-
۔ ’’ آج بلوچ سماج میں درد اور امید کے درمیان عجیب سا رشتہ بن گیاہے ہڈیوں کے گودے میں اترنی والی درد جب حوصلہ توڑنے کے مقام پر آتی ہے تب امید ساتھ نبھاتی ہے ‘‘۔
ماہ رنگ بلوچ
میں تاریخ کے ا س پیریڈ میں جی رہی ہوں جہاں میں کہہ سکتی ہوں کہ ہمارے چار سو ہمہ قسم کے درد بکھرے پڑے ہیں لیکن ان سب پر اپنوں کے بے نام اور بے انت جدائی کا درد حاوی ہے مجھے درد اس بات کا نہیں کہ میں اس کرب میں مبتلا ہوں بس درد اس بات کا ہے کہ میں اکیلی نہیں بلکہ ایسے ہزاروں اس میں مبتلا ہیں۔
ابو کے لیے پریس کانفرنسز کے دوران علی اصغر بنگلزئی اور حافظ سعید الرحمن سمیت ایسے بہت سے خاندانوں سے ملاقات ہوئی ،انہیں دیکھ کر عجیب سی کیفیت طاری ہوتی تھی اور اپنا درد چھوٹا محسوس ہونے لگتا تھا۔ایسے ہی کسی احتجاج میں حافظ سعید الرحمن کی بہن سے ملاقات ہوئی اوران کے جوش و جذبے کو دیکھ کر مجھے اس وقت تعجب ہوا جب اس بات کا پتہ چلا کہ وہ پچھلے 9سال سے اپنے بھائی کے لوٹنے کا انتظار کررہی ہیں۔
میں نے ہمت کر کے ایک دن پوچھ ہی لیا ’’کیا آپ کوامید ہے حافظ کے آنے کی؟‘‘ تو اس نے پراسرار طورپر میری جانب دیکھ کہ کہا کہ’’ ہاں امید ہے اور یہی امید مجھے زندہ کئے ہوئے ہیں اور ماہ رنگ یاد رکھنا اس امید کو کبھی ٹوٹنے مت دینا، ابھی تو فقط 1سال ہوئے ہیں تمہارے ابو کو، یہ راستہ طویل ہیں اگر ابھی ہار مان گئی تو آگے کیسے چل پاؤگی‘‘۔
آج بلوچ سماج میں درد اور امید کے درمیان عجیب سا رشتہ بن گیاہے ہڈیوں کے گودے میں اترنی والی درد جب حوصلہ توڑنے کے مقام پر آتی ہے تب امید ساتھ نبھاتی ہے ۔کون سی امید؟
وہی امید جس نے مہلب کو چھوٹی عمر میں ہی بڑھیابنا دیا۔وہی امید جو حمیدہ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ،ایسے ایک دونہیں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ،اسی امید کے سہارے میں اور میرا بچھا کچاخاندان پچھلے ڈھائی مہینے سے اپنے بھائی ناصر کے بغیر بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔امید اور نا امیدی کے اس عالم میں میری سہارا میری کتابیں ہی رہیں۔جنہوں نے میرا ساتھ دیا۔
ابو ہمیشہ بھائی اور ہم بہنوں کو بٹھا کر کہا کرتے تھے کہ’’ اپنے کتابوں کا ساتھ کبھی مت چھوڑنا یہ قلم ہی ظلم کو ختم کر سکتی ہیں۔اکثر یہی تجویز ملی ہے کہ اس مایوسی کو ختم کرنے والی چیز صرف تمھاری کتاب ہیں، کتابیں ہماری طاقت ہیں۔ایلم کے گمشدہ ہونے کے بعد انہی کتابوں میں اپنی امید کو تلاش کی ہے ۔ایسے ہی کسی دن جب میری کتاب میری ساتھی بنی ہوئی تھی جب میری دوست نے جو ہمیشہ ملنے پر پہلے ناصر کا پوچھتی تھی آج خاموش تھی۔ میرے پوچھنے پہ اس نے بتایا ’’آج پھر وہ ایک ماں کے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے۔‘‘
ایک اور طالب علم سعید بلوچ لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہو گیا یہ خبر سنتے ہی میں نے اپنی کتاب کے جانب دیکھا تو یکایک میرے ذہن میں یہ خیال کوند گیا کہ جو کتاب مجھے ظلم سے نجات دلانے والی تھی آج وہی کتاب مجھ پہ ہونے والے ظلم کی وجہ بن گئی ۔
سعید یا ناصر نہیں بلکہ علم کیساتھ ظلم ہوا تھا جسے دنیا ظلم سے نجات کا راستہ تصور کرتی ہیں۔
سعید کے اغواء ہونے پر اسے دہشت گرداور بہت سے القاب سے نوازا گیا مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ سعید سے ڈاکٹر سعید بنناکتنا مشکل ہیں۔کتنے ایسی مقام آئے ہوں گے جہاں اس کا ہارنا طے تھا مگر وہ ہارا نہیں۔
جب ایک بلوچ خاندان میں پیدا ہوا، وہ تب بھی نہیں ہارا۔
جب اس کے سکول کوعسکری کیمپ بنادیا،وہ تب بھی نہیں ہارا۔
جب اپنے تعلیم کے کیلئے والدین کو تڑپتے دیکھا ،وہ تب بھی نہیں ہارا
جب اپنے باپ کے عزت کو اس کے مستقبل کے لئے کسی چیک پوسٹ پر اترتے ہوے دیکھا، وہ تب بھی نہیں ہارا
جب ظلم سے نجات دلانے والی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر شہر میں درد در کی ٹھوکریں کھائیں ہوں گی،وہ تب بھی نہیں ہارا۔
جب کئی بار کوششوں کے بعد اسے میڈیکل میں داخلہ ملا وہ تب بھی نہیں ہارا۔
بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں شرح خواندگی% 43 ہیں۔اس نے آخر کار اپنا نام% 43میں شامل کر لیا۔اسے پڑھنا تھا۔ایک بلوچ نوجوان کی طرح سعید کے بھی شائد کچھ خواب تھے وہ بھی کچھ بننا تھا اپنے ابا کا بوجھ ہلکا کرنا تھا۔ثابت کرنا تھا کہ بلوچستان میں جاہل اور نا خواندہ لوگ نہیں رہتے۔ اس طویل سفر میں اس کے جیت کا کم عرصہ ہی رہتا تھا کہ وہ ہار گیا۔ جس کتاب سے دوستی کی تھی ظلم کی تاریکیوں کو مٹانے کے لئے وہی اس کے اوپر ہونے والے ظلم کا موجب بنی۔ اسے ایک مجرم کہ طرح گھسیٹا گیا اور پیچھے رہ گئیں اس کی وہی کتابیں جو اس کی طویل جدوجہد کی ضامن تھے۔
آج سعید نہیں بلکہ علم کی ہار ہوئی ہیں۔اب شاید کوئی ماں اپنے بیٹے کاڈاکٹر سعید بننے کا خواب نہ دیکھے کیونکہ ایک ناخواندہ بیٹے پربھی ظلم کون گوارا کرتا ہے مگر ایک تعلیم یافتہ سعید پر ظلم نا قابل برداشت ہیں۔ظلم تو ظلم ہوتا ہے ظلم کا کسی مذہب فرقے یا زبان سے کوئی تعلق نہیں آپ ظلم کو کوئی نام دیں ،کوئی بھی تشریح چسپاں کریں مگرظلم کے معنی نہیں بدلے جا سکتے پھر وہ ظلم کسی پٹھان،بلوچ،ہندو یا عیسائی کیساتھ ہو مگر وہ کہلاتا ظلم ہی ہیں ۔
ہر سعید اور نقیب اللہ محسود کیلئے ہمارے سماج کو ایک ساتھ آواز اٹھانا چاہیے۔ آج ایک سعید امتحان نہیں دے سکتا تواس کے پیچھے اس کے پورے ادارے نے امتحان دینے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ادارہ جہاں ان کے خواب پورے ہونے تھے۔اسے تالا لگا دیا گیا ہے۔ یہ خوف کہ کل ان کی باری آ سکتی ہیں ان کی آنکھوں میں دیکھی جاسکتی ہیں مگر وہ اس خوف سے ابھر آرہے ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ ادارے کے بند ہونے سے ہمارا نقصان ہونے والا ہیں یا نہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح سعید غائب ہوتے گئے تو پیچھے صرف اداروں کے خالی عمارت ہی رہ جائیں گے، وہاں پڑھنے والے طالب علم نہیں۔انجام کیا ہونے والا ہیں اس جدوجہد کا،کیا ڈاکٹر لوٹ پائے گا اپنے کتابوں کے پاس؟
مگر کیا ڈاکٹر لوٹنے کے بعد بھی اپنے کتابوں کو اپنی زندگی میں وہ درجہ دے پائے گا۔
♥
One Comment