود کو رسمی قانونی چارہ جوئی سے بچا لیا۔اخبارکے مطابق فلپائن پولیس نے بتایا کہ انہیں بلال فلپس کے شدت پسند مسلمانوں کے ساتھ روابط کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
https://www.iol.co.za/news/world/philippines-deports-canadian-islamist-1750575
رائٹر نیوزایجنسی کے مطابق بلال فلپس نے مبینہ طور پر فلپائن کے مقامی مسلمانوں کے جذبات کو اکسا کر انہیں دہشت گردانہ کارراوئیاں کرنے کی ترغیب دی تھی جس کے بعد پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔فلپینی امیگریشن بیورو کے سربراہ نے بتایا کہ بلال فلپس کو اب بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔
https://uk.reuters.com/article/uk-philippines-immigration/philippines-to-deport-canadian-islamic-teacher-over-terror-links

کینیا:۔
سنہ 2012میں مبینہ طورپر بلال فلپس کو کینیا میں داخل ہونے کے چند گھنٹے بعد پولیس نے گرفتار کر لیاتھا۔اخبارکے مطابق کینیا کی انسداد دہشت گردی پولیس فورس کے سربراہ نے ایک بیان میں بتایا کہ بلال فلپس ایک متنازع شخصیت ہیں ۔وہ اپنے مخصوص تعلیمات اور نظریات سے لوگوں کو قائل کر لینے کا فن جانتے ہیں اور یہ امر ہمارے ملک کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔مبینہ طورپرپولیس چیف نے کہا کہ مسٹر فلپس دہشت گردحلقوں میں رہے ہیں۔کینیا کے ایک سینئر امیگریشن افسر جس نے بلال فلپس کو ڈی پورٹ کرنے کے فیصلے میں حصہ لیا ،بتایا کہ اس شخص کو یہاں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ہماری نوجوان نسل کی سوچ کو اپنی متنازعہ تعلیمات کے ذریعے زہرآلود کر سکتا ہے۔
http://nationalpost.com/news/canada/controversial-canadian-muslim-preacher-bilal-philips-deported-from-kenya-over-security-concerns

بنگلہ دیش:۔
سنہ 2015 میں بلال فلپس صاحب کو مبینہ طورپر بنگلہ دیش پہنچنے کے ایک روز بعد ہی امیگریشن کی سپیشل برانچ نے ہوٹل، جہاں وہ رہائش پذیر تھے، پہنچ کر انہیں بنگلہ دیش سے چلے جانے کا حکم سنایا۔انہوں نے ائرپورٹ آمد پر انٹری ویزہ حاصل کیاتھا ۔ان کا پروگرام بنگلہ دیش وزٹ کے دوران پانچ لیکچر دینا تھا۔ وہ اس سے قبل دوبار بنگلہ دیش کا دورہ کرچکے تھے لیکن اس مرتبہ بنگلہ دیش کے امیگریشن حکام نے انہیں بظاہر کوئی وجہ بتائے بغیر ملک چھوڑ دینے کا کہہ دیا۔
اخبار ڈیلی سٹار کے مطابق اس فیصلہ کی بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بلال فلپس کے امریکہ،برطانیہ،جرمنی اور آسٹریلیا میں داخلے پر پابندی عائد ہے کیونکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق مبینہ طور پربلال فلپس دہشت گردی میں ملوث ہے اور اغلباً خود کش حملہ آوروں کا حامی بھی ہے۔ 
http://www.thedailystar.net/bilal-philips-sent-back-29421

ملائشیا:۔
ملائشیا میں بلال فلپس کے پہنچنے پر ان کے خلاف ملائشین اسلامک ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر جو اہل سنت والجماعت ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں اور ملائشیا ہوم منسٹری کی سیکیورٹی اینڈ پبلک آرڈر ڈویژن کے سیکرٹری بھی اور اسی طرح جیلوں میں دہشت گردوں کی نظریاتی اصلاح کے بھی ذمہ دار ہیں ،مبینہ طورپر ایک طنزیہ اور تنقیدی بیان میں کہا کہ کیا اب عالمی دہشت گردی کے سپورٹر ملائشیا میں لیکچر دیا کریں گے؟۔اس پر بلال فلپس نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائرکردیا جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
http://www.themalaymailonline.com/malaysia/article/canadian-preacher-sues-zamihan-over-terror-support-claim
بلال فلپس نے جواباً کہا ہے کہ آج تک ان کے خلاف کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث ہونے یا دہشتگردوں کا حمایتی ہونے کا کوئی الزام سچا ثابت نہیں ہوا۔اور وہ یہ مقدمہ جیت کر رہیں گے۔

ادھر کاؤنٹرایکسٹریم ازم نامی ویب سائٹ پہ بلال فلپس کی ایک تقریر(فرمودہ 7؍دسمبر 2006) کا اقتباس موجود ہے جس میں انہوں نے مبینہ طور پر فرمایا کہ خود کش حملہ آورخودکشی نہیں کر رہا ہوتا۔وہ تو ایک فوجی ہوتا ہے جو خود کو حالتِ جنگ میں سمجھتا ہے ،چونکہ اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ فرنٹ لائن پہ جاکر دشمن کی فوج پر حملہ کر سکے اس لئے وہ اپنے محدود دائرہ کارکے اندر ایک ’’ملٹری ایکشن ‘‘کر تا ہے جس میں کچھ جانوں کا ضیاع ہو جاتا ہے۔ان حملوں کو اس تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے!۔‘‘
https://www.counterextremism.com/extremists/bilal-philips

ڈنمارک:۔
بلال فلپس سنہ 2011 میں ڈنمارک کا دورہ کرنے گئے تھے لیکن اب مبینہ طور پروہاں کی حکومت نے ان پر ڈنمارک داخلہ پر دوسال کی پابندی عائد کردی ہے۔
ڈنمارک حکومت کی امیگریشن منسٹر نے بلال فلپس سمیت چھ عدد ناپسندیدہ افراد کو نفرت کے پیغامبر اور شدت پسندمبلغ قرار دیا۔
“hate preachers” and “traveling fanatical religious preachers who try to undermine our democracy and fundamental values of freedom and human rights.”
http://www.dw.com/en/denmark-gives-two-year-ban-to-6-foreign-religious-hate-preachers
ایک بیان میں جناب بلال فلپس نے امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کی طرف سے ان پر عائدسفری پابندی کے حوالہ سے خود کو نیلسن منڈیلیا سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا کہ نیلسن منڈیلا پر بھی طویل عرصہ تک امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد رہی جو ان کے صدرمنتخب ہوجانے کے بعد بھی جاری رہی اور ان کو نوبل انعام ملنے کے بعد ہٹائی گئی۔اب اگر ان پر بھی اس قسم کی پابندی عائد ہے تو اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا ،اور یہ کوئی تشویش والی بات نہیں۔

قارئین کرام بلال فلپس نیلسن منڈیلا ہوں یا نہ ہوں،وہ مبینہ طور پر دہشت گرد ہوں یا نہ ہوں ،وہ ملائشیا میں اپنا مقدمہ جیت پاتے ہیں یا نہیں،مجھے اس سے غرض نہیں۔ نہ ہی مجھے اس سے غرض ہے کہ پاکستانی امیگریشن ڈیپارٹمنٹ بلال فلپس صاحب کو بنگلہ دیش،فلپائن،کینیا،آسٹریلیا،امریکہ،برطانیہ،ڈنمارک،جرمنی کی طرح اپنے لئے سیکیورٹی رسک سمجھتا ہے یا نہیں(پاکستان تو خود بھی دنیا کے لئے سیکیورٹی رسک کے حوالے سے مبینہ طورپر جون تک’’ گرے زون‘‘ میں شامل ہوسکتاہے) ۔

مجھے اگر کوئی غرض اور فکر ہے تووہ یہ ہے کہ بلال فلپس ،دہشت گرد ہونے یا دہشت گردوں کے ساتھ اپنے کسی تعلق یا رابطہ کا تومستقلاً انکار کرتے چلے آئے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں دیانت داری کے ساتھ حق بجانب بھی ہوں لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جناب بلال فلپس اعلانیہ طور پر شیعہ مسلمانوں کو اسلام سے منحرف شدہ طائفہ اور عالم اسلام کے خلاف سازشوں کا مرتکب قرار دیتے چلے آئے ہیں۔

انہوں نے ڈاکٹر احمد الافغانی کی مذکورہ بالاکتاب کا مترجم اور ایڈیٹرہونے کو اپنے لئے اعزاز اور باعث ثواب قرار دیا ہے۔ایک ایسی کتاب جس میں محب وطن پاکستانی عوام کے دلوں میں ایک شیعہ کو ملک کے دولخت ہونے کا ذمہ دار قراردے کر ملک میں فرقہ وار یت کو ہوادینے ،شیعہ مخالف جذبات بھڑکانے اور شیعہ پاکستانیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کی ہے۔

آپ جنرل یحییٰ خان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ان کی انتظامی و سیاسی غلطیوں یا کوتاہیوں پر لاکھ تنقید کریں اوران حوالوں سے ہزار بار نہیں لاکھ بار انہیں ایک ناکام حاکم اور سقوط ڈھاکہ کا بھی ذمہ دار قرار دے دیں۔ اس تنقید کو تو پروفیشنل، ایڈمنسٹریٹیو، پولیٹیکل یاٹیکنیکل تبصرہ اور تجزیہ سمجھ کر قبول کیا جاسکتا ہے ،لیکن یہ کہنا کہ چونکہ جنرل یحییٰ خان شیعہ تھا اس لئے اس نے ملک کو دولخت کرڈالاتاکہ ہندو خوش ہو جائیں، شیعہ شروع سے اسی قسم کی سازشیں کرتے چلے آئے ہیں تاکہ مسلمان ایک قوم بن کر نہ رہ سکیں وغیرہ،تو پھر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ بیان فتنہ پروری اور شرانگیزی کے سوا کچھ بھی نہیں،اس کا مقصد پاکستانی سنیوں کو پاکستانی شیعوں کے خلاف بھڑکاکر انہیں فساداور قتل وغارت پر اکسانا ہے۔

سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلال فلپس ایسے غیرملکی شیعہ مخالف (یا ’’شیعہ ازم‘‘ مخالف)متعصب شخص پر پاکستان میں داخل ہونے پہ کوئی پابندی نہیں تو پھر ہمارے بہت سے جھنگوی ،چنیوٹی ،حیدری وکراروی علماء کرام پر پاکستان کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں داخل ہونے پہ کیوں پابندی عائد کی جاتی ہے۔ان پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت پابندی عائد ہو سکتی ہے اور اگر کینیڈا کی ہی ایک اور متنازعہ مذہبی شخصیت پاکستانی نژادڈاکٹر طاہرالقادری کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جانے پر غور کیا جا سکتا ہے تواس کینیڈین غیر ملکی فرقہ پرست متنازعہ مولوی سے استثنائی سلوک کیونکر روارکھا جا رہا ہے؟۔

Comments are closed.